خیبرپختونخوا میں گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ
خیبر پختونخوا میں گھریلوتشدد کے واقعات کی روک تھام کے لئے مؤثر قانون نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں شمالی ضلع سوات میں ایک رقاصہ کو شوہر نے گولیاں مارکر ہلاک کردیا تھا۔ لگ بھگ چاردنوں کے دوران مینگورہ سوات کی رقاصہ مینہ دوسری خاتون تھیں جن کو شوہر نے گھر یلو ناچاقی کی بنیاد پر قتل کردیا۔ 4 مئی کو پشاور کے علاقے بشیر آباد میں خاتون گلوکارہ ثناء عرف نیلم کو بھی شوہر نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس رپورٹ کے مطابق عورتوں پر تشدد کے جرم میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار یا شوہر ملوث ہوتے ہیں جو انہیں قتل کرنے کے بعد بہت آسانی سے فرار یا روپوش بھی ہو جاتے ہیں۔
انتہاپسندی اور دہشت گردی سے متأثرہ وادی سوات کے بڑے تجارتی شہر مینگورہ کے علاقے بنڑ میں رقاصہ مینہ کو شوہر نے گولیاں مارکر قتل کردیاتھا۔ پولیس حکام نے بتایا کہ رقاصہ کو گھریلو ناچاقی کی بنیاد پر قتل کیاگیا۔ جبکہ چار مئی 2019 کو پشاور کے علاقے بشیر آباد میں گلوکارہ ثناء عرف نیلم کو شوہر نے اس وجہ سے قتل کر دیا تھا کہ وہ رقص وگائیکی چھوڑنا چاہتی تھی، اور اپنے تین بچوں کی پرورش پہ توجہ دینے پر اصرار کر رہی تھی۔ اس سے پہلے نوشہرہ، مردان اور مانسہرہ میں بھی رواں سال اسی بنیاد پر فن وثقافت سے وابستہ متعدد خواتین کو ان کے شوہروں نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ 2019 میں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں گھریلو تشدد، بالخصوص گھر کے اندر خواتین کو قتل کرنے کے واقعات میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ نشانہ بنائی جانے والی زیادہ تر خواتین فن وثقافت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والی اداکارائیں اور گلوکارائیں ہیں۔
صوبائی حکومت نے حزب اختلاف کی مخالفت کے باوجود بلدیاتی اداروں میں ترمیم کا بِل چند ہی لمحوں میں اسمبلی سے پاس کروایا مگر گھریلوتشدد کے حوالے سے بل کو ایک چھوٹے سے اعتراض پر مؤخر کردیا گیا ہے
حقوق نسواں کے تحفظ کی تنظیم عورت فاونڈیشن سے وابستہ صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ قانون پر عملدرآمد نہ ہونے سے گھریلو تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے۔ خواتین کے قتل میں ملوث ملزمان کو سزا نہ ملنے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کی صلاحیت و خودمختاری پر ایک اہم سوالیہ نشان لگتا ہے۔ سماج میں جہالت اور ریاستی اداروں کی ناکامی و انااہلی ان واقعات میں اضافے کا سبب ہے۔ صائمہ منیر نے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے حزب اختلاف کی مخالفت کے باوجود بلدیاتی اداروں میں ترمیم کا بل چند ہی لمحوں میں اسمبلی سے پاس کروایا مگر گھریلوتشدد کے حوالے سے بل کو ایک چھوٹے سے اعتراض پر مؤخر کردیا گیا ہے۔ اس بِل پر خیبر پختونخوا اسمبلی میں بعض سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران نے اعتراض کیا تھا۔ صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان کا کہنا ہے کہ بِل کو صوبائی کابینہ نے منظور کروایا ہے اور آئندہ بجٹ اجلاس کے بعد اسمبلی میں منظوری کے لئے پیش کردیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ یہ قانون جامع ہو اور اسے تمام طبقات ومکاتب فکر کیلئے قابل قبول بنایا جائے۔ وزیر قانون نے کہا کہ گھریلو تشد د کے حوالے سے قانون کی منظوری کے بعد خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
خیبر پختونخوا حکومت نے پچھلے سال خواتین سمیت بچوں، مزدوروں، خواجہ سراؤں اور غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بین الا قوامی تنظیموں اور متعلقہ مقامی اداروں کی مدد سے انتظامیہ، وکلاء، مذہبی حلقے اور دیگر شعبوں کے افراد میں شعور پیدا کرنے کی خاطر منصوبے شروع کرنے کے لیے وسائل فراہم کیے تھے، لیکن ابھی تک صوبائی حکومت ان منصوبوں پر کام شروع کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت عملی اقدامات کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کو ترجیح دیتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے