پاپولزم کی بے سمت لہر اور گلوبلائزیشن کو درپیش چیلنج

707

گزشتہ ہفتے یورپی یونین پارلیمنٹ اور انڈیا کے عام انتخابات کے نتائج نے پوری دنیا کے صحافتی وفکری حلقوں کو ایک بار پھر اس طرف متوجہ کردیا ہے کہ غیرمعتدل دائیں بازو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی سطح پر کیا نتائج مرتب کرے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک رائج رہنے والا مخصوص لبرل نظم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس کے اصلی مراکز اور حمایتی آہستہ آہستہ اس سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ نتیجہ میں گلوبلائزیشن کے عمل کو بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔

دائیں بازو کی سیاست جو کچھ عرصہ پہلے تک منفی رجحان خیال کی جاتی تھی اب واضح حقیقت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔ وہ یورپی باشندے جو پہلے مہاجرت پر رائے دینے سے اس لیے کتراتے تھے کہ اگر انہوں نے اسے ناپسندیدہ کہا تو انہیں غیرروادار سمجھ لیا جائے گا، اب کھل کر مہاجرت پر تنقید کرتے اور اسے ملک وقوم کے مفاد پر ضرب خیال کرتے ہیں۔ حالیہ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں غیرمعتدل دائیں بازو کی جماعتوں نے پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں۔ خصوصا برطانیہ، فرانس، جرمنی اٹلی، ہنگری اور پولینڈ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ انڈیا میں الیکشن کیمپین کے دوران بی جے پی کے مقابل دیگر جماعتوں سمیت کانگریس نے بھی سیکولر نظام کے تحفظ یا مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ اس سے ان کے ووٹ کا تناسب کم ہوسکتا ہے۔ مودی نے 2014 کے انتخابات اقتصادی تبدیلی کے نام پر لڑے اور کامیابی حاصل کی لیکن حالیہ الیکشن میں ان کی کیمپین مسلمان، دہشت گردی، قومی امن کو لاحق خطرات اور پاکستان کے گرد گھومتی رہی۔ اور یہ حربہ توقعات سے زیادہ کامیاب رہا۔ دسمبر 2018 میں تین شمالی ریاستوں مدھیہ پردیش، راجھستان اور چھتیس گڑھ میں شکست کے بعد انہوں نے اپنی سیاست کا رُخ بدل دیا تھا۔ انہوں نےمعیشت اور ترقیاتی امور کی بجائے ہندو قوم پرستی، پاکستان اور دہشت گردی کو موضوع بنا لیا،، عوام نے اسے اپنے جذبات کے قریب محسوس کیا اور انہیں مسیحا وبھارت کی آخری امید قرار دے کر دوبارہ منتخب کرلیا۔ لوگ انہیں بھار ت کا ٹرمپ کہنے لگے جو ان کے ملک کو عظیم ترین بنا سکتا ہے اور اس کا حقیقی تشخص واپس بحال کرسکتا ہے۔ پنکج مشرا کے مطابق مودی نے ماضی میں عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے، لیکن خوف اور نفرت کو ہتھیار بنا کر وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بن گئے۔

وہ یورپی باشندے جو پہلے مہاجرت پر رائے دینے سے اس لیے کتراتے تھے کہ اگر انہوں نے اسے ناپسندیدہ کہا تو انہیں غیرروادار سمجھ لیا جائے گا، اب کھل کر مہاجرت پر تنقید کرتے اور اسے ملک وقوم کے مفاد پر ضرب خیال کرتے ہیں

عزمی بشارہ کہتے ہیں کہ غیرمعتدل دایاں بازو دو طرح کا ہے۔ ایک انتہاپسند اور ددوسرا پاپولسٹ۔ انتہا پسند کسی آئیڈیالوجی کا پرچارک ہوتا ہے جبکہ پاپولسٹ کے ہاں آئیڈیالوجی اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنا کہ عام کے لوگوں کے جذبات کی ترجمانی۔ فی الوقت مقبول دائیں بازو کی جماعتوں کی اکثریت پاپولسٹ ہے، نہ کہ انتہا پسند۔ مسلم دنیا میں عموما دائیں بازو کا تعارف انتہاپسند کا ہے لیکن ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔

چونکہ پاپولزم کا محورعام شہریوں کے جذبات اور نفسیات ہیں اس لیے اس کی کوئی ایک تعریف نہیں کی گئی۔ زمان ومکان اور حالات کے اعتبار سے پاپولسٹوں کےنعرے، منشور یا تشخص کی بعض چیزیں ایک دوسرے سےمختلف بھی ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پہ ٹرمپ اور مودی کے مابین کئی امور میں یکسانیت ہے لیکن مودی آزاد تجارت کا حامی ہے جبکہ ٹرمپ اس کا شدید مخالف ہے، وہ جب گلوبلائزیشن کو اس تصور میں تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو تیسری دنیا کے کسی رجعت پسند لیڈر کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ہی ٹرمپ امریکا کو باقی دنیا کے اثر سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے اور فرانس کے دائیں بازو کے پاپولسٹ جین لوپوں عالمگیرت کو اس لیے ناپسند کرتے ہیں کیونکہ اس سے امریکی تہذیب فرینچ تہذیب پر غالب ہوتی ہے۔ اسی طرح روس کے صدر پوتن یورپ کی جن پاپولسٹ جماعتوں کی پشت پناہی کرتے ہیں وہ ملکی مصنوعات کے تحفظ کے معاشی نظام کی طرف واپسی کی بات کرتی ہیں جبکہ خود پوتن کا اپنا نقطہ نظر اس کے برعکس ہے۔

البتہ تمام پاپولسٹ سیاسی جماعتیں کچھ امور وعلامات میں اشتراک رکھتی ہیں۔ یہ واضح طور پہ غیرجمہوری نظم کا مطالبہ تو نہیں کرتیں لیکن جمہوریت کی بعض اقدار کو نشانہ بناتی ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق اور شہریوں کے مابین مساوات جیسے اصولوں پر تحفظات کا اظہار کرتی ہیں اور خاص قومیت پر شدید اصرار کرتی ہیں۔ اشرافیہ مخالف ہوتی ہیں۔ نسل پرستی یا مذہبی امتیاز کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ امریکا سے لے کر برازیل، اٹلی، بھارت اور ترکی تک ایک ہی گروہ کا تسلسل ہے۔ یہ بھی ہے کہ ہر جگہ پس منظر میں کچھ ایسے عوامل موجود ہوتے ہیں جن کی اساس پر یہ گروہ سماج میں مختصر سیاسی ریاضت کے ساتھ اور بغیر کسی بڑے سیاسی بیک گراؤنڈ کے مقبولیت حاصل کرکے اقتدار پر براجمان ہوجاتے ہیں اور رائے عامہ کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین موجودہ پاپولسٹوں کی کامیابی کے چند بنیادی اسباب بتاتے ہیں جن میں اقتصادی بحران، مہاجرت اور دہشت گردی سرفہرست ہیں۔

اس لہر کی اٹھان، علامات اور کامیابی کے اسباب کے علاوہ اس قضیہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس پر بات کی جا رہی ہے۔ وہ یہ کہ اس لہر کے گلوبلائزیشن کے عمل پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ گلوبلائزیشن کی مخالفت وہاں سے ہو رہی ہے جہاں اس عمل کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ ٹرمپ خود کئی بار اس اصطلاح کا نام لے کر کہہ چکے ہیں کہ اس سے امریکی عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے پہلے وائٹ ہاؤس چیف سٹریٹیجسٹ سٹیفن کیون نے نیشنل انٹرسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’عوامی انقلاب جنگل میں آگ کی طرح پھیل رہا ہے۔ یورپ سے شمالی امریکا اور جنوبی امریکا تک۔ حقیقی تبدیلی لامحالہ ساری دنیا میں آکے رہے گی، چاہے ورلڈ اکنامک فورم کو قبول ہو یا نہیں‘‘۔ یہ گلوبلائزیشن اور حالیہ اقتصادی نظام کا بڑا حامی ادارہ ہے۔ حالیہ یورپی یونین کے انتخابات سے تین دن قبل فرانس میں صدر ایمانوئیل میکرون اور مارین لوپوں کا آمنا سامنا ہوا، جس میں میکرون نے دائیں بازو کو ’’جھوٹا اور نفرت پھیلانے والا‘‘ کہا ۔ جواب میں پاپولسٹ سیاستدان مارین لوپوں نے انہیں ’’استحصالی گلوبلائزیشن کے حامی‘‘ کا طعنہ دیا۔ مقبول کینیڈین پولیٹیکل ایکٹیوسٹ لورین ساؤتھرن نے ایک ویڈیو بنا کر نشر کی جس میں وہ کہتی نظر آتی ہیں کہ ’’گلوبلائزیشن کے حامی قومی ثقافتوں اور رسم ورواج کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مذہب کو غیر اہم کہتے ہیں۔ ان کا تیسری دنیا کے ساتھ تعلق بہت مشکوک ہے۔ انہیں کھلی سرحدیں اور سستے مزدور چاہئیں۔ انہیں ایسے منصوبے پسند ہیں جو قومیت کی نفی کریں۔ اس سب کے پیچھے ان کے تجارتی وسیاسی مفادات پوشیدہ ہیں‘‘۔

یورپی وامریکی دائیں بازو کے پاپولسٹ جماعتوں کی گلوبلائزیشن پر کڑی تنقید اور اس کی مخالفت نے اس عمل کے لیے چیلنجز کھڑے کردیے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی الگ سے ہے کہ اس کی مخالفت کے تناظر اور زاویے بھی ایک جیسے نہیں ہیں۔ یوں یہ ایک بے سمت مخالفت ہے جو کنفیوژن کو جنم دے رہی ہے۔ البتہ بعض ماہرین اس عنصر کو اپنے انجام کے اعتبار سے انہدامی تصور نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جس کا گلوبلائزیشن کی تکمیل سے قبل ظہور فطری تھا۔ اس سے جمود  ٹوٹے گا اور بڑے انسانی مسائل کے حل کا راستہ کھلے گا۔ جبکہ بعض کی رائے یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کا عمل رکا نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے، بلکہ اس کے چینل، اس کی شکل اور اس کے مرکزی کردار تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس کا نیا مرکز اور میدان ایشیا ہے۔ ایشیائی ممالک اس کے لیے پرجوش ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق 37 فیصد فرینچ، 40ف یصد امریکی اور 55 فیصد جرمن عالمگیریت کے حق میں رائے رکھتے ہیں اور باقی اس پر معترض ہیں۔ اس کے مقابلے میں ویتنام میں 94 فیصد، بنگلہ دیش میں 71 فیصد اور بھارت میں 67 فیصد لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گلوبلائزیشن کے زیرسایہ ان کے یچوں کا مستقبل ان کے اپنے حالات سے بہتر ہوگا۔

بہرحال دائیں بازو کی پاپولسٹ جماعتوں کی مقبولیت کے نتائج مستقبل میں جو بھی برآمد ہوں، فی الوقت اس نے دنیا کے فکری حلقے کو حیرت اور تذبذب میں مبتلا ضرورکر رکھا ہے۔ یہ ایک ایسی لہر ہے جو بظاہر بے سمت ہے اور خوفناک ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...