مسلم لیگ (ن) اپوزیشن میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار

1,044

جیسے وزیراعظم عمران خان نے سول بیوروکریسی اور کابینہ میں بڑے پیمانے پہ ردّ و بدل کر کے معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر اپنی حکومتی ٹیم کی ازسرنو صف بندی کر لی، اسی طرح مسلم لیگ نواز نے بھی مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے پارٹی کی تنظیم نو کے ذریعے بڑی پالیسی شفٹ لے کر قومی سیاست میں بھرپور مزاحمتی کردار ادا کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اگرچہ سب کو معلوم ہے کہ سیاسی نظام میں رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں ارباب بست و کشاد کے کنٹرول میں رہیں گی لیکن پھر بھی تغیرپذیر عوامل حکومتی ڈھانچے اور سیاسی نظام میں کسی نامطلوب ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن سکتے ہیں، ہرچند کہ موجودہ حالات میں ہمارے لئے اچانک کسی بڑی تبدیلی کی توقع کرنا تو ممکن نہیں ہوگا لیکن بہرحال رفتہ رفتہ یہی تغیرات از خود تقسیم اختیارت کی کسی نئی سکیم پہ اتفاق رائے پر منتج ہو سکتے ہیں۔

حیرت انگیز طور پہ وزیراعظم عمران خان نے جس دن ایف بی آر کے چیئرمین اور گورنر اسٹیٹ بنک کو بدلنے کا فیصلہ کیا اسی روز مسلم لیگ کے لیڈر نوازشریف نے بھی مختصر دورانیہ کی عبوری ضمانت کی مدت ختم ہونے سے دو دن قبل مزاحمتی کرداروں کو آگے لانے کی حکمت عملی اپنا کے پارٹی کے اندر مفاہمت و مزاحمت کے بیک وقت دومتضاد نقطہ ہائے نظر کی بساط لپیٹ دی۔ یہی اختلاف رائے نواز لیگ کے پاؤں کی زنجیر بنا ہوا تھا جس سے بلآخر نجات پا لی گئی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ مسلم لیگ اب نواز شریف کے”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ کی علمبردار بن کے ابھرے گی اور اسی نعرہ کے فروغ کی خاطر ہی پارٹی کی عنان انتہائی جارحانہ روش رکھنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پنجاب مسلم لیگ کی قیادت رانا ثناء اللہ جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کے حوالے کرنے کے علاوہ نواز شریف کی سیاسی وارث مریم نواز کو بھی پہلی بار پارٹی میں اہم عہدہ دینے کا فیصلہ کر کے پنجاب میں ایک نئے سیاسی تمدن کی بنیاد رکھ دی گئی، جس کے دُور رس اثرات قومی سیاست کی نئی صورت گری کا وسیلہ بن سکتے ہیں۔ حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ مستقبل کی سیاست میں مریم نواز کا رول قبول کر لیا جائے گا۔

اس حقیقت سے وزیراعظم عمران خان سمیت ہرکوئی واقف ہے کہ جب تک نواز لیگ صحیح معنی میں اپوزیشن جماعت کا کردار ادا نہیں کرتی اس وقت تک حکومت مخالف جماعتوں کی جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائے گی

یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ نواز لیگ کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے لندن میں اپنے قیام کی مدت بڑھا کے پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفٰی اور پارٹی امور سے لاتعلقی اختیار کر کے ان لوگوں کیلئے میدان خالی کر دینے کا فیصلہ اچانک نہیں کیا جو مریم نوازکی طرح مفاہمت پہ مزاحمت کو ترجیح دیتے تھے بلکہ اس کام کیلئے مناسب ہوم ورک کیا گیا ہو گا کیونکہ انسان کسی اچھی چیز کا خیال اس وقت ترک کرتا ہے جب اس سے بہتر چیز ملنے کی توقع ہو، یقیناً جو لوگ نواز لیگ کی کہنہ مشق قیادت کے کام کرنے کے انداز سے واقف ہیں وہ ضرور جانتے ہوں گے کہ اس پوری مساعی کے پیچھے طویل سوچ بیچار اور موثر سیاسی ڈپلومیسی کار فرما ہو گی۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ان حالات میں شہباز شریف کی لندن میں موجودگی پارٹی کیلئے خفیہ سیاسی رابطہ کاری کا بامقصد ذریعہ بنی ہوئی ہے، افواہ ہے کہ انہوں نے وہیں لندن میں مخدوم احمد محمود اور چوہدری شجاعت سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔لیکن فی الوقت مسلم لیگ نواز مقتدرہ سے تصادم کی بجائے سیاست میں ایک مثبت مگر فعال کردار کی متمنی نظر آتی ہے۔

اس حقیقت سے وزیراعظم عمران خان سمیت ہرکوئی واقف ہے کہ جب تک نواز لیگ صحیح معنی میں اپوزیشن جماعت کا کردار ادا نہیں کرتی اس وقت تک حکومت مخالف جماعتوں کی جدوجہد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پائے گی اور شہباز شریف کی موجودگی میں متحدہ اپوزیشن کو فعال بنانا ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ ایک اچھے منتظم ہونے کے علاوہ طاقت کی دائیں جانب رہنے کا فن ضرورجانتے ہیں لیکن فطرتاً وہ حزب مخالف کا رول ادا کرنے کے ہنر سے آشنا ہیں، نہ متضاد خیال سیاسی قوتوں کو اپنے گرد اکھٹا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کام خاقان عباسی جیسے پراگندہ طبع انسان سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا اور نواز لیگ نے جمہوری سیاست کے دوام کیلئے ایک اہل شخص کا انتخاب کر کے ابتدائی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ شاید حالات کے جبر اور آٹھ ماہ کی رابطہ کاری کے نتیجہ میں اپوزیشن جماعتوں کی مساعی کو باورآور بنانے کی خاطر مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ کو فعال سیاسی کردار ادا کرنے کی مہلت مل گئی ہو۔ یوں لگتا ہے کہ نواز لیگ کو خوف سے آزادی مل رہی ہے اور وہ شکست کی گرد جھاڑ کے پھر سے کھڑی ہونے کیلئے تیار ہے، اگر ایسا ممکن ہوا تو اس سے مجموعی سیاسی ماحول میں اک گونہ توازن پیدا ہونے کے علاوہ معاشی بحران سے نمٹنے کی خاطر اٹھائے گئے غیرمقبول اقدامات کے مضمرات کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ بلاشبہ صحت مند سیاسی عمل کے فوائد صرف ایک طبقہ تک محدود نہیں ہوتے بلکہ اس کے ثمرات سے پورا معاشرہ یکساں بہرہ مند ہوتا ہے۔

نواز لیگ کے پیش نظر اس وقت اقتدار کا حصول نہیں ہو سکتا بلکہ ابتدا میں انہیں اپوزیشن میں بیٹھ کے ویسا آزادانہ کردار ادا کرنے کی مہلت چاہیے جیسی نواز شریف کے عہد حکومت میں تحریک انصاف کو میّسر تھی۔ نواز لیگ کی نئی صف بندی سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ شہباز شریف کی کنارہ کشی سے لیگ کو حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کیلئے جس قسم کی ٹیم اور سہولت درکار تھی وہ اسے مل  چکی ہے۔ اس امر میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ نواز شریف اُس راستہ سے اقتدار طلب نہیں کریں گے جس طریقہ سے عمران خان کو عنان حکومت ملی۔ نواز لیگ کو دوبارہ پاور میں آنے کیلئے مسلمہ جمہوری اصولوں کے مطابق ہموار سیاسی عمل کی بحالی اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے حاصل کرنا ہو گا۔ چنانچہ مسلم لیگ اب مطلوب سیاسی ماحول بنانے کیلئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بیٹھی اپوزیشن جماعتوں کو آئین و قانون کی بالادستی کے ون پوائینٹ ایجنڈے پہ اکھٹا کرنے کی کوشش کرے گی جو آخر کار ایک ہموار جمہوری عمل کی بحالی کا وسیلہ بن سکتی ہے۔ اس ماحول کی استواری کے لیے ملک میں کارفرما پریشر گروپوں کے علاوہ مرکزی دھارے کا میڈیا اور وکلاء تنظمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں نیب کی سرگرمیاں مدھم پڑتی جائیں اور قومی سیاست میں ملک کی ساری پارٹیوں کو سیاسی کردار ادا کرنے کے یکساں مواقع ملیں اور مولانا فضل الرحمٰن کی اپوزیشن کو اکھٹا کرنے کی آرزو بھی جلد پوری ہو جائے۔ بہرحال اس بات کا حتمی فیصلہ اگست تک ہو جائے گا کہ  وقت کی بے رحم گردشیں حالات کے دھارے کو کس سمت لے جاتی ہیں اور اپوزیشن کا کاروان ِجمہوریت جانبِ منزل کس دھج سے روانہ ہوتا ہے۔

امر واقع یہ ہے کہ پچھلے اٹھ ماہ کے دوران خیبر پختونخوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی بے عملی اورمجموعی اقتصادی بدحالی کو سنبھالنے میں وفاقی حکومت کی ناکامی نے رائے عامہ کو برہم کرکے اپوزیشن جماعتوں کے بیانیہ کی حمایت بڑھا دی ہے۔ ادھر روزافزوں معاشی مشکلات کے علاوہ بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کو اعتدال پہ لانے کیلئے بھی ہموار سیاسی عمل کی بحالی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ریاست کو معاشرے میں پھیلی ہوئی شدت پسندی کے خاتمہ کے لئے عالمی اداروں کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھی وسیع تر عوامی حمایت درکار ہوگی، جس کا حصول سیاسی جماعتوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ریاست کو بالرضا یا بأمرمجبوری ہر حال میں اور جلد سیاسی عمل کو ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔ امید ہے ان حالات میں اپوزیشن جماعتیں ملک و قوم کی خاطر مثبت کردار ادا کرنے کی روایت برقرار رکھیں گی۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...