شناخت کا بحران اور عالمی تناظر: فرانسس فوکویاما کا نقطہ نظر

1,173

معروف فلسفی، مورخ اور ماہرِ سماجیات فرانسس فوکویاما کی کتاب Identity: The demand for Dignity and Politics of Resentment شناخت سے جڑے کئی اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ مغربی و مشرقی معاشروں میں عوامیت پسند سیاست کی علمبردار قوتوں کی کامیابی نے لبرل طرزِ سیاست اور جمہوری نظامِ ریاست کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔ حقوق کے عنوان سے گروہی شناختوں پر اصراراور مخصوص شناختوں کی بنیاد پر شرف و توقیر کی خواہش پر مبنی رجحانات پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس عالمی پسِ منظر کے ساتھ لکھی گئی فرانسس فوکویاما کی کتاب ’شناخت‘عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مقامی تناظر اور حقوق کی متعدد تازہ آوازوں کی تفہیم کے پیشِ نظر انتہائی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ اسی کتاب پر تبصرے کے طور پر لکھا گیا ’تجزیات‘ کے بانی مدیر محمد عامر رانا کا درج ذیل مضمون پاکستانی انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس کا اردو ترجمہ موضوع کی اہمیت اورقارئینِ تجزیات کی دلچسپی کے لیے شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے۔

دنیا اس وقت پاپولزم کی نئی لہر کا سامنا کر رہی ہے۔جہاں یہ لہر لبرل جمہوریتوں کے اندر اقتدار کی موجودہ ساختیات کو چیلنج کررہی ہے، وہاں اس کے سبب شناخت کا سوال بھی نمایاں ہورہا ہے۔ پاپولزم کی اثرانگیزی کے نتیجے میں عوام کے اندر اپنی شناختوں کی بنیاد پر حقِ رائے دہندگی استعمال کرنے کے رجحان نے جنم لیا ہے جس کی نظیر یورپ اور شمالی و مغربی امریکا کے حالیہ انتخابات میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں قدامت پسند گروہ مرکزی سیاسی دھارے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔

بڑھتے ہوئے عوامیت پسند رجحانات نے جمہوریت کے مستقبل، لبرل سماجی و سیاسی اقدار کی موزونیت اور شناخت کے بدلتے ہوئے تصورات کے بارے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔اس صورتِ حال سے غالب سیاسی نقطہِ نظر کو کافی ٹھیس پہنچی ہے جو لبرل جمہوریتوں کو انسانی مقدر کی آخری منزل سمجھتاہے۔اس نقطۂ نظر سے وابستہ مفکرین جیسا کہ اپنے شہرہ آفاق اور متنازعہ نظریے The End of History کے سبب مشہور ہونے والے امریکی ماہر سیاسیات فرانسس فوکویاما یہ کبھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ شناخت اور شرف ایسے عوامل بن کر سامنے آئیں گے کہ لبرل جمہوریتوں کی بقاونمو خطرے میں پڑ جائے گی۔ اس صورتِ حال نے فرانسس فوکویاما (اولیوئر نوملینی سینئر فیلو، دی فری مین اسپوگلی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اسٹڈیز، اسٹین فورڈ یونی ورسٹی) کواپنے پیش کردہ مفروضے پر نظرِ ثانی اور لبرل جمہوریتوں کے لیے خطرہ بن جانے والے عوامل کی وضاحت پر مائل کیا۔فرانسس فوکویاما کی نئی کتاب Identity: The demand for Dignity and Politics of Resentment ان کے نئے نقطۂ نظر کی وضاحت کی ایک کوشش ہے۔

صاحبِ کتاب پہچان کے بڑھتے ہوئے مطالبے کے پیشِ نظر عالمگیر لبرل نظم پرعوام کے عدمِ اطمینان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ شناخت اکثر و بیشتر واضح طور پر رنگ، نسل یا مذہب سے تعلق رکھتی ہے تاہم کسی ایک گروہ کے اندر احساسِ محرومی بھی بعض اوقات ایک مجموعی شناخت کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔البتہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ شناخت دنیا کے کئی حصوں میں مروجہ سیاسی نظام کی شکست و ریخت کا باعث بن رہی ہے۔

چنانچہ ہمارے پاس شناخت کے تناظر میں اپنی ذات اور اپنے سماج کے بارے میں سوچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ شناخت بیک وقت ضرورت پڑنے پر کسی سماج کی تقسیم کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے اور اس کو متحد کرنے کے کا کام بھی اس سے لیا جا سکتاہے۔ اب شناخت مشترکہ احساسِ محرومی اور سانجھے دکھ سکھ کی بنیاد پر لوگوں کے مابین نئے بندھن کی تشکیل اور انہیں نئے قبائل میں تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ یہ شناختیں لبرل جمہوریتوں کے لیے نئے خطرات کا پیش خیمہ بنی ہیں اور موجودہ سیاسی نظام کی بنیادیں ہلا دینے کا کام کررہی ہیں۔ فرانسس فوکویاما امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی کو2008ء کے مالی بحران سمیت کئی عوامل کے ساتھ جوڑتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشی تفریق نے جنم لیا تھا۔ ان کے خیال میں اس مالی بحران کے نتائج و مضمرات نے طبقاتی نظام کی پروردہ بائیں بازو کی جماعتوں کے مقابلے میں ایک ایسے امیدوار کی جیت کے امکانات روشن کیے جس نے سفید فام نوکری پیشہ طبقے میں موجود پس منظر میں دھکیل دیے جانے کے تصورات کو بطور آلہ استعمال کیا۔

فرانسس فوکویاما کے تمام ترسیاسی نظریات افلاطون کے تصورِ روح پر قائم ہیں جس کے مطابق روح کے تین حصے ہوتے ہیں جن میں سے پہلا دانائی، دوسراجذبہ اور تیسرا بھوک(شناخت /پہچان کی بھوک )ہے۔یہ بھوک دو طرح کی ہوتی ہے، ایک عزت دیے جانے کی خواہش (Isotymia)ا ور دوسری برتر اور اعلیٰ سمجھے جانے کی تمنا(Megalothymia)۔ فرانسس فوکویاما اسی پہچان کی بھوک کے افلاطونی تصور کی بنیاد پر لبرل جمہوریت کوانسانی سیاسی تنظیم کا نقطۂ اختتام قرار دیتے ہیں۔

تاہم وہ محسوس کرتے ہیں کہ آئزوتھیمیا کایہ عنصر انسان کے اندرمساوات پر مبنی شناخت کے مطالبے کو پروان چڑھا رہا ہے، یہ مطالبہ برقرار رہے گا لیکن اس کے کلیتاً پورا ہو جانے کی صورت کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔تاہم ان کے نزدیک میگالوتھیمیا زیادہ مسائل کا باعث بنے گا، اس لیے کہ یہ امتیازی شناخت کے مطالبے پر مبنی ہے، یہ زیادہ خطرات کا پیش خیمہ ہے اور لوگوں کو مثالی جدوجہد پر اکساتا ہے اور یہ وسیع اثر پذیری کا موجب ہے کیوں کہ یہ تصور کسی ایک (فرد ،گروہ یا قوم ) کو باقیوں سے بالاتر تسلیم کیے جانے کی خواہش پر قائم ہے۔

فرانسس فوکویاما کے نزدیک یہ عنصر بعض صورتوں میں ابراہم لنکن، ونسٹن چرچل اور نیلسن منڈیلا جیسے مثالی کرداروں کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے اور بعض اوقات جولیئس سیزر، ایڈولف ہٹلر اور مائوزے تنگ جیسے کرداروں کو سامنے لانے کا موجب بھی ہو سکتا ہے جنہوں نے اپنے معاشروں میں آمریتوں اور تباہ کاریوں کو فروغ دیا۔فاضل مصنف کے نزدیک میگالوتھیمیا تاریخی طور پر تمام معاشروں میں رائج رہا ہے، اسے ختم نہیں کیا جا سکتا، اسے یا توکوئی سمت دی جاسکتی ہے یا پھر جادۂ اعتدال پر ڈالا جا سکتا ہے۔میگالوتھیمیا ئی کاروبار کے لیے قائم شدہ کوئی بھی اقتصادی منڈی معاشی حوالے سے کافی سودمند ہونے کے ساتھ ساتھ فلاحِ عامہ اورانسانی آسودگی میں بھی فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔

امریکی جریدے نیویارکر کے نامہ نگارلوئیس میناند فرانسس فوکویاما کے مکمل فلسفیانہ زمرے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھوک (Thymos) کا افلاطونی تصور معاصر سیاسیاست کی تفہیم کا انتہائی غیر معقول پیمانہ ہے۔ لوئیس میناند کہتے ہیں کہ ’’کیافرانسس کی کتاب ’شناخت‘1989میں لکھے گئے ان کے مضمون ’تاریخ کا خاتمہ‘میں درج ان کے نقطہِ نظر کی تصحیح کے طور پر پڑھی جا سکتی ہے؟ عالمگیر لبرل ازم کو اشتمالیت یا فسطائیت جیسی کسی آئیڈیالوجی کی بنا پر شکست نہیں دی جاسکتی، ہاں مگرایسا کسی جذبے کے تحت کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اْن دنوں فرانسس فوکویاما نے کہا تھا کہ سوویت یونین کا انہدام لبرل ازم کا آخری آئیڈیالوجیکل متبادل تھا۔ چین کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ معاشی اصلاحات اس ملک کو لبرل نظم کی جانب لے جائیں گی۔چین کی اٹھان اور عوامیت پسندی کی نمو ظاہر کرتے ہیں کہ لبرل جمہوریت اور آزادانہ تجارت کسی حد تک درحقیقت کامیابیوں کو کمزور کر سکتی ہے۔صاحبِ تصنیف اپنے تئیں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ لبرل جمہوریتیں مذہب اور وطنیت کے باعث تھائمس کا مسئلہ حل نہیں کرسکتیں کیوں کہ یہ دونوں عناصر عالمی سیاست میں بنیادی عوامل کے طور پر ہمیشہ سے موجود ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔

اپنی تازہ تصنیف میں فرانسس فوکویاما اپنے نقطۂ نظر کی بنیاد آئزوتھیمیا کے تصور پر رکھتے ہیں۔قطع نظر اس کے کہ (بالادست) پہچان کی خواہش یا شناخت پسند سیاست لبرل ازم کے لیے خطرے کا پیغام ہے کیوں کہ اس خواہش کی تکمیل معاشی اصلاحات کے ذریعے ممکن نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ لبرل عالمی نظام نے ہر فردکو فائدہ نہیں پہنچا یااور پوری دنیا، بالخصوص لبرل جمہوریتوں میں معاشی تفریق ڈرامائی طور پر بڑھی ہے۔ اس نظام کے توسط سے نمو کے بیشتر فوائدمحض تعلیم یافتہ اشرافیہ کو پہنچے ہیں۔

فرانسس فوکویاما یورپی سیاست میں بپا ہونے والی نئی تبدیلیوں کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جہاں نئی عوامیت پسند (populist) دائیں بازو کی قوتیں مذہب اور نسل کی بنیادوں پر قائم دھندلاتی ہوئی معیاری ثقافت کی طرف ناسٹلجیائی انداز سے دیکھ رہی ہیں، ایک ایسی ثقافت جس میں تارکینِ وطن اورحقیقی تنوع کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔مثال کے طور پر 1905ء کا فرانسیسی قانون، جس میں چرچ اور ریاست کو الگ کردیا گیا تھا، آج کل تنقید کی زد میں ہے۔مذہب وریاست کی باہم علیحدگی ادغام کا ایک تصور تھا تاہم اب یہ سیاسی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے لیے بھی ناقابلِ قبول ہے۔ وطنی شناخت کے عمومی مفاہیم میں تبدیلی سے موافقت کے لیے فرانسس فوکویاما شامی نژاد جرمن محقق بسام تبی کا حوالہ دیتے ہیں جنہوں نے جرمن وطنی شناخت کی بنیاد کے طور پر رہنما ثقافت (LeitKultur )کاتصور پیش کیا۔لبرل تعلیمات کی روشنی میں رہنما ثقافت دراصل مساوات اور جمہوری اقدار پر یقین سے عبارت ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جرمنی کو ہو بہو رہنما ثقافت جیسی ایک معیاری تبدیلی لانے کی ضرورت ہے جو ایک ترک باشندے کو ایک جرمن کے طور پر اپنی پہچان کرانے کی آزادی فراہم کرے۔وہ کہتے ہیں کہ یہ پیش آمدہ حالات کی سُست رَو شروعات ہیں۔

فرانسس فوکویاما اپنی اس تصنیف میں عالمی سیاسی نظام میں واقع ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالنے کی عمدہ کوشش کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر ابھرنے والے دو متضاد سیاسی رجحانات، جیسا کہ چین میں انتہائی مرکزیت پسندی اور دنیا کے دیگر چند خطوں میں مرکزی اداروں کی شکست وریخت کے سبب آئندہ رجحانات کے بارے میں کسی بھی نوعیت کی قیاس آرائی یا پیشین گوئی بظاہر مشکل ہے۔ تاہم وہ اس کتاب میں موجودہ عالمی سیاسی نظام کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی خصوصی رہنمائی فراہم نہیں کرتے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عزت و شرفپر اصرار کے عالمگیر رجحانات کے باعث مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرناانتہائی کٹھن ہو چکا ہے۔ اس صورتِ حال نے تلاشِ ذات کی شخصی جدوجہد کو سیاسی منصوبے کی شکل دے دی ہے۔
مترجم: حذیفہ مسعود

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...