ضلع آواران: ایک الگ تھلگ دنیا، جہاں خبر بھی نہیں پہنچتی
عید کی چھٹیاں گزارنے کے لیے میں گزشتہ ایک ہفتے سے اپنے آبائی علاقے سستگان جھاؤ میں موجود ہوں۔ آمد سے لے کر اب تک میں پوری دنیا سے اپنے آپ کو کٹا ہوامحسوس کر رہا ہوں۔ پوری دنیا یا پاکستان میں اس وقت کون کون سے موضوعات زیر بحث ہیں اور کیا نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں ان سے میں بے خبر ہوں۔ اور جو کچھ یہاں ہو رہا ہے اُس سے پوری دنیا لا تعلق ہے۔ خبری ذرائع کے لیے صرف بی بی سی اردو کی ریڈیو سروس دستیاب ہے۔ بجلی اور کیبل کی عدم دستیابی کے سبب الیکٹرانک میڈیا تک رسائی ممکن نہیں۔ جبکہ ٹرانسپورٹ کا نظام تقریبا نہ ہونے کے سبب اخبارات یہاں پہنچ نہیں پاتے۔ میرے سامنے اس وقت علاقے کی کچھ اہم خبریں ہیں۔ مسائل کا انبار ہے۔ مگر یہ سب مجھ تک ہی محدود ہے۔ میرے پاس کمپیوٹر، موبائل موجود ہیں۔ انٹرنیٹ پیکج بھی ہے مگر انٹرنیٹ یہاں کام نہیں کرتا۔
یہ علاقہ گزشتہ طویل عرصے تک موبائل سروس کی سہولت سے بھی محروم رہا۔ نواز شریف دور حکومت میں وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے ”یونیورسل سروس فنڈ“ کے ذریعے لسبیلہ آواران کے دیہی علاقوں کو پوری دنیا سے منسلک کرنے کے لیے براڈ بینڈ سروس کی فراہمی کا اعلان کیا۔ خطیر رقم سے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو سال کا عرصہ لگا۔ یہ منصوبہ پی ٹی سی ایل سے منسلک موبائل کمپنی سروس یوفون کو سونپاگیاتھا۔ جھاؤ میں واحد موبائل کمپنی یوفون نے اپنی سروس کا آغاز 2018 کو کیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ تحصیل جھاؤ، کولواہ اور دیگر ملحقہ علاقوں کے عوام موبائل فون کی سروس سے استفادہ حاصل کرنے لگے۔ چونکہ منصوبے کا اصل ہدف دیہی علاقوں کو انٹرنیٹ کی فراہمی تھی۔ سو پورے ضلع کو موبائل فون سروس کی سہولت کے ساتھ ساتھ 3Gانٹرنیٹ سروس کی فراہمی کا کام بھی شروع کیا گیا، جو دو ماہ جاری رہنے کے بعد سیکورٹی خدشات کے پیش نظر بند کر دیا گیا۔ جس کی بحالی اب خواب لگتی ہے۔
امن و امان کے حوالے سے ضلع آواران ایک عرصے تک متأثر رہا۔ مزاحمت کاروں کی کاروائیوں کا مرکز رہا۔ 2013 میں آواران میں آنے والے زلزلے کے بعد سے فوج یہاں موجود ہے۔ پہلے سیکورٹی کی ذمہ داری اس کا ذیلی ادارہ فرنٹیئر کور ادا کر رہا تھا۔ اس کے بعد سےعلاقہ مکمل طور پر فوج کے ماتحت آگیا۔ آواران کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکے ہیں جہاں سواریوں کو سخت چیکنگ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ گاڑیوں کا اندراج کیا جاتا ہے۔ جبکہ تحصیل مشکے میں قومی شناختی کارڈ ہولڈرز کو داخلے کے لیے باقاعدہ راہداری لینی پڑتی ہے۔ راہداری کے بغیر وہاں کا باشندہ اجنبی تصور کیا جاتا ہے۔ جن پہاڑی علاقوں میں خانہ بدوشانہ زندگی کا تصور پایا جاتا تھا سیکورٹی کی صورتحال کے پیش نظر ان علاقوں کو خالی کرالیا گیا ہے۔ اب اس علاقے میں امن نافذ ہے۔ لیکن امن و امان کی بحالی کے باوجود انٹرنیٹ سروس ابھی تک دستیاب نہیں ہے۔
جھاؤ میں واحد موبائل کمپنی یوفون نے اپنی سروس کا آغاز 2018 کو کیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ تحصیل جھاؤ، کولواہ اور دیگر ملحقہ علاقوں کے عوام موبائل فون کی سروس سے استفادہ حاصل کرنے لگے
پاکستان سمیت دنیا بھر میں انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا لیا ہے۔ جہاں پہلے لوگ معلومات کے لیے ٹیلی ویژن اور اخبارات کا سہارا لیتے تھے، اب وہاں انٹرنیٹ کی دنیا آگئی ہے۔ اس دنیا میں سوشل میڈیا نے جس تیزی سے جگہ بنائی ہے اور لوگوں تک معلومات و خبری ذرائع تک رسائی میں آسانی پیدا کی ہے اس کی بدولت پوری دنیا ایک دوسرے کے قریب آگئی ہے۔ پہلے لوگ مسائل پر گھروں سے باہر نکل کر مہم چلاتے اور احتجاج کیا کرتے تھے اب سوشل میڈیا مہم، احتجاج اور پروپیگنڈے کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ جن کے جلسے جلوسوں یا موقف کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نظر انداز کرتا ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے وہ اپنا موقف لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بلکہ اب تو اخبارات اور ٹی وی چینلز اپنی خبریں عام آدمی تک پہنچانے کے لیے اسی وسیلے کا سہارا لے رہے ہیں۔ عوام اخبارات اور ٹی وی کے بجائے سوشل میڈیا پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ اس سے نہ صرف معلومات حاصل کرنے میں آسانی ہو رہی ہے بلکہ لوگ کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے بھی اسی کو اہم گردانتے ہیں۔
مگر آواران میں ایسا کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ دو دہائی کی شورش نے لوگوں کے ذہنوں میں خوف کی ایک دھاک بٹھا دی ہے۔ عام آدمی نہ پہلے سوال اٹھانے کی جسارت کرتا تھا اور نہ اب امن کے نفاذ کے بعد جرأت رکھتا ہے۔ چھ اضلاع کے ساتھ سرحدیں ملنے کے باوجود ضلع آواران کا زمینی رابطہ لسبیلہ کو چھوڑ کر باقی تمام اضلاع کے ساتھ منقطع ہے۔ مشرف دور سے پہلے تربت، گوادر، پنجگور، خضدار کی گزارگاہ یہیں سے گزرتی تھیں۔ یہ علاقہ مرکز ہوا کرتا تھا۔ مرکزی حیثیت رکھنے کی وجہ سے لوگوں کا ذریعہ معاش انہی روٹس سے وابستہ تھا۔ جب کوسٹل ہائی وے تعمیر ہوئی تو آواران سے تربت کا کچا روٹ کچا ہی رہا۔ آواران کا دیگر اضلاع کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ معاش کے ذرائع بندش کا شکار ہوئے۔ آواران ایک الگ تھلگ ضلع تصور کیا جانے لگا۔ اس کی پسماندگی کی تصاویر بھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے سبب دنیا کے سامنے نہیں آپاتیں۔
لوگ سماجی موضوعات پر گفتگو سے ہی ڈرتے ہیں۔ ماضی میں اس طرح کی باتوں پربہت سے افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ کوئی یہاں بات کرے بھی تو گھر میں کرسکتا ہے۔ مچفل میں نہیں۔ اور باقی پاکستان یا دنیا سے تو رابطے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لسبیلہ سے جھاؤ سفر کرتے ہوئے مجھے 80 کلومیٹر کا سفر تین گھنٹے میں طے کرنا پڑا۔ گزشتہ ماہ جب ایم پی اے آواران اور اسپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو کے والد انتقال کر گئے تو ان کی تدفین کے لیے موصوف کو ہیلی کاپٹر کا انتظام کرنا پڑا۔ خبر تو بہت بڑی تھی مگر معلومات کی شیئرنگ کے ذرائع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہ خبر خبر نہ رہی۔ چار دہائیوں سے ضلع پر حاکمیت کے پنجے گاڑنے والے قدوس بزنجو اور اس کی خاندان سے سوال بھی نہیں کیا جاسکتا۔
سائنسی دور ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری رؤیت ہلال کمیٹی کے بوسیدہ طریقہ کار سے اختلاف کرتے ہوئے اسے سائنس و ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر فراغت ملے تو ایک نظرِ کرم آواران پر ڈال کر انٹرنیٹ کی بحالی کے حوالے سے بھی احکامات جاری کریں۔ رات کے آٹھ بج رہے ہیں۔ دنیا میں آج کیا کچھ ہوا میں اس سے بے خبر رہا۔ بی بی سی اردو سروس کے پروگرام سیربین کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سو 23 گھنٹے کی خاموشی کے بعد سیربین سن رہا ہوں۔ آپ نے بھی اگر لاتعلقی کی دنیا دیکھنی ہو اور ریڈیو سے استفادہ کرنا ہو تو قدوس بزنجو کے آبائی علاقے جھاؤ تشریف لائیے۔
فیس بک پر تبصرے