آزادی اور انسانی شرف کے بدلتے مفاہیم

685

جاپان کے شہر اوساکا میں 28 جُون کو G20 کے اجلاس کے بعد روسی صدر پوتن نے فائناننشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے لبرلزم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ نظم اپنے سیاسی واقتصادی دونوں پہلوؤں سے ناکام ہوچکا ہے۔ یہ اکثریت کے مفادات کا تحفظ کرنے سے سے عاجز ہے۔ انہوں نے یورپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا لبرلزم تاریخ کا حصہ بننے والا ہے، یورپ  اور امریکا میں پاپولسٹوں کی کامیابی اس کا ثبوت ہے۔ انٹرویو کے دوران پوتن نے مہاجرو ں کے یورپ میں داخل ہونے کی حمایت پر انگیلا مرکل پر تنقید بھی  کی۔ یورپین کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے اس پر ٹویٹر پہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ لبرلزم زندہ ہے، استبداد اور آمریت کا نظام ختم ہوا ہے۔

مغرب میں مفکرین کا ایک طبقہ شروع سے لبرلزم  کے بعض پہلوؤں کی مخالفت کرتا آیا ہے۔ پوتن کی پیش گوئی یا تنقید بھی پہلی بار نہیں ہے۔ لیکن موجودہ تناظر میں اس کی اہمیت اور اثرات نظرانداز نہیں کیے گئے۔ اس بیان کے بعد کئی مغربی جرائد میں اس پر مضامین شائع ہوئے۔ خود جی ٹونٹی کے اجلاس میں روسی صدر کے علاو امریکی، چینی، برازیلین، اٹالین، ترک اورانڈین پاپولسٹ یا غیرجمہوری سربراہان کی موجودگی نے کم از کم لبرل زم کے سیاسی پہلو کے حوالے سے اس انٹرویو کو معنی خیز بنادیا ہے۔ اسی اجلاس میں ایک اور قابل توجہ بات یہ بھی تھی کہ ٹرمپ نے محمد بن سلمان کے بارے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص بہت زبردست ہے، یہ دہشت گردی سے جنگ کر رہا ہے۔

ان بیانات کو بنیاد بناتے ہوئے ہم لبرلزم کے سیاسی تصوراور ان اقدار کے حوالے سے بات کریں گے جنہیں اس نظم کےساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی رائے ہے کہ آزادی، انسانی شرف اور حقوق کے مفاہیم بدل رہے ہیں۔ ان بدلتے مفاہیم کا پس منظر صرف حالیہ دائیں بازو کی پاپولسٹ لہر نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو اس میں دائیں یا بائیں بازو کی تخصیص نہیں کی جاسکتی۔ موجودہ مرحلے کے جتنے بھی جدید سیاسی مظاہر یا ان کی اصطلاحات ہوں، نیولبرل ازم، گلوبلائزیشن، مابعد جمہوریت یا پاپولزم، تمام کے عملی نتائج میں آزادی و انسانی حقوق کی اہمیت میں کمی کا رجحان ایک حقیقت ہے۔ اس میں فرق البتہ یہ ہے کہ بائیں بازو نے اپنے اقتصادی نظم کے توسط سے ان اقدار کی جبری پامالی کی جبکہ اس کے بالمقابل دائیں بازو کی حالیہ پاپولسٹ لہر میں قومی سلامتی، ریاستی مفادات یا شناخت کی بحالی کے نام پر سماج آزادی وبعض حقوق سے خودبخود دستبردار ہوگیا۔ اگرچہ مؤخرالذکر کے اثرات اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہیں کہ اس میں تعصباتی رویوں کو سند اور اعتبار حاصل ہوجاتا ہے جو آزادی اور انسانی شرف کی ارزانی کو لامحدود کر دیتا ہے۔

اس طرح اصل میں سماج وریاست کے مابین عدم توازن کا وہی مرحلہ واپس آجاتا ہے جہاں سے انسان گزر چکے ہیں اور جسے حل کیا جا چکا ہے۔ شناخت کی سیاست کے نام پر انسانوں نے ایسی کڑی کو بھی  توڑ دیا ہے جو انہیں آپس میں ہم آہنگ کرتی ہے اور جغرافیائی تقسیم کے باوجود سماج کی ہر اکائی کو اپنے اپنے مقام پر طاقت کا احساس فراہم کرتی اور اسے محترم بناتی ہے۔ اب بھی یہ اقدار اہم خیال کی جاتی ہیں لیکن مشترکہ انسانی نہیں سمجھی جاتیں۔ کم ازکم عملاََ ایسا نہیں۔ اقدار کی تعصباتی اساس نے ان کے وزن کو کم کردیا ہے۔

اقوام متحدہ جیسی آزادی، امن اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کردار سکڑتا جا رہا ہے

اس تبدیلی نے جہاں مجموعی طور پہ سماج کے کردار اس کے مقام  کو گہنایا ہے وہیں آزادی اور انسانی شرف کی تعریف کو بھی جغرافیائی اور شناختی علامتوں کے تابع بنادیا ہے، اور اس میں محور ’’زبردست طاقت‘‘ کا احساس ہے جسے ریاست سے مستعار لیا گیا ہے یا کرشماتی شخصیت کے حامل لیڈر سے۔ زبردست طاقت کا احساس ایک ایسی مصنوعی سچائی ہے جس کی اساس ریاست یا لیڈر کا اپنا دعویٰ ہے۔

آمریت یا کسی معاشی نظم کی فریب کاری کے علاوہ آزادی، انسانی شرف اور حقوق کا دائرہ قومی سلامتی کے نام پر تنگ کیا جاسکتا ہے۔ اس حربے کے ساتھ سماج کی رضامندی بھی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ معیشت وامن کو لاحق خطرات کے بعد شناخت کی سیاست بھی اصل میں ’قومی سلامتی‘ یا ’ریاستی مفاد‘ کے تصور کو ہی جواز بخشتی ہے۔ اس رجخان کا تعلق محض پاپولسٹ لہر کے ساتھ ہی نہیں ہے۔ ’قومی سلامتی ‘ کے نام پر بائیں بازو کی حکومتوں میں بھی آزادی وانسانی حقوق کا دائرہ تنگ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پہ سابق لبرل برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے 2013 میں کہا تھا کہ جب مسئلہ قومی سلامتی کا ہو تو مجھے انسانی حقوق کا سبق مت دیجیے۔ اس پر انہیں سخت مخالفت کا سامنا ہوا اور حکومت کو اس کی تردید بھی کرنی پڑی، لیکن اس جملے سے یہ عقدہ ضرور کھلتا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر انسانی حقوق کی پامالی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ پاکستان بھی اس کی بڑی واضح مثال ہے۔

’قومی سلامتی‘ محض ایک اصطلاح یا لفظ  نہیں ہے بلکہ یہ ایک پورا فکری ڈھانچہ ہے جو اپنی روایتی وغالب تفہیم میں ریاست اور اس کی ترجیحات کی ترجمانی کرتا ہے، جس طرح انسانی حقوق کا فکری ڈھانچہ آزاد سول سوسائٹی کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی تعریف اور اس کی حدود کا تعین ممکن ہے لیکن قومی سلامتی کی تعریف اور اس کی حدود کا طے ہونا ضروری نہیں۔ یوں جب ایک سیاسی نظم میں  انسانی حقوق کی بجائے قومی سلامتی محور قرار پاجائے تو پھر آزادی اور انسانی شرف پر زد پڑنا یقینی ہوتا ہے۔ پھر ریاست، فرد یا گروہ  کا مزاج اور ضرورت طے کرتے ہیں کہ آزادی کے معنی کیا ہیں اور انسانی شرف کی نوعیت کیا ہوگی۔

پاپولسٹوں کے ہاں تو قومی سلامتی کا تصور مرکزی ہے ہی، باقی جمہوری دنیا میں بھی یہ تصور مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ اس طرح جمہوریت کے ہوتے ہوئے بھی آزادی اور انسانی حقوق کی ضمانت موجود نہیں۔ ماہرین کے ہاں خدشے کی بات یہ ہے کہ مغرب کے متبادل نظم (جیسے چینی) جو اپنی طاقتور اقتصادی بنیادوں کے ساتھ غالب آرہا ہے، اس کے ہاں قومی سلامتی کا روایتی تصور آزادی اور انسانی حقوق پر مقدم ہے۔ اس نظم نے اپنی معاشی کامیابی کے ساتھ مغربی سماج کو متأثر کیا ہے، اور مسلم ریاستوں کے لیے بھی یوں جاذب نظر ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ جمہوری نظم اپنائے بغیر بھی ترقی ممکن ہے۔

اس وقت دنیا میں سماجی سطح پر آزادی و انسانی حقوق کے علمبرداروں سیاستدانوں کی بجائے، آہنی اور کرشماتی شخصیت کے حامل لیڈر زیادہ مقبول ہیں۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ جیسی آزادی، امن اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کردار سکڑتا جا رہا ہے اور چھوٹے کمزور ملک بھی اس کے اعلامیوں اور تجاویز پر کان نہیں دھرتے۔

طاقت اور قومی سلامتی کی سیاست کرنے والے ممالک ایک دوسرے کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور اسی کو وہ آزادی گردانتے ہیں، حالانکہ ان امور میں اقوام متحدہ وانسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف برعکس ہوتا ہے۔ خاشقجی کے بھیانک قتل کے بعد بھی ٹرمپ محمد بن سلمان کو زبردست آدمی کہتے ہیں اور محمد بن سلمان ایغور مسلمانوں کے قضیہ پر بیان دیتے ہیں کہ یہ چین کا داخلی معاملہ ہے، وہ اپنے مفادات کے حساب سے پالیسی وضع کرنے کا حق دار ہے۔ یمن میں ہر روز انسانی المیے جنم لے رہے ہیں لیکن خاموشی ہے۔ کیونکہ انسانی شرف وانسانی حقوق کی تعریف ’قومی سلامتی ‘ کے ذیل میں ہوگی۔

فریڈم ہاؤس کے مطابق دنیا میں ’جمہوریت کے حوالے سے بہتری کی بجائی تنزلی آرہی ہے‘۔ آزادی، انسانی شرف اور حقوق اب بھی پرکشش اصطلاحیں ہیں لیکن یہ اپنے حقیقی مفاہیم کھو رہی ہیں۔ لبرلزم کے حوالے سے جو سوال پہلے غیر فطری و اجنبی محسوس ہوتے تھے اب ان پر غور ضروری سمجھا گیا ہے۔ کنعان ملک نے گارڈین میں لکھا کہ ’پوتن کی بات مکمل ٹھیک نہیں ہے، البتہ حالیہ لہر نے اس نظم کو کمزور کیا ہے‘۔ مستقبل میں سیاسی خاکہ جو بھی ہو آزادی اور انسانی حقوق پر بطور بنیادی اقدار سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ حنا آرنٹ کے الفاظ میں ہمیں امید اور ہمت کے ساتھ  آزادی اور انسانی شرف کو ایک عالمی حقیقت بنانے کی سعی کرنی چاہیے قبل اس کے کہ یہ تاریخ کا حصہ بن جائے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...