قطر کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور سعودی عرب کے ممکنہ تحفظات
پچھلے ہفتے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی دو روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے، جسے دونوں ممالک نے اہم مرحلہ قرار دیا۔ قطر کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق امیر نے پاکستان میں تین ارب ریال کی سرمایہ کاری بھی اعلان کیا۔
پاکستان کے قطر کے ساتھ تجارتی و عسکری روابط اہم اور پرانے ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا سالانہ حجم 200 ملین ڈالر ہے۔ 2017 سے خلیج بحران کے بعد اس کا تناسب بڑھ کر سالانہ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ عسکری شعبے میں قطر پاکستان کے ساتھ 1985 سے اب تک تین بڑے معاہدے کرچکا ہے جس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوا ہے۔
بظاہر پاکستان کے قطر کے ساتھ تعلق اور سرمایہ کاری کے معاہدے پر کسی اور ملک کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں لیکن قطر کا معاملہ اس لحاظ سے الگ ہے کہ ممکن ہے خلیج بحران کی وجہ سے سعودی عرب اسے پسندیدہ نگاہ سے نہ دیکھے۔ جب شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو قطر کے میڈیا میں اسے خصوصی توجہ دی گئی اور اس کے کئی پہلوؤں پر تبصرہ کیا گیا تھا۔ صحافیوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہیں اس سے قطر پاکستان تعلقات متأثر نہ ہوں۔ انہوں نے حکام پر زور دیاتھا کہ وہ گوادر میں سرمایہ کاری کریں، اس کے بعد قطری حکام نے گوادر میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ حالانکہ 2017 میں جب خلیج بحران پیدا ہوا تو جدہ میں اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کے دوران شاہ سلمان نے کہا تھا کہ آپ قطر یا سعودی عرب میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ نوازشریف نے غیرجانبدار رہنے کا موقف اپنایا تھا جس پر سعودیہ میں تنقید کی گئی۔ اس کے باوجود محمد سلمان کے دورہ پر قطری حکام مطمئن نہیں تھے۔ اب امیر قطر کی پاکستان آمد کو شاید سعودی عرب بھی پسند نہ کرے۔ کیونکہ قطر جس بلاک کا حصہ ہے وہ سعودی عرب کا سخت ناقد ہے۔
البتہ بعض تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ قطر کے پاکستان دورے پر خلیج بحران بھی زیربحث آیا ہے۔ امریکا کی خواہش پر کچھ ممالک اس کے حل کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ یہ رائے کویتی حکام اور میڈیا نے دی ہے۔ بہرطور خلیج بحران چاہے حل بھی ہوجائے لیکن جو رنجش اس سے پیدا ہوئی ہے وہ سعودی عرب اور قطر کے مابین اعتماد کا رشتہ بحال نہیں ہونے دے گی۔ لہذا شیخ تمیم الثانی کی پاکستان آمد اور سرمایہ کاری کے اعلان پر سعودی عرب کو تحفظات ضرور ہوں گے۔ اس کے باوجود پاکستان میں امیر کے پرتپاک استقبال اور باہمی تعاون کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے غیرجانبدارانہ موقف پر قائم ہے، جوکہ یقیناََ خوش آئند بات ہے۔
فیس بک پر تبصرے