26ویں آئینی ترمیم اور سیاسی جماعتوں کے مفادات
بالآخر ایوانِ زیریں سے وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے چھبیسواں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے بھاری اکثریت سے منظور ہوگیا اور جس طرح قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار نے باہمی اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ بل بغیر کسی رکاؤٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ سے بھی منظور ہوجائے گا۔ اس ترمیم سے قبائلی اضلاع سے خیبر پختونخوا اسمبلی کے 16 عام اور پانچ مخصوص نشستوں پر دو جولائی کو ہونے والےانتخابا ت کا سلسلہ رک جائے گا۔
ویسے تو پچھلے سال جولائی کےاواخر میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں روز اول ہی سے حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے مگر اچانک پارلیمانی نشستوں میں اضافے کے نام پر پیش کیے جانے والے ترمیمی بل پر دونوں جانب باہم شیروشکرہوگئے۔ پچھلے 9 مہینوں سے پختونوں کو درپیش سیکورٹی، معاشی اور سیاسی مسائل کی ابتری پر چیخنے والے پختون تحفظ تحریک سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر بھی حکمران جماعت کے لیے اس مقام پہ لاڈلے بن گئے۔ حالانکہ ابھی تک تحریک انصاف کی جانب سے ان دونوں ممبران اسمبلی کی جانب اٹھائے جانے والے دیگر نکات پر کسی قسم کا جواب دینے کی زحمت نہیں کی گئی ہے۔ تاہم یہ آئینی ترمیم بل تحریک انصاف کی حکومتی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت کی شکل میں سامنے آیا کیونکہ اسے موجودہ ایوان کی پہلی قانون سازی کا اعزاز بھی حاصل ہوگا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق قبائلی اضلاع سے 16 عام نشستوں کے لیے داخل کردہ 439، خواتین کی چار نشستوں کے لیے 30 اور غیر مسلم اقلیتوں کی ایک نشست کے لیے 9 کاعذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے تاہم 26 ویں آئینی ترمیم کی ایوان بالا اور صدرمملکت کی منظوری کے بعد یہ شیڈول متاثر ہوگا۔ اور ان انتخابات کے لیے ازسر نو حلقہ بندیاں ہوں گی۔ اس دوران 18 سال کی عمر تک پہنچنے والےافراد کی بحیثیت ووٹر رجسٹریشن کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ اس طرح ان صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات کا سلسلہ کم از کم 6 مہینوں میں مکمل کر نا ناممکن ہوجائے گا۔
نئے آئینی ترمیمی بل کی ایوان بالا اور صدر سے منظوری کے بعد دوجولائی کو ہونے والے انتخابات کا شیڈول منسوخ تصور ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات مؤخر ہونے سے نہ صرف حکمران جماعت پی ٹی آئی بلکہ پختون تحفظ تحریک سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی کو بھی فائدہ حاصل ہوگا
ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر وکیل اعجاز مہمند کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت کی کوشش ہے کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابی عمل کا سلسلہ 2021 میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات تک معطل رہے کیونکہ ان کے بقول فی الوقت تمام تر قبائلی علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن کافی کمزور ہیں اور اسکے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں حزب اختلاف کی جماعتوں کو برتری مل جائے گی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری جنرل اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے ترمیمی بل کی منظوری کو خوش آئندہ قرار دیا مگر اس کے ساتھ یہ کہا کہ ان نشستوں پر انتخابات جلد از جلد ہونے چاہئیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اگر 25 آئینی ترمیم میں پہلے ہی نشستوں کا تعین ہوتا توآج قبائلی عوام صوبائی اسمبلی میں نمائندگی سے محروم نہ ہوتے۔جمیعت العلماء اسلام (ف) کے رہنما عبدالجلیل جان کا کہنا ہے کہ اس ترمیمی بل کا اعزاز ان کی جماعت کو حاصل ہے کیونکہ سب سے پہلے جمعیت العلماء اسلام (ف) سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالشکور نے یہ مسئلہ اُٹھایا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ نشستوں میں اضافے سے قبائلی عوام مطمئن ہوں گے اور ان کے زیادہ تر مسائل ومشکلات کےحل ہونے میں مدد ملے گی۔ جماعت اسلامی کے ضلع خیبر کے امیر شاہ فیصل آفریدی نے بھی ترمیمی بل کی منظوری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کم از کم قبائل کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا مداوا ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد قبائل کے ساتھ کیے جانے والے تمام وعدوں کو ایفا کرنے سے قبائلی عوام کو حقیقی تسلی اور خوشی حاصل ہوگی۔ پختو ن تحفظ تحریک کے رہنما عبداللہ ننگیال نے بھی نشستوں میں اضافے کے حوالے سے ترمیمی بل کی منظوری پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب پارلیمان اور سیاسی اداروں میں لوگوں کو جائز نمائندگی حاصل ہوگی تو ان کے مسائل جلدی حل ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ قبائل کی آبادی زیادہ ہے مگر ماضی میں ہونے والی مردم شماریوں میں اسے کم ظاہر کردیا گیا ہے۔ لہذا ملک کے دیگر علاقوں کی طرح قبائلی اضلاع کے لوگوں کو بھی آبادی کے تناسب کی بنیا د پر صوبائی اور قومی اسمبلی کے علاوہ سینٹ میں نمائندگی دینی چاہیے۔
نئے بلدیاتی نظام میں ضلعی حکومت یا ضلعی نظام کی عدم موجودگی کے باعث ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو براہ راست مداخلت کرنے کے راستے کھلے مل جائیں گے
سیاسی تجزیہ کاروں اور ماہرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیمی بل کی ایوان بالا اور صدر سے منظوری کے بعد دوجولائی کو ہونے والے انتخابات کا شیڈول منسوخ تصور ہوگا۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخابات مؤخر ہونے سے نہ صرف حکمران جماعت پی ٹی آئی بلکہ پختون تحفظ تحریک سے تعلق رکھنے والے ممبران قومی اسمبلی کو بھی فائدہ حاصل ہوگا۔ فی الوقت حکومت ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں تمام تر ترقیاتی منصوبوں پر عملد درآمد منتخب ممبران قومی اسمبلی کے مشوروں کے مطابق کرتی ہے۔ صوبائی اسمبلی کے ممبران کے انتخاب کے بعد یہ احتیارات انہیں براہ راست منتقل ہوجائیں گے۔ اسی لئے پاکستان تحریک انصاف اور پختون تحفظ تحریک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے آئینی ترمیمی بل کے منظوری پر متفق ہوگئے۔
26 ویں آئینی ترمیمی بل کی منظوری سے چند ہی دن قبل حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے منتخب ممبران اسمبلی کی خوشنودی کی خاطر پچھلی کئی دہائیوں سے جاری بلدیاتی نظام کو بھی معطل کردیا۔ 2015 کے اپنے ہی نافذکردہ بلدیاتی نظام میں ترمیم کرکے اس میں شامل ایک اہم کڑی یعنی ضلعی نظام یا ضلعی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا۔ اور یہ نظام وزیراعظم عمران خان کی ہدایات کے مطابق پنجاب میں بھی نافذ کردیا گیا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں ضلعی حکومت یا ضلعی نظام کی عدم موجودگی کے باعث ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو براہ راست مداخلت کرنے کے راستے کھلے مل جائیں گے۔ ملک میں رائج مالیاتی اور انتظامی نظام کے تحت وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے ضلعی حکومتوں کے ذریعے تحصیل، ٹاؤن اور یونین کونسلوں کو روزمرہ کے اخراجات اور ترقیاتی منصوبوں کے لئے فنڈز مہیا کئے جاتے ہیں۔ مگر اب ضلعی حکومت یا ضلعی بلدیاتی نظام میں سب کچھ یا تو ڈپٹی کمشنز کے ہاتھ میں ہوگا یا صوبائی اسمبلی کے قوانین کے مطابق ممبران صوبائی اسمبلی پر مشتمل ضلعی ترقیاتی مشاورتی کمیٹیوں کے پاس۔ ان حالات میں نہ صرف یونین کونسل بلکہ تحصیل اور ٹاؤن ناظمین بھی صوبائی حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے۔
فیس بک پر تبصرے