کیچ، ایڈز سے متأثر بلوچستان کا دوسرا بڑا ضلع

619

محکمہ صحت کیچ کی جانب سے حالیہ دنوں ایڈز سے متعلق شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2015 سے لے کر اب تک نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت 310 مریض رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں۔ جن میں 250 افراد کا تعلق کیچ سے، 27 کا گوادر، 31 کا لسبیلہ، جبکہ ایک ایک کا آواران اور پنجگور سے ہے۔ اس وقت 107 افراد کا علاج چل رہا ہے۔ 85 نے علاج گاہ آنا چھوڑ دیا ہے جبکہ 62 مریض ایچ آئی وی ایڈز کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔ یہ مرض 231 افراد میں غیرمحفوظ جنسی تعلقات کی بنا پر، 54 کو ڈرگ  استعمال میں آنے والی سرنجوں کے دوبارہ استعمال سے، سوئی کے استعمال سے 2، اور ماں سے ماں سے یہ وائرس 7 بچوں میں منتقل ہوا۔ تاہم 11 افراد کی بیماری کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔

بلوچستان میں اس وقت ایچ آئی وی ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد 5000 کے آس پاس بتائی جاتی ہے۔ تاہم نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں رجسٹرڈ مریضوں کی کل تعداد 1240 ہے۔ جن میں 182 مریضوں کی موت واقع ہوگئی ہے۔ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام اس وقت بلوچستان کے دو اضلاع میں کام کر رہا ہے۔ ادارے نے مارچ 2015 کو سول ہسپتال کیچ میں اپنا سیٹ اپ قائم کرکے کام کا باقاعدہ آغاز کیا، جہاں مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم شعور و آگاہی کے حوالے سے اب تک ادارے کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ ضلعی آفیسر صحت فاروق احمد رند کا کہنا ہے کہ جب تک علاقے میں آگاہی سیشن اور سیمینارز کا انعقاد نہیں کریں گے اور بلڈ اسکریننگ نہیں کی جاتی تو یہ مرض مزید پھیلتا رہے گا۔ ”ہم نے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام  کے مسائل بارے حکام کو آگاہ کیا ہے مگر ان کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے“۔ کیچ اور اس سے ملحقہ اضلاع میں لوگ انٹرنیٹ اور اخبارات کی عدم دستیابی کے سبب معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ معلومات تک عدم رسائی اور لاعلمی سے ایڈز سمیت بے شمار بیماریوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہی نہیں ملتی جس کی وجہ سے وہ دیسی ٹوٹکوں سے ان بیماریوں کا علاج کرتے رہتے ہیں۔ ریڈیو ایک اہم ذریعہ ہو سکتا ہے، اس موضوع پہ پروگرام ترتیب دے کر ان تک معلومات پہنچائی جا سکتی ہیں۔ یا اسکول ہیلتھ سیشن اور کمیونٹی ہیلتھ سیشن کے ذریعے آگاہی دی جا سکتی ہے۔

صوبائی سربراہ ایڈز کنٹرول پروگرام افضل خان زرکون کا کہنا ہے کہ ایڈز کو کنٹرول کرنے کے لیے صوبائی حکومت تعاون نہیں کر رہی ہے۔ ہم نے مالی سال 2018-19 کا بجٹ پرپوزل اگست 2018 میں صوبائی حکومت کو ارسال کیا تھا جو مئی 2019 کو جاری ہوسکا۔ اب ایک مہینے میں اس بجٹ کے ساتھ ہم کیا کریں گے۔ بجٹ بروقت نہ ملنے کی وجہ سے پروگرام بھی متأثر ہو رہا ہے۔ آگاہی مہم کے لیے صوبائی حکومت سے امداد طلب کی گئی۔ اس نےمحض 5 لاکھ روپے دیے۔ اب اتنی رقم سے پورے صوبے کے اندر آگاہی مہم کیسے چلائی جاسکتی ہے؟ ہم نے گوادر، سبی، لورالائی، لسبیلہ اور نوشکی میں پانچ  سینٹرز کے قیام کا مطالبہ کیا، وہ بھی رد کر دیاگیا۔

ہم نے مالی سال 2018-19 کا بجٹ پرپوزل اگست 2018 میں صوبائی حکومت کو ارسال کیا تھا جو مئی 2019 کو جاری ہوسکا۔ اب ایک مہینے میں اس بجٹ کے ساتھ ہم کیا کریں گے۔ بجٹ بروقت نہ ملنے کی وجہ سے پروگرام بھی متأثر ہو رہا ہے۔ آگاہی مہم کے لیے صوبائی حکومت سے امداد طلب کی گئی۔ اس نےمحض 5 لاکھ روپے دیے۔ اتنی کم رقم سے پورے صوبے کے اندر آگاہی مہم کیسے چلائی جاسکتی ہے؟

ان سے سوال کیا گیا کہ بلوچستان میں ایڈز کے مریضوں کی رجسٹرڈ تعداد آپ کے بیان کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ کم ہے، اس کی بنیادی وجہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا ”یہ تعداد ہم نے ماہرین کے اندازے سے متعین کی ہے۔ اگر بلوچستان بھر میں اسکریننگ کی جائے تو یہ خطرناک حد تک زیادہ ہو سکتی ہے۔ اول تو ہمارے پاس اسکریننگ کے لیے بجٹ موجود نہیں، ایک اور وجہ یہ بھی  ہے کہ لوگ شرم کی وجہ سے مرض کو چھپاتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ اگر ظاہر کیا گیا تو لوگ سمجھیں گے کہ یہ بیماری انہیں جنسی تعلقات کی وجہ سے لگی ہے۔ جس سے وہ ڈرتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، اس بیماری کے اسباب اور بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح ہیپاٹائٹس، ٹی بی اور دیگر بیماریوں کا علاج بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کیا جاتا ہے ایڈز کی بیماری کو اسی معنوں میں لینے کی ضرورت ہے۔“

ضلع کیچ میں ایڈز پر کام کرنے والی ایک اور تنظیم شیڈو کے سربراہ گلزار گچکی نے کا کہنا ہے”محکمہ صحت کیچ کی جانب سے حالیہ دنوں شائع ہونے والی رپورٹ پر اتنا چونکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 62 افراد کی اموات ایک ماہ میں نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ پانچ سالہ رپورٹ ہے۔ ہمیں لوگوں کا مزاج بدلنے کی ضرورت ہے کہ ایڈز اتنا خطرناک نہیں ہے جتنا اسے سمجھا جاتا ہے۔ اس کا علاج ممکن ہے۔ معاشرے کا مزاج بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنا یہ پیغام بار بار ان تک پہنچائیں۔ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہسپتالوں، اسکولوں، مدارس، کمیونٹی کے ہیلتھ سیشنز منعقد کرائے اور ایڈز کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے آگاہی فراہم کرے“۔

دنیا میں ماہرین کے مطابق ایڈز کا مرض زیادہ تر غیرمحفوظ جنسی تعلقات کے نتیجہ میں لگتا ہے۔ اگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو اس سے بچا جاسکتا ہے۔ دوسرے نمبر پر منشیات کے دوران استعمال ہونے والی ایک ہی سرنج کا  پورے گروپ میں استعمال ہے۔ ضلع کیچ میں منشیات کی روک تھام میں حکومتی ادارے اول تو ناکام دکھائی دیتے ہیں، اس کے ساتھ منشیات کے عادی افراد کی مناسب دیکھ بھال  اور آگاہی نہ ہونے سے ایک سرنج کا  کئی لوگ متعدد بار استعمال کرتے ہیں۔ جس سے یہ بیماری ایک سے دوسرے کے اندر منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔

ہمارے سماج میں ایڈز اور اس کے اسباب پر بات نہیں کی جاتی۔ نصاب کے اندر بھی صحت اور بیماریوں سے متعلق موضوعات کو سرے سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ لاعلمی انسانی جانوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اس بیماری پر قابو پانے کے لیے نہ صرف علاج گاہوں میں اضافہ کرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شعور و آگاہی کی مہم چلا کر اسے روکنے کی کوشش کرے۔ اس حوالے سے ڈرامے، مذاکرے، پوسٹر، اسکول و کمیونٹی ہیلتھ سیشن کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...