تعلیمی اداروں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان
گزشتہ روز بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد کے انجیئنرنگ ڈیپارٹمنٹ سے ایک طالب علم نے خود کشی کرلی۔ نوجوان نے اس اقدام سے قبل ایک خط لکھا جس کے مطابق خودکشی کا سبب اسے سندھی ہونے کی بنا پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جانا اور بعض مضامین میں مسلسل فیل کیا جانا تھا۔ یاد رہے اسی روز حیدرآباد میں بھی ایک 14 سالہ طالب علم نےاپنی جان لے لی۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ میں خودکشی کارجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ ملک میں زیادہ تر اس فعل پر اقدام کرنے والے 14 سے 24 سال کے نوجوان ہیں۔ درسگاہیں جہاں شعور کی آبیاری ہونی چاہیے ان کی چار دیواریوں میں خودکشی کی سوچ پل رہی ہے۔ طلبہ کے اس انتہائی اقدام پر آمادگی کی متعدد وجوہات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ناکامی کا خوف اور والدین، اساتذہ و سماج کی جانب سے دباؤ ایک بنیادی سبب ہے۔ والدین مہنگی فیسیں ادا کرنے کے بعد بچوں سے ہر قیمت اچھے نمبر لانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پرنسپلز اساتذہ سے سوفیصد بہترین نتیجہ دینے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس کے اثرات بھی طالب علموں پر پڑتے ہیں۔ طلبہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے اور کس طرح ہر طالب علم کی صلاحیت کے مطابق اسے تعلیم دینی ہے، اس کی تربیت و شعور ناپید ہے۔ اسکول کی سطح تک تو بچوں کو تفریح کا وقت بھی کم میسر آتا ہے۔
اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اسٹوڈنٹ افیئرز کے شعبے محض پروگرامز منعقد کرانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ طلبہ کو درپیش تعلیمی، ادارتی اور نفسیاتی مشکلات سے اغماض برتا جاتا ہے۔ اسٹوڈنٹ یونینز فعال نہ ہونے کی وجہ سے جمود اور تنہاپسندی کے عناصر پختہ ہو رہے ہیں جس سے اضطراب نے جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے تعلیمی نظم میں شامل نصاب طلبہ دوست نہیں ہے جس کے باعث تعلیم نوجوانوں کے لیے ایک بوجھ بن گئی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوان طالب علموں میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے اس رجحان پر قابو پانے کے لیے اس کے اسباب کا تفصیلی جائزہ لے اور اس کے سدباب کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔
فیس بک پر تبصرے