عالمی ادب کی عظیم داستان: الف لیلہ و لیلہ

1,847

دنیا کی عظیم ترین داستانوں کا شمار کیا جائے کہ جنھوں نے صدیوں سے انسانی تخیل کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور آج بھی وہ اسی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں، جیسے ماضی میں، اور یہ کہ انسانی مزاجوں اور زندگیوں پر جن کے اثرات میں کبھی کمی نہیں آئی اور نہ ہی ان کی عوامی مقبولیت میں، تو شاید ہی الف لیلہ و لیلہ کے علاوہ کسی اور داستان کا نام ذہن میں آئے۔

الف لیلہ ولیلہ ایک ہزار ایک راتوں میں بیان کی گئی کہانیوں کا مجموعہ ہے جو بنیادی طورپر ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے نگینوں کی طرح ہے۔ ان کہانیوں کا بنیادی راوی ایک ہی ہے۔ وزیر زادی شہرزاد، جو بادشاہ سے کہانی سنانے کی مہلت مانگ کر اپنی زندگی کی میعاد بڑھاتی چلی جاتی ہے اور یوں ایک ہزار ایک راتیں بیت جاتی ہیں۔ جونہی رات ختم ہونے کو ہوتی ہے وہ کہانی کو دلچسپ موڑ پر لے آتی ہے۔ رات ختم ہونے پر کہانی سنانا بھی موقوف کردیا جاتا ہے، اور اگلی رات پھر سے اس کا بیان شروع ہوتا ہے۔ جیسا کہ داستانوں کا مزاج ہے، کہانیوں سے کہانیاں جڑی ہوئی ہیں اور کہانیوں سے نئی کہانیوں کی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ الف لیلہ کی کہانیاں انسانی بنیادی جذبوں کے گرد بنی ہوئی ہیں، لالچ، بے وفائی اور وفا، قربانی،محبت، نفرت، اور انتقام۔ ان میں زرگر بھی ہیں، بادشاہ بھی اور گداگر بھی۔ اس میں فرشتے بھی ہیں اور جنات اور دیو بھی۔ ان میں طلسم بھی ہیں اور سادہ حقیقت نگاری بھی۔ یہ اس دنیا کی کہانیاں ہیں، لیکن ان میں تخیل، فینٹسی اور اسرار کے رنگوں سے ایسی رنگارنگی اور چکاچوند پیدا ہوجاتی ہے کہ پڑھنے والے کے لیے نظریں صفحات پر سے ہٹانی دشوار ہوجاتی ہیں۔ ان کہانیوں میں بار بار نئے راوی سامنے آتے ہیں اور کہانیوں میں سے نئی کہانیاں طلوع ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی بنیادی راوی شہرزاد ہی ہے جو کہانی کو بیان کرنے کے فن سے آگاہ ہے اور جسے کہانی سننے والے کے تخیل کو اپنی گرفت میں کرنے کا ہنر آتا ہے۔ کہانی کہنے کی روایت میں شہرزاد کو ایک علامتی کردار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔

ہم نہیں جانتے کس نے یا کن تخلیق کاروں نے ان کہانیوں کو جنم دیا۔ انھیں مختلف ادوار میں اور مختلف خطوں میں بیان کیا اور لکھا گیا۔ اور اسی طور مختلف ادوار میں انھیں یکجا کیا گیا۔ انھیں مغربی، وسطی اور جنوبی ایشیائی ملکوں کے علاوہ، شمالی افریقہ میں اکٹھا کیا گیا جب کہ حقیقی طورپر ان کہانیوں کا تعلق مختلف تہذیبوں سے بنتا ہے جن میں عربی، ایرانی، ہندی، یونانی، عبرانی اور ترکی تہذیبوں سے لی گئی کہانیاں نمایاں ہیں۔ جب ایک بار انھیں اکٹھا کرلیا گیا تو پھر دیر تک ان میں اضافوں کا سلسلہ جاری رہا۔ یوں الف لیلہ و لیلہ کی کہانی کو صدیوں کے عمل میں ایک سے زائد گمنام مصنفوں نے مکمل کیا۔ جن کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ تاہم انھیں پہلی بار علم دوست بادشاہ ہارون الرشید کے دور میں یکجا کرنے کی باقاعدہ کوشش کی گئی۔ ابتدائی طورپر اسے ’ہزار افسان‘ کے عنوان سے فارسی میں مرتب کیا گیاتھا۔ بعدازاں خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں، جب دنیا بھر کے علوم کو عربی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے بیت الحکمت جیسے تاریخ ساز ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس نے مسلمانوں کے سوچنے اور سمجھنے کے انداز بدل دیے اور مسلمان معاشرے میں مختلف علوم کی ترقی کی راہیں کھول دیں، ان کہانیوں کو بھی عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔

 چوں کہ الف لیلہ و لیلہ کی تخلیق میں مختلف خطوں کا تخیل اور خمیر شامل ہے، اس لیے ان کہانیوں میں مختلف ذائقوں اور خوشبوؤں کا اجتماع دیکھنے کو ملتا ہے۔ کرداروں اور جگہوں کے ناموں میں بھی ان خطوں کی مہک بسی ہوئی ہے

عربی زبان سے یہ داستان عظیم پھر اٹھارھویں صدی کے آغاز میں انگریزی زبان میں ترجمہ ہوئی تو اس کی شہرت چار دانگ عالم میں پھیل گئی۔ ان کہانیوں کے تنوع، تخیل اور غیر معمولی کہانی پن نے انسانی تخیل کو یوں اپنی گرفت لیاکہ کسی بھی زبان کی کوئی داستان اپنی مقبولیت میں اس کے برابر نہ آسکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی میں ترجمہ کے دوران بھی اس داستان میں بہت سی ایسی کہانیوں کا اضافہ کیا گیا جو مترجمین کے خیال میں اس کے مزاج سے قربت رکھتی تھیں۔ یہ کہانیاں الف لیلہ و لیلہ کے عربی ایڈیشن میں شامل نہیں تھیں۔ ان اضافہ شدہ کہانیوں میں الہ دین کا طلسمی چراغ، سند باد جہازی کے بحری سفر، اور علی بابا چالیس چور جیسی معروف کہانیاں شامل ہیں۔

اردو میں الف لیلہ و لیلہ  کے یوں تو متعدد تراجم ہوئے لیکن رتن ناتھ سرشار کے کیے ہوئے ترجمہ نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔ آپ خود بھی صاحب طرز ادیب ہیں اور ان کا داستانوی انداز کا ناول ’فسانہ آزاد‘ اردو کی معروف کتابوں میں شمار کیاجاتا ہے۔ اسے اردو کے اولین ناولوں میں بھی بنیادی اہمیت و حیثیت حاصل ہے۔ الف لیلہ و لیلہ میں عربی شاعروں کا کلام بھی کہانیوں کی موزونیت کے اعتبار سے شامل کیا گیا تھا۔ رتن ناتھ سرشار نے ترجمہ میں اپنے طور پر مختلف شاعروں کا اردو اور فارسی کا موزوں اس میں شامل کیا ہے۔ جب کہ اس میں ان کا اپنا کلام بھی شامل ہے۔ الف لیلہ و لیلہ کے دیگر تراجم میں ڈاکٹر ابوالحسن منصور احمد کا ترجمہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ترجمہ کی اولین جلد 1940 میں انجمن ترقی اردو، دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔ آپ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔

انتظار حسین اور سید وقار عظیم نے بھی اس طویل داستان کا ایک انتخاب شائع کیا تھا لیکن اب وہ بازار میں دستیاب نہیں ہے۔ دونوں اہل قلم اردو میں داستانوی ادب کے حوالے سے سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب داستانوں کو پڑھنے کا چلن عام تھا، الف لیلہ کے سستے ایڈیشن بھی بڑی تعداد میں دستیاب ہوتے تھے جن میں اس داستان کو تلخیص وغیرہ کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا۔ گذشتہ چند دہائیوں میں یہ ایڈیشن بھی مارکیٹ سے غائب ہوچکے ہیں۔

آج داستانوی ادب اپنے قاری کی عدم دستیابی کا شکار ہے۔ یہ قاری موجود ہے لیکن نہایت کم تعداد میں ہے اور بے اثر ہے۔ کیا داستانوی ادب کی قرات آج کے زمانے میں اپنا جواز رکھتی ہے؟ لیکن اس سے پہلے ہمیں کہانی کے بارے میں بھی یہی سوال کرسکتے ہیں۔ تو ہمارے لیے یہ سوال آسان ہوجائے گا۔ کہانی سے پسندیدگی انسانی سرشت میں موجود ہے، اس لیے جب تک انسان باقی ہے، داستانوں کا جو کہانی بیان کرنے کا قدیم انداز ہے، جواز اور ان میں قارئین کی دلچسپی بھی باقی رہے گی۔ داستانیں نہ صرف ہماری ادبی روایت کا اہم حصہ ہیں بلکہ یہ کسی بھی قوم کے مزاج کی آئینہ دار ہوتی ہیں اور اس کی ساخت پرداخت میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ چوں کہ الف لیلہ و لیلہ کی تخلیق میں مختلف خطوں کا تخیل اور خمیر شامل ہے، اس لیے ان کہانیوں میں مختلف ذائقوں اور خوشبوؤں کا اجتماع دیکھنے کو ملتا ہے۔ کرداروں اور جگہوں کے ناموں میں بھی ان خطوں کی مہک بسی ہوئی ہے۔

الف لیلہ و لیلہ کا آغاز شہریار بادشاہ سے اس کی بیوی کی بے وفائی کے واقعہ سے ہوتا ہے۔ وہ اس واقعہ سے اس درجہ دل برداشتہ ہوتا ہے کہ اس کا دنیا بھر کی عورتوں پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ وہ انتقام لینے کے لیے کہ وہ بادشاہ ہے اور انتقام لینے کے لیے تمام تر اختیارات اور وسائل اس کی دسترس میں ہیں، اور یہ کہ بادشاہت ایسا نظام ہے جس میں حکمران اپنے سوا شاید کسی کو بھی جواب دہ نہیں ہوتا، وہ کنواری لڑکیوں سے شادی کرنا اور سہاگ رات گزار کر صبح ہونے پر انھیں قتل کر دینے کو اپنا معمول بنالیتا ہے۔ ہر رات کو وہ ایک لڑکی کو اپنے بستر کی زینت بناتا ہے اور ہر صبح اسے قتل کردیتا ہے۔ اس کی سلطنت میں سے لوگ اپنی لڑکیوں کو لے کر فرار ہونا شروع کر دیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ اس کے وزیر کے لیے جو اسے روزانہ ایک لڑکی مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے، اس کے لیے کوئی کنواری لڑکی تلاش کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔

ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وزیر کی دو صاحب زادیاں ہیں، شہرزاد اور دنیا زاد۔ بڑی لڑکی شہرزاد باپ سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اسے بادشاہ کے پاس لے جائے، وہ اسے کہانی سنائے گی اور یوں کوشش کرے گی کہ وہ اسے قتل کرنے سے باز رہے۔ وہ دونوں بہنیں بادشاہ سے کہانی سننے کی درخواست کرتی ہیں جو قبول کرلی جاتی ہے۔ اور یوں شہرزاد، جو ایک باعلم اور خلاق ذہن کی عورت ہے، کہانیاں سنانے کے سلسلہ کا آغاز کرتی ہے۔ یوں ایک ہزار ایک راتوں تک اسے انھیں قتل کرنے سے باز رکھتی ہے حتی کہ وہ بادشاہ کا اعتماد جیتنے اور اس کے دل میں سے عورت کی نفرت دور کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ بادشاہ کی سفاکی اور وزیر کی اس کے جرم میں ملوث ہونے کے رویے پر داستان میں کسی مقام پرتشویش، غم یا غصے کا اظہار نہیں کیا گیا۔ یہ تب ممکن بھی نہیں تھا کیوں کہ اسے بادشاہوں ہی کی زیر سرپرستی مرتب اور قلم بند کیا گیا۔ تاہم آج ہم اس نکتے کو اصرار کے ساتھ اجاگر کرسکتے ہیں اور ہم ایسے ہر رویے کو اور ایسے رویوں کو تقویت دینے والے ہر نظام اور ضابطے کو رد کردینے کے لیے مطلوبہ شعور اور علم رکھتے ہیں۔

رتن ناتھ سرشارخود صاحب طرز لکھنے والے ہیں اس لیے انھوں نے ترجمہ میں بھی اپنے قلم کی جولانی دکھائی ہے اور اسے اپنے رنگ میں ڈھال لیا ہے۔ یوں الف لیلہ اس انداز میں اردو کے تہذیبی مزاج میں رچی ہوئی ہمارے سامنے آتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہ اسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں ڈاکٹر ابوالحسن منصور احمدکے ترجمہ کا مزاج بہت مختلف ہے۔ انھوں نے زیادہ سے زیادہ اصل زبان کے قریب رہنے کی کوشش کی ہے جس سے ان کا ترجمہ زبان کی چاشنی اور روزمرہ کی رنگینی سے تو محروم ہوگئی لیکن ہمیں ایک مختلف ذائقہ جو کہ عربی زبان میں اس کا ہے، پہنچانے میں کامیاب ہوا۔ اس میں پڑھنے کا لطف چاہے کم ہو لیکن ترجمہ میں اصل متن کی خوشبو باقی رہتی ہے۔

الف لیلہ و لیلہ کہانیوں کا ایک خوش نما گل دستہ ہے جب کہ اس میں پھول خوش نما ہی نہیں ہے، سدا بہار بھی ہیں اور ان کی خوش بو کسی بھی زمانے میں اور دنیا کے کسی بھی خطے میں جا کر کم نہیں ہوئی، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے لیے ہماری دلبستگی اور گرویدگی بڑھی ہی ہے۔ جب کہ انسان کہانی سے جڑا ہوا ہے، الف لیلہ و لیلہ کے سر پر مقبولیت کا تاج قائم رہے گا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...