انسدادِ پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا

835

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں انسداد پولیو مہم ناکام بنانے کے لیے پراپیگنڈا مہم چلانے والے سکولوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے گزشتہ روز 10 اداروں کو بند کر دیا ہے۔ پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی نے کمشنر پشاور کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی  میں یہ کاروائی عمل میں لائی۔

ماہ اپریل میں شروع کی گئی چھ روزہ انسداد پولیو مہم کے پہلے ہی روز پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر کے ایک نجی سکول میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جانے کے بعد بعض بچوں کی حالت غیر ہونے کا ڈرامہ رچایا گیا اور چند ہی لمحوں میں یہ خبر نہ صرف پشاور بلکہ صوبہ خیبر پختونخوا کے طول وعرض میں پھیل گئی۔ مذکورہ پراپیگنڈے کے بعد اگلے دو دنوں میں صرف پشاور میں لگ بھگ 25 ہزار جبکہ صوبہ بھر میں تقریبا 60 ہزار بچوں کو معائنے کے لیے مختلف ہسپتالوں میں لایا گیا۔ اس کے بعد حکام نے انسداد پولیو مہم  غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر تے ہوئے کمشنر پشاور کی سربراہی میں واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹٰی قائم کردی۔ کمیٹی نے رپورٹ میں 22 اپریل کے واقعے کو ایک منظم پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث بعض نجی مذہبی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، یونین کونسل ناظمین، عطائی ڈاکٹروں اور چند دیگر افراد کی نشاندہی کی اور حکومت کو ان کے خلاف فوری طور پر قانونی کاروائی  کرنے کی سفارشات پیش کیں۔

اگرچہ پاکستان کبھی پولیو سے پاک نہیں رہا، لیکن 11/9 واقعہ کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے نتیجے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی نے خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع کو اپنے لپیٹ میں لینا شروع کیا جس کے بعد دہشت گردوں کی جانب سے اپنے زیرِ تسلط علاقے پولیو ورکرز کے لیے نو گو ایریا بنانے، انسدادپولیو ٹیموں کو نشانہ بنانے اور حکومتی سطح پر سنجیدہ اقدامات نہ اٹھانے کے وجہ سے پولیو کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا۔ 2005 تک پولیو کے 28 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، لیکن 2014 میں یہ تعداد 307 تک پہنچ گئی، جو عالمی سطح پر کسی بھی ملک کے مقابلہ میں سب سے زیادہ تناسب تھا۔ یہی اضافہ پاکستان پر سفری پابندیوں کی وجہ بھی  بنا۔ یوں اُس وقت تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے صحت کا انصاف کے نام سے ایک خصوصی مہم شروع کی جو انتہائی کامیاب رہی، اسے بعد میں مرکزی حکومت نے بھی اپنایا اور اس کا نام صحت کا اتحاد رکھا۔ ان مؤثر اقدامات کے نتیجے میں پاکستان، بالخصوص  خیبر پختونخوا اور فاٹا سے پولیو کے کیسز میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔ 2016 میں قبائلی اضلاع میں صرف 2 کیسز اور خیبر پختونخوا میں 8 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس سے اگلے سال  2017 میں خیبر پختونخوا سے ایک اور قبائلی اضلاع سے صفر کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ پورے پاکستان سے سا ل بھر میں 8 کیسز سامنے آئے تھے جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے کم تناسب تھا، اس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ بہت جلد پاکستان پولیو فری ہوجائے گا۔ لیکن پچھلے دو سالوں میں تعداد پھر سے بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ رواں سال اب تک 20 کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جس میں 14 کا تعلق خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع سے ہے۔

اپریل میں چھ روزہ پولیو مہم کے تحت خیبر پختونخوا میں 68 لاکھ کے قریب بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جانے تھے، ان میں سے 16 لاکھ بچوں کا تعلق پشاور سے تھا

قابل غور امر یہ ہے کہ زیاد تر کیسز پختونوں کے علاقوں سے ہی سامنے آرہےہیں خواہ وہ بارڈر کی اِس سائیڈ پر ہو ں یا اُس پار افغانستان میں۔ پاکستان کے بعد ہمسایہ ملک افغانستان واحد ملک ہے جہاں پولیو وائرس پایا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پولیو سے بچاؤ کے قطروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ پاک افغان سرحد اور کراچی کے پختون اکثریت علاقوں میں کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان علاقوں میں مقیم پختون اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤکے قطرے پلانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ بلوچستان کے انتہائی پسماندہ علاقوں سے ابھی تک دو کیسز  سامنے آئے ہیں۔ دوسری طرف افغانستان کے شمالی اور مغربی صوبوں کے علاوہ پاکستان کے پنجاب، سندھ کے دیہی علاقوں، شمالی علاقہ جات، گلگت بلتستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے ضلع چترال، ہری پور، ایبٹ آباد، مانسہرہ، حتیٰ کہ کوہستان سے پچھلے کئی برسوں کے دوران پولیو سے متاثرہ کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ کیونکہ ان علاقوں میں کم سن بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے معمول کے مطابق باقاعدگی سے پلوائے جاتےہیں۔ مذکورہ علاقوں میں نہ تو پولیو کے قطروں کو حرام قرار دیا جاتاہے اور نہ اسے انسانی جسم کے لیے نقصان دہ۔

اپریل میں چھ روزہ پولیو مہم کے تحت خیبر پختونخوا میں 68 لاکھ کے قریب بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جانے تھے۔ ان میں سے 16 لاکھ بچوں کا تعلق پشاور سے تھا۔ تاہم  پروپیگنڈے کی وجہ سے  مہم کے پہلے روز ہی صرف پشاور میں والدین نے چھ لاکھ سے زائدبچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار کردیا۔ اس طرح پورے صوبے میں مخالفت زور پکڑتی گئی۔ اس دوران مہم  میں شامل رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور سیکورٹی اہلکاروں پر حملے  بھی ہوئے جن میں کئی جان سے ہاتھ دو بیٹھے۔

یہ ایک تلخ حقیت ہے کہ انسداد پولیو مہم کی مخالفت میں ملک بھر کی بعض مذہبی جماعتیں، ان سے منسلک افراد، بشمول نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اور اساتذہ کرام بھی ایک گھناؤنا کردار ادا کررہےہیں۔ بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنما اور عہدیدار اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر کے مجرمانہ عفلت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ دنیا بھر کے دیگر 52 اسلامی ممالک میں بھی انسداد پولیو مہم موجود ہے۔ کہیں بھی بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے کی مخالفت نہیں کی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں بھی یہ قطرے پلائے جاتے ہیں حالانکہ وہاں لوگ اور علما دین سے زیادہ قرب اور اس کی بہتر سمجھ رکھتے ہیں۔ ہم اس کی مخالفت کرکے اپنی نسلوں کو اپاہج کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ لہذٰا پاکستان اور افغانستان کے نہ صرف پختون سیاسی رہنماؤں بلکہ تمام مذہبی علما، دانشورں، اساتذہ کرام اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران  کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے آئیں اور ملک کو پولیو کے جراثیم سے نجات دلانے میں کردار ادا کریں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...