گیس نہیں نکلی، کیا ملک کے لئے اچھا ہوا؟

1,123

اکثر لوگ کہہ رہے ہیں کہ برا ہوا، ملک کا نقصان ہوا، گیس نہیں نکلی۔ میں کہتا ہوں اچھا ہوا، اسی میں ملک کا فائدہ ہے کہ گیس نہیں نکلی۔ دیکھیے حکومتوں کے لئے آمدن کے ذرائع دو قسم کے ہوتے ہیں۔

ایک: ٹیکس کی آمدن، اسے اکنامکس میں Earned Revenue کہتے ہیں۔ اس سے مراد ایسی آمدن ہے جس کے حصول کے لئے حکومتوں کو جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انہیں لوگوں پر محنت کرنی پڑتی ہے، انسانی وسائل کا زیادہ سے زیادہ احساس کیا جاتا ہے اور انہیں ترقی دینے کے لئے مختلف اصلاحات کی جاتی ہیں۔ اکنامکس کا لٹریچر بتاتا ہے کہ ٹیکس کی آمدنی کا انسانی وسائل کی ترقی سے براہ راست تعلق (Positive association ) ہے۔

دوم: بغیر ٹیکس کے حاصل کی گئی آمدن، جیسے تیل و گیس (قدرتی وسائل) کے ذخیروں کو بیچ کر حاصل کی گئی آمدن۔ اسے اکنامکس میں unearned ریونیو کہتے ہیں، یعنی ایسی آمدن جس کے لئے حکومتوں کو کوئی محنت نہیں کرنا پڑتی۔ تیل گیس نکل آیا، آپ نے اسے بیچا اور آپ سکون سے ان پیسوں کو اول خود پر اور اپنی اتحادی اشرافیہ پر خرچ کریں اور باقی جو بچ جائے وہ اپنی رعایا پر خرچ کریں۔

اکنامکس کا لٹریچر بتاتا ہے کہ unearned ریونیو اور انسانی وسائل و انسانی حقوق کے درمیان منفی تعلق (negative association ) موجود ہے۔ اس سب کو اگر آپ تفصیل سے سمجھنا چاہئیں تو عرب ممالک کو ایک طرف unearned ریونیو والے ممالک کے طور پر دیکھ لیں، اور تیل و قدرتی وسائل سے محروم مغربی ممالک کو earned ریونیو کے طور پر دیکھ لیں۔ اسی لئے اکنامکس میں تیل یا گیس کی دولت کو اس پر انحصار کرنے والے ممالک کے لئے curse (لعنت) سمجھا جاتا ہے جسے مکمل طور پر Oil Curse کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح قدرتی وسائل پر ممالک کے انحصار کو  Resource Curse (قدرتی وسائل کی لعنت ) کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ ریسرچ پیپر میں تحریر کے آخر میں refer کر رہا ہوں، آپ اسے ضرور پڑھیں۔

اکنامکس کا لٹریچر بتاتا ہے کہ unearned ریونیو اور انسانی وسائل و انسانی حقوق کے درمیان منفی تعلق (negative association ) موجود ہے۔ اس سب کو اگر آپ تفصیل سے سمجھنا چاہئیں تو عرب ممالک کو ایک طرف unearned ریونیو والے ممالک کے طور پر دیکھ لیں، اور تیل و قدرتی وسائل سے محروم مغربی ممالک کو earned ریونیو کے طور پر دیکھ لیں

اب ذرا اس ساری کہانی کو مختلف ممالک پر اپلائی کر کے دیکھیں، عرب ممالک میں بادشاہت مضبوط نہ ہوتی اگر وہاں تیل اتنی وافر مقدار میں موجود نہ ہوتا- کیونکہ دوسری صورت میں یا تو انہیں بھوکا مرنا پڑتا یا پھر انسانی وسائل پر محنت کرنا پڑتی۔ اہم یہ کہ انہیں محنت کی قدر و عزت ہوتی، اس طرح نہ ہوتا جس طرح اب وہ پاکستانی و بنگالی یا دوسرے ممالک کے مزدوروں کے ساتھ کرتے ہیں- متحدہ عرب امارات میں دبئی کے پاس تیل کے ذخائر انتہائی کم ہیں یوں اس کی معیشت کا انسانی وسائل اور بزنسز پر انحصار ہے۔ یو اے ای کی باقی ریاستیں تیل سے مالامال ہیں، یو اے ای میں ان مختلف ریاستوں کی پالیسیز کا فرق جا کر دیکھیں آپ حیران رہ جائیں گے۔ ایران میں تیل وافر مقدار میں موجود نہ ہوتا تو مذہبی طبقہ یوں طاقتور نہ ہوتا اور شہریوں کو یوں غلام بنا کر نہ رکھتا اور تیل کی دولت کو یوں دوسرے ممالک میں مداخلت کے لئے استعمال نہ کرتا۔ افریقہ میں اگر سونے اور ہیرے کی کانیں (قدرتی وسائل ) نہ ہوتے تو سول وارز کے امکانات کم ہوتے۔

آپ اس کہانی (Earned and Unearned Revenue ) کو مختلف ممالک پر apply کرتے جائیں آپ کی حیرت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ میری پہلے سال کی  پی ایچ ڈی کی تحقیق کا موضوع ہے کہ قدرتی وسائل کے علاوہ Unearned ریونیو اور کون کون سے ہیں اور ان کا ترقی پزیر ممالک کے پالیسی میکرز کی ترغیبات پر کیا اثر ہے کہ وہ ملک کی ترقی کے لئے معاشی اصلاحات کریں۔ اس بارے میں میں اپنی تحقیق کا حاصل آپ کے گوش گزار کرتا رہوں گا۔

ترقی یافتہ صنعتی اور لبرل ممالک میں صرف تین ممالک امریکہ کینیڈا اور ناروے ایسے ممالک ہیں جن کی جی ڈی پی پر قدرتی وسائل کا اثر ہے۔ مگر ان کے بارے میں یہ تصور  پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ان وسائل کی دریافت سے پہلے ہی صنعتی طور پر طاقتور اور لبرل تھے، دوسرا یہاں انسانی وسائل پر منحصر معیشت ان وسائل کی دریافت سے پہلے ہی وجود میں آچکی تھی، تیسرا ان ممالک کی معیشت اتنی بڑی اور متنوع (diverse) ہے کہ تیل و گیس کی لعنت ان ممالک کی پالیسی پر کم ہی اثرانداز ہوتی ہے۔

سو دوستو، افسوس نہ کریں، شکر کریں۔ جب تک حکومت کو آپ کے ٹیکسز کی ضرورت ہے آپ کی تھوڑی بہت عزت ہے۔ اگر یہ انحصار بھی ختم ہو گیا تو آپ شہری نہیں رہیں گے بلکہ رعایا بن جائیں گے۔ آپ پر کن لوگوں / یا ادارے  نے راج کرنا ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔

نوٹ: قدرتی وسائل کی لعنت کو سمجھنے کے لئے ایک ریسرچ پیپر :Ross, M. L. (1999). The political economy of the resource curse. World politics, 51(2), 297-322.

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...