زندگی اور کام کے ساتھ انصاف کریں

645

ڈاکٹر الٰہی بخش اپنی کتاب ”قائداعظم کے آخری ایّام” میں قائد اعظم کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں “آپ نے شاید سنا ہو گا کہ پہلے زمانے میں جب کوئی وکیل ہائیکورٹ کا جج مقرر ہوتا تو وہ کلبوں اور محفلوں میں جانا بند کر دیتا تھا بلکہ بعض اوقات تو مقامی اخبارات پڑھنے سے بھی گریز کرتا تھا کہ کہیں ان سے اس کی غیر جانبداری میں خلل نہ پڑے”

میرے عزیز دوست نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ حکومت میں ان کے دادا کے بھائی ہائیکوٹ کے جج بنے، جج بننے کے بعد انہوں نے پارٹیوں میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ صرف اسلامی و مغربی قانون کا مطالعہ کرتے، مقدمات کو دیکھتے اور لوگوں سے کم رابطہ رکھتے تھے۔ وہ یہی بات کہتے تھے کہ تعلقات اور میل جول مقدمات کے فیصلوں پہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

ہم اس پہلو کا اس طرح بھی جائزہ لے سکتے ہیں کہ علم و فن کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں اتنی وسعت و گہرائی ہے کہ انسان اس میں محدود ہو کر اپنی توانائیوں کو صرف کر دے تو پھر بھی وہ علم و فن کے حوالے سے، تشنگی اور کمی محسوس کرتا ہے۔ ایک شخص آرٹ کی کسی بھی صنف سے تعلق رکھتا ہے، اگر آپ اس سے پوچھیں تو وہ اس فن میں نصف صدی گزارنے کے باوجود  کہے گا کہ میں ابھی طفلِ مکتب ہوں۔ وہ گلوکار ہے یا صداکار، اداکار ہے یا مصوّر، یا پھر رقص کا استاذ۔ انسان اپنے فن و علم میں جتنا ڈوبتا چلا جاتا ہے اتنی ہی اس کی پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قانون یا فقہ، الہامی کتب یا تاریخ سے تعلق رکھتا ہے وہ اپنی زندگی ان میں صرف کرنے کے بعد بھی خود کو مبتدی خیال کرتا ہے۔

سماج کی اصلاح و تبدیلی ایک ارتقائی عمل ہے

زندگی میں ان سب اصنافِ علم و فن کو ذاتی شہرت اور جمع دولت کے لئے استعمال کرنا، انسان کی شخصیت کا منفی پہلو ہے، جس کے لئے Popular Approach کا اختیار کرنا کافی ہوتاہے۔ اس مقصد کے لئے علم اہم نہیں ہوتا بلکہ جتنا بھی علم ہے اس کی Presentation اہم ہوتی ہے۔

ہم اسلامی تاریخ میں علماء، فقہاء، مجتدین اور فلاسفہ کی خدمات و رجحانات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے۔ صدیوں کے علمی سفر کے دوران اُن میں ایک Code of Conduct تشکیل پا گیا تھا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ وہ اسے حلال یا حرام، اسلام یا کفر کا معاملہ خیال کرتے تھے بلکہ ان کا تعامل بتاتا ہے کہ سماج کی اصلاح و تبدیلی ایک ارتقائی عمل ہے جو علم و دانش میں اہل علم کی جانفشانی، دیانت اور خود سپردگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اہل علم نے اپنے اپنے مقام پہ بیٹھ کر فقہ، قانون، تاریخ اور فلسفہ پہ اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔

میری ان تمام گزارشات کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان معاشرے میں ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں سے آنکھیں اور کان بند کر کے بیٹھ جائے، تب ہی وہ علم و فن کی خدمت کر سکتا ہے یا علم وفن کی خدمت تب ہوتی ہے جب انسان بالکل اپنے آس پاس کے ماحول سے بے پرواہ ہو جائے۔ ہمارے دوست کے دادا کے بھائی جب جج بنے تو انہوں نے مقدمات کے فیصلے غیرجانبدارانہ اور میرٹ پہ کیے جس وجہ سے حکومتی کارندے ان کی جان کے دشمن بن گئے۔ انہوں نے احتیاطاً یہ سوچ کراپنے خاندان کو خود سے علیحدہ کردیاتھا، کہیں ایسا نہ ہو میرے ساتھ میرے بیوی بچوں کو بھی نقصان پہنچے۔ امام مالک مسئلہ طلاق کے حوالے سے اپنے موقف پہ ڈٹے رہے باوجودیکہ حکمران وقت نے اُن پہ تشدد و بربریت کی انتہا کر دی۔ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل نے جرات و ہمت سے تمام مظالم کا مقابلہ کیا۔

اپنے علم و فن کوشہرت و دولت کا وسیلہ بنانا یا خود کو مروّجہ سیاست کے بھینٹ چڑھا کر، زندگی بھر کی جمع پونجی کو ضائع کرنا، اس کے مقابل اپنے شعبہ میں مہارت و دیانت کے ساتھ منسلک رہنا اور جب حق و انصاف کی بات کرنے کا موقع ہو، نہ صرف اس پہ قائم رہنا بلکہ آواز بھی بلند کرنا، یہ دو مختلف رویے اور اندازِفکر ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ ان دونوں میں فرق نہیں کر پاتے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...