آج آزادیِ صحافت کاعالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں جہاں ایک جانب آمرانہ طرزِ حکومت عروج پارہا ہے تو دوسری جانب مصنوعی طرز جمہوری ممالک میں کم ازکم اتنا تو لازم ہے کہ وہاں صحافیوں کے اس کردار کو سراہا جائے کہ وہ عوامی مفاد میں سوال اٹھا سکیں۔ دنیا بھر کے صحافتی حلقوں نے رواں سال کو برمحل طور پر ’’صحافت برائے جمہوریت:دروغ گوئی کے عہد میں انتخابات اور صحافت کا تعلق‘‘ کے نعرے سے منسوب کیا ہے۔
جب صحافیوں کو عوام کا دشمن قرار دیا جانے لگے تو آگاہ رہیے کہ یہ وقت خطرے کا ہے۔ ایک آزاد اور خودمختار صحافت جمہوریت کی بنیادی قدر ہے اور یہ شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنانے کے لیے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جب حکومتیں صحافت پر پابندیاں عائد کرتی ہیں اور صحافیوں کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اور سماجی میڈیا کی مدد سے عوام میں جھوٹے بیانیے کے ذریعے ابہام پیدا کرتی ہیں تو سمجھ لیجیے وہ اپنی پالیسیوں اور اقدامات کی شفاف جانچ سے بچنا چاہتے ہیں۔ صحافی اپنی جان پر کھیل کر ایسی صورتِ حال کا مقابلہ کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحافت(IPI)جس سے دنیا کے قریب ایک سو ممالک کے ہزاروں صحافی وابستہ ہیں، کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال 55 صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں سے اکثر طاقت کے ایوانوں میں چھپی کرپشن کو بے نقاب کرنے میں مصروف تھے۔ تاہم پاکستان میں مارے گئے صحافیوں کی تعداد آزادیِ صحافت کو جانچنے کا پیمانہ نہیں ہے۔
گذشتہ چند سالوں میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد کا تقابل کیا جائے تو سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق سال 2010 اور 2011 میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران پندرہ صحافی قتل ہوئے جبکہ سال 2015 میں مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد چار تھی۔ سب سے پریشان کن صورت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قتل کے محض تین واقعات میں ذمہ داران کو عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ملک میں صحافت کی صورت حال یہ ہے کہ مدیران کو سخت دباؤ کا سامنا ہے، کبھی تو انہیں ناصحانہ انداز میں سمجھایا جاتا ہے کہ اس موضوع پر بات کرنے سے باز رہیں، کبھی منتخب نمائندوں کی ہزاروں کے مجمعے میں کی گئی تقاریر کو نشر کرنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے، کبھی خبروں کو ایک خاص رخ دینے کی ہدایت کی جاتی ہے اور کبھی کسی ایک موضوع پر یکسر آنکھیں بند کرنے کا حکم جاری ہو جاتا ہے۔ ان احکامات پر عملد رآمد کروانے کاانداز جابرانہ ہے اوران احکامات کی حکم عدولی پر جو ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں ان میں بدنام کرنے کی مہم، جسمانی تشدد، گمشدگی اور غداری جیسے بدنما الزامات کے ذریعے قانون کی پیچیدہ الجھنوں میں مبتلا کرنا شامل ہے۔ صحافتی حلقوں کی مزاحمت کو آہنی ہتھکنڈوں سے نمٹنے کی روش اختیار کی جاتی ہے، اخبارات کی ترسیل روک دی جاتی ہےاورناظرین تک ’نافرمان‘ چینل کی رسائی محدود کردی جاتی ہے۔
انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے والے عالمی ادارے نے پاکستان میں ہوئے 2018 کے عا م انتخابات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ یہاں سیاسی مباحث کے لیے بطور پلیٹ فارم میڈیا کےبنیادی کردار کو دھمکی آمیز ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے روکا گیا، نتیجتاً صحافت پر خود ساختہ پابندیاں عائد ہوئیں اور انتخابات کی کوریج متاثر ہوئی۔ یوں صحافت کو کھوکھلا بنا کر انتخابات کی غیر متعصب جانچ پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو ان ممکنات پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ ہوسکتا ہے ایک دن انہیں بھی اس طرح کی خبروں کی ترسیل کے لیے آزاد صحافت کی ضرورت پڑ جائے۔
بشکریہ ڈان، مترجم:شوذب عسکری
فیس بک پر تبصرے