میڈیلین البرائٹ امریکی سیاستدان اور سفارتکار ہیں۔ وہ پہلی خاتون امریکی سیکرٹری کے عہدے پر متمکن رہیں۔ان کی کتاب Fascism: A Warningسے تلخیص شدہ اس مضمون میں دنیا کے مختلف خطوں میں فسطائی علامات کی حامل حکومتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاپولسٹ سیاسی جمہوریتوں اور فسطائی حکومتوں کے مابین بہت باریک فرق ہوتا ہے۔ ان دونوں نظاموں کے مابین قربت آسان ہوتی ہے۔ فسطائی حکومت کا قیام مشکل بھی ہوسکتا ہے اور یہ کسی ایک برے واقعے یا بحران کے نتیجے میں ایک دم بھی وجود میں آسکتی ہے۔ وہ واقعاتی حوالوں کی بنا پر دو ایسے ممالک کی نشاندہی کرتی ہیں جو فسطائی نظمِ ریاست سے قریب تر ہیں۔ وہ اسی ضمن میں امریکی حکومت کا بھی جائزہ لیتی ہیں کہ آیا موجودہ امریکی حکومت فسطائی نفسیات کی حاملہے یانہیں؟ وہ دنیا کو محتاط رہنے کی نصیحت کرتی ہیں کہ کہیں بھی اگر جمہوریت کو چیلنج کیا جائے تو ہمیں اس کا تحفظ کرنا چاہیے۔
ہم میں سے اکثریت کے لیے فسطائیت ایک اصطلاح ہے جو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس کا نام سنتے ہی ہمارے دھیان میں ہٹلر اور مسولینی کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر آنے لگیں گی۔ ہمیں بھول چکے ہوئے ماضی کی یاد دلائیں گی۔ وہ ماضی جس میں دنیا کی جمہوریتیں ابھی بچپنے کے عہد میں تھیں اور کمزور تھیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بہت سی حکومتیں جمہوریت مخالف رویوں کا مظاہرہ کررہی ہیں اگر چہ وہ اعلانیہ طور پر فاشسٹ نہیں ہیں۔ جنوبی امریکہ سے لے کر یورپ تک بہت سے ممالک نے یہ وجوہات فراہم کی ہیں کہ وہاں جمہوریت کی صورتحال کے متعلق فکر مند ہوا جائے۔اس مضمون میں وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح وہ ریاستیں جو ایک زمانے میں مستند جمہوریتیں ہوا کرتی تھیں، آج فسطائی حکومتوں کا روپ دھار چکی ہیں اور کیا ایسی کسی صورتحال کا خطرہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کو بھی درپیش ہوسکتا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر کے آزاد لوگوں کا گھر ہے۔ تاریخی اور معاصر امثال کی مدد سے یہ جانا جا سکتا ہے کہ فسطائیت کیا ہے اور یہ کس طرح مضبوط ہوتی ہے۔
بنیتو مسولینی، اٹلی کے فاشسٹ رہنما نے ایک بار کہا تھا کہ طاقت اختیار کرنے کا عمل ایک زندہ مرغی کے پَر نوچنے جیسا ہونا چاہیے، آہستگی سے اور خاموشی سے، ایک ایک کرکے، ایسا کہ کام بھی ہوجائے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔
فاشسٹ ایک ہی بار میں کی گئی بغاوت کے نتیجے میں حکومت قائم نہیں کرتے بلکہ وہ آہستہ آہستہ جمہوریت کے طرز میں طاقت حاصل کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال ایڈولف ہٹلر کی ہے جس نے جمہوریت اور غیر آئینی دونوں طریقوں کا استعمال کرکے اختیار حاصل کیا۔ جنوبی جرمنی کے علاقے باواریا میں ایک ناکام بغاوت کے بعد اس نے حکومت حاصل کرنے کا وہ عمل انجام دیا جسے آئینی عمل کہا جاتا ہے۔ جہاں اس نے خود کو انتخابی کامیابیاں دلائیں اور آخرکار اپنے آپ کو جرمنی کا چانسلر بنوانے میں کامیاب ہوگیا۔جہاں اس نے ریاستی ادارے معطل کردیے۔ مقامی سیاسی عمل کو بند کردیا۔ اپنے سیاسی مخالفین کو دھمکایا۔ غیر وفادار سرکاری ملازمین سے جان چھڑائی اور ایک مطلق العنان حکومت قائم کرلی۔
رجب طیب ایردوان، ترک رہنما نے اپنی طاقت آہستہ آہستہ مضبوط کی۔ سال2002ء میں وہ ایک جمہوری انتخاب کے نتیجے میں حکومت میں آئے اور آہستہ آہستہ ان تمام اداروں کو معطل کردیا جو ان کی حکومت کی نگرانی پر مامور تھے۔ سینکڑوں فوجی افسران اور سپاہی بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے پر گرفتار کیے گئے۔ ان میں کچھ واقعی بغاوت میں شریک تھے اور بعض محض اس الزام میں دھر لیے گئے۔ ان کی حکومت نے ان میڈیا گروپس کو قومیا لیا جو ان کی حکومت کے حمایت نہیں کررہے تھے اور قانون سازی نے انہیں اختیار دیا کہ وہ عدلیہ میں اپنے وفادار ججوں کو تعینات کرسکیں۔ سال2016ء میں ایک حقیقی بغاوت کو ناکام بناتے ہوئے انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اوراس دوران سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے ایک ریفرنڈم کروایا اور اس کے نتیجے میں انہیں مکمل اختیار مل گیا کہ وہ اپنے حکم کے ذریعے قانون تشکیل دے سکیں۔ انہوں نے گرفتاریوں کا حکم جاری کیا اور گرفتار شدگان کو انصاف کی فراہمی سے محروم رکھا۔ قدم بہ قدم آہستہ آہستہ، پہلا انتخاب جیتنے کے بعد ایردوان نے اپنی طاقت کو مضبوط کیا اور ریاستی اداروں کو کمزور کردیا۔
فسطائیت آہستہ آہستہ طاقتور ہوتی ہے اور اس کی کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ جب لوگ اس کے متعلق آگاہ ہوتے ہیں تو یہ اس قدر طاقتور ہوچکی ہوتی ہے کہ اس کی راہ میں رکاوٹ ممکن نہیں رہتی۔ اس معاملے کے بہتر فہم کے لیے نازی جرمنی کی مثال دیکھتے ہیں جو اس کا عملی نمونہ تھی۔ ہٹلر نے طاقت حاصل کرنے کے لیے جرمن شہریوں کے غصے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
انیسویں کی صدی کی تیسری دہائی میں یورپ ایک بحران سے گزر رہا تھا اور جرمنی اس کی بدترین صورت تھی۔ ملک کو پہلی جنگ عظیم میں شکست ہوئی تھی اور اس کے بہت سے شہری خود کو شکست خوردہ محسوس کررہے تھے۔ انہی کے درمیان ایک جوان سابقہ سپاہی ہٹلر بھی تھا۔ جنگ کے دوران گیس کے ایک حملے میں اس کی بینائی چلی گئی تھی۔ اگرچہ نومبر1918ء میں اس کی بینائی لوٹ آئی تھی اور یہ لمحہ اس کے لیے بہت سکون آمیز تھا۔اس نے دیکھا کہ ملک تباہ ہوچکا ہے اور جنگ جیتنے والوں نے اس کے ملک پر جنگ کا بے شمار جرمانہ عائد کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے زمینی علاقے پر غیر ملکیوں کا قبضہ جواں سال ہٹلر کے لیے تکلیف دہ اور شرمناک تھا۔ بہت سے جرمنوں کے نزدیک ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تھا اور ایسا کرنے والے بولشیوک انقلابی، بیوروکریٹ اور بینکرز تھے۔ سب سے بڑھ کر اس کے ذمہ دار یہودی تھے۔
ایک دہائی بعد ہٹلر ایک سحر افسوں سیاسی مقرر بن چکا تھا۔ تاہم اس کی سیاسی جماعت نیشنل سوشلسٹ ورکرز پارٹی، نازی، ابھی ایک چھوٹی سیاسی جماعت تھی۔ پھر عالمی معاشی بحران آن پہنچا۔ اس وقت تک جرمنی ابھی جنگ کا جرمانہ ادا کررہاتھا اور اس کے لیے اس کا انحصار دیگر ممالک سے لیا جانے والا قرض تھا۔ تاہم یک لخت رقم کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ برآمدات رک گئیں۔ فیکٹریوں کی پیداوار معطل ہوگئی۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ دکانیں بند ہوگئیں اور بے روزگاری کا دوردورہ ہوگیا۔ ہٹلر نے اس افراتفری کو استعمال کیا اور متعلقہ جرمنوں کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ قائم کیا۔ نجی محفلوں کے دوران اس نے دلائل دیے کہ بہت سے لوگ کسی ایک چیز پر یقین چاہتے ہیں، ایسا یقین جو ان کے غصے کو مخا طب کرسکے۔ ان کے خوف کو کم کر سکے اور انہیں یہ مقصد دے سکے کہ وہ آگے بڑھیں۔
ہٹلر کے انقلابی پیغام نے ان ضروریات کو مخاطب کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک عام سا شخص ہے جو اپنے ملک کے طاقتور دشمنوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ پدر وطن کی منازل طے کرنے میں رہنما بنے گا اور اس کے شہری ایک بار پھر سے عظیم بنیں گے۔ وہ خوش تھا کہ کس طرح اس کے دشمن اس کی تقاریر سے تنگ ہیں۔ ان کی بدنامی کے متعلق جان کر ہٹلر کے حامی بہت خوش تھے۔ اس نے اپنے حامیوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے لیے بہت فکر مند ہے۔ حتیٰ کہ جب واقعات نے ثابت کیا کہ ہٹلر کو اپنے حامیوں کی جان و مال کی کوئی پروا نہیں ہے۔ اس نے خود اعتراف کیا۔ خوشی سے بتایا کہ زبردست جھوٹ ،اور تمام جرمنوں کی تمام مشکلات ایک ایسے جملے میں سمٹ گئیں جو اُکسا دینے والا افسانہ تھا۔ اس نے کہا کہ اس کے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو آرین نسل کے لوگ جیتیں گے یا وہ شکست کھائیں گے اور یہودی جیت جائیں گے۔
یہ وہ بیانیہ تھا جس نے اس کی سیاسی تحریک کو شہ دی۔ ہٹلر اور نازی ازم دونوں ہی ظلم کے اعلیٰ مرتبے پہ فائز تھے۔ نسل پرستی اور جنون۔ تاہم فسطائیت خود کوئی استثنائی نظریہ نہیں ہے۔فسطائیت کوئی ڈرائونی چیز نہیں ہے بلکہ یہ انسانی سماج کا عمومی چلن ہے جو بار بار لوٹ کر آتا ہے۔ جب ہم فسطائیت کے متعلق سوچتے ہیں تو ہمارے دماغ میں ہٹلر، مسولینی اور سٹالن کی تصاویر گھومنے لگتی ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ فاشزم کی فصل ہمارے تخیل سے زیادہ تیز اُگتی ہے اور اس کی نمو ان علاقوںمیں بھی ہوتی ہے جن کے متعلق ہم زیادہ سوچتے نہیں ہیں۔
آپ اسے برطانیہ میں بھی دیکھ سکتے ہیں جو ایک ایسا ملک ہے جس نے بیسویں صدی کے دوران آزادی کی لڑائی فخریہ طور پر لڑی۔ تاہم اس کی ایک اپنی فسطائی تحریک رہی ہے۔ سر اوس والڈ موزلے، ایک خالص برطانوی گور ا جس کی مونچھیں ہٹلر کے جیسی تھیں اور جنسی خواہش مسولینی کے جیسی تھی اس نے برٹش یونین آف فاشسٹ نامی تنظیم بنائی۔ ان کے نظریات فسطائیت کی نصابی کتاب سے اخذ شدہ تھے اس کا وعدہ تھا کہ وہ عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دیں گے، معاشی تحفظ کی حکمت عملی اور غیرملکیوں کے خلاف کارروائی چاہے وہ عبرانی زبان بولنے والے ہی کیوں نہ ہوں اور چاہے کسی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ دیگر فاشسٹ رہنمائوں کی مانند موزلے نے اپنی ذاتی فوج بھرتی کی۔ جن کی بھورے رنگ کی وردی نے انہیں بلیک شرٹس کا نام دیا اور گلی محلے میں ان کے احتجاجوں میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ یہ بہت خوفناک تھا کہ ہٹلر کے جیسی بھوری شرٹس پہننے والوں نے ہمسایہ ممالک پر قبضہ کیا اور اسی کے سبب موزلے کی جماعت قبولیت پانے سے محروم رہی۔
بہت سے ممالک نے ایسی تحریکوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ بھارت میں، ہندو قوم پرستوں کو مسلمانوں کی موجودگی نے پریشان کیا اور وہ برطانوی راج کے خلاف غضب ناک ہوئے۔ انہوں نے ہٹلر اور مسولینی کے ساتھ ہمدردی دکھائی جن کے ممالک نے جنگ کے رستے پر قدم رکھے۔ اسپین، آئس لینڈ، رومانیہ، چیکو سلواکیہ اور حتیٰ کہ امریکہ میں بھی فاشسٹ تحریکوں نے سر اٹھایا۔
فسطائیوں نے بارہا بے روزگاری، تارکین وطن اور غیر اطمینان بخش سیاست کے خلاف غصے کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کیا۔ مثال کے طور پر مسولینی نے اقتدار اس لیے حاصل کیا کیونکہ اس نے سمجھ لیاتھا کہ بہت سے اطالوی باشندے اپنے ملک کی موجودہ صورتحال پر خوش نہیں ہیں۔ اس نے تمام قوتوں کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ سرمایہ دار وہ ہیں جواطالوی شہریوں کا استحصا ل چاہتے ہیں، اور بولشیوک انقلابی ان کے سما ج میں افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں اور نظام کے حامی سیاستدا ن جو محض باتیں کرتے ہیں مگر کوئی مداوا نہیں کرتے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ گندگی کو صاف کرے گا، جب وہ حکومت میں آیا تو اس نے53ہزار سرکاری ملازمین نکال دیے۔
آج جب ہم دنیا پہ نگاہ دوڑاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں حکومتیں یا فسطائی نظام کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھاتی ہیں یا انہیں مکمل طور پر قبول کرچکی ہیں۔ ان میں دوکی مثالوں کو وضاحت سے دیکھتے ہیں۔ وینزویلا اور ہنگری دونوں ہی فسطائی نظام سے محبت کا اظہار کررہے ہیں۔ آج کے دور میں چند حقیقی فاشسٹ ریاستیں موجود ہیں۔ تاہم مصنف کی رائے میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جمہوریتیں اور فاشسٹ حکومتوں میں تفریق بہت مدھم ہوچکی ہے۔
وینزویلا ایک مثال ہے۔ ہوگو شاویز نے1998ء میں انتخاب جیتا تھا اور آئینی انتخابات میں ملک کا صدر منتخب ہوا تھا۔ اس نے ایسی حکومت کو شکست دی تھی جو لوگوں میں اپنی مقبولیت صریحاََ کھو چکی تھی۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حکومت میں آکر مزدوروں اور مشکلات کے شکار خاندانوں کی معاونت کرے گا۔ لہٰذا انتخاب جیت کر اس نے تیل کی بڑھتی ہوئی آمدن کے سبب لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ کرشماتی شخصیت کے مالک شاویز نے اپنی ذاتی قابلیت اور کرشمے کو بے رحمی سے استعمال کیا۔ جب اس نے وینزویلا کی تیل کمپنی کو ہتھیانا چاہا تو اس نے محض احکامات جاری نہیں کیے بلکہ اس کمپنی کے مالکان کو بلایا کہ وہ اس کے ساتھ براہِ راست ٹیلی ویژن پروگرام میں شامل ہوں اور پھرانہیں باری باری کرکے نوکری سے برخاست کر دیا۔ اس نے اپنے دشمنوں خاص طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکاکے خلاف ذاتی طور پر احتجاجوں میں شرکت کی اور ٹیلی ویژن پر 9گھنٹے تک بھی ان کے خلاف تقاریر کیں۔
شاویز کی حکومت کے دوران وینزویلا کے بہت سے شہریوں نے صحت کی بہتر سہولیات، اچھی تنخواہیں اور قومی تفاخر کے احساس کا لطف اٹھایا۔ وہ ہٹلر یا مسولینی نہیں تھا۔ لیکن اس کی کرشماتی شخصیت اور قومی سطح پر عوامیت پسندی سے یہ حقائق چھپ نہیں سکتے کہ اس کی حکومت نے ججز کو باہر نکال کے، سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کرکے اور اپنے مخالف احتجاجیوں کو کچلنے کے لیے ذاتی پولیس فورس تشکیل دے کر ریاستی اداروں کو کمزور کیا۔
اب شاویز کی وفات کے بعد وینزویلا ایک اور حکمران نکولس مادورو کی حکومت سہہ رہا ہے جو نہ تو شاویز کی مانند کرشماتی شخصیت کا مالک ہے اور نہ ہی اس کے پاس سال2000ء کے جیسی تیل کی دولت ہے۔ دو مرتبہ معزول ہونے والے مادورو کی حکومت اب نیا ریاستی آئین تشکیل دے رہی ہے اور اپنے سیاسی مخالفین کا سر کچل رہی ہے۔ جنوبی امریکہ کی مانند یورپ کے عین دل میں دیگر رہنما لبرل جمہوریت کی حدود کی جانچ کررہے ہیں۔
اس کی بڑی مثال ہنگری کے وکٹر اوربان ہیں۔ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے اوربان نے بخوشی غیر لبرل جمہوریت دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس نے بے رحمی سے نسلی تفاخر کا اظہار کیا ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد کے اس معاہدے کو توڑنے کی بات کی ہے جس کے نتیجے میں ہنگری کے کچھ زمینی علاقے لیے گئے تھے اور تارکین وطن کے خلاف اقدامات کیے ہیں اور ماگیار خواتین ( جو ہنگری النسل ہیں ) سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ اسی اثنا میں اس نے اپنے انتظامی اختیارات میں اضافے کے لیے اپنی وزارت اور کرشماتی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ وہ انتخابی ضابطے اور ملک کے آئینی نظام پر اپنی گرفت مضبوط کررہا ہے۔ اوربان بہت حد تک وینزویلا کے شاویز کی مانند کھلم کھلا فسطائی نہیں ہے تاہم اس کی حکومت میں وہی نشانیاں موجود ہیں جنہیں ہم فسطائیت کی نشانیاں سمجھتے ہیں۔
جمہوریت کے محافظین کو جمہوریت کی نزاکت کے متعلق فکر مند ہونا چاہیے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے اپنی زندگیوں میں دیوار برلن کو گرتے دیکھا ہے انہیں وہ جوش یاد ہوگا جو اس دیوار کو گرتا دیکھنے والوں کے دلوں میں ابھرا تھا۔ یہ احساس تھا کہ جمہوریت اب باقی رہے گی۔ آج کے دور میں وہ جوش ماند پڑتا جا رہا ہے۔
آج کل جمہوریت کے متبادل کی تلاش میں تجسس بڑھتا جا رہا ہے۔ اکانومسٹ کے جمہوری انڈیکس میں جو دنیا بھر میں جمہوری ممالک میں جمہوریت کی صحت کی جانچ چند اشاریوں کے ذریعے کرتا ہے جس میں قانون سازی کا عمل اور مذہبی آزادیوں کی فراہمی شامل ہے، نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دنیا کے70 ممالک میں جمہوریت کی صورتحال کو پریشان کن قرار دیا ہے۔ عالمی جائزے کے نتیجے میں یہ نتائج سامنے آئے ہیں کہ اگرچہ دنیا کے لوگوں کی اکثریت نمائندہ جمہوریت کو پسند کرتی ہے تاہم ہر4 میں سے ایک آدمی یہ سمجھتا ہے کہ حکمرانی کے لیے منتخب ہونے والے رہنما کے لیے پارلیمان اور عدلیہ کی منشا سے حکومت کرنا درست امر نہیں ہے۔ ہر5 میں سے ایک شخص فوجی حکمرانی کا قائل ہے۔
اگرچہ آج دنیا میں معیشت کی حالت اس قدر بری نہیں ہے جس قدر جنگ عظیم اول کے بعد صورتحال تھی تاہم یہ کوئی مثالی صورت بھی نہیں ہے۔ یورپ میں ہر4 میں سے ایک نوجوان بے روزگار ہے اور تارکین وطن میں یہ صورتحال مزید ابتر ہے۔ ایک کامیاب پی ایچ ڈی طالب علم کا اندازہ لگائیے، اگر وہ آخر کار ایک ڈیلوری ڈرائیور بن جائے یا ہائی سکول کے درجے کے دوران تعلیم چھوڑ دینے والے کسی فرد کا اندازہ لگائیے جسے ملازمت نہیں ملی۔ یہ یقین کیا جاسکتاہے کہ ان کا ایمان جمہوری نظام پر کمزور پڑگیا ہوگا۔
تکنیکی کامیابیوں کے بھی اپنے اثرات ہیں۔ روایتی شعبہ جات مثلاًبنک کیشئر، درزی، صحافی یا ٹیکسی ڈرائیور، ٹیکنالوجی کی آمد سے اپنے آپ کو غیر متعلق سمجھنے لگے ہیں۔ کچھ ممالک میں معاشی صورتحال اس قدر بد ترین ہے جس طرح دونوں عالمی جنگوں کا وسطی زمانہ آج سے100سال پہلے تکلیف د ہ تھا۔ اسی اثنا میں ٹیکنالوجی نے عوام اور سیاستدان کے درمیان اعتماد کو کمزور کردیا ہے۔ جھوٹی معلومات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امریکی جنگ آزادی کے دوران بنیامین فرینکلن نے حکم دیا کہ امریکی پریس برطانوی مظالم کے متعلق جھوٹی خبریں شائع کرے۔ تاہم سوشل میڈیا نے اس صورتحال کو مفت اور آسان کردیا ہے۔ اب اپنے وسیع قارئین کے لیے جھوٹی خبریں دینا ایک نہایت آسا ن عمل بن چکا ہے۔ کسی کافی شاپ میں بیٹھ کر فیس بک سکرول کرکے کوئی کس طرح یہ جانچ کرسکتا کہ ہے آنے والی خبر سچ ہے یا جھوٹ۔ یہ کسی معتبر صحافی نے خبر دی ہے یا کوئی سازشی شخص جو محض لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ یا یہ کسی غیر ملکی طاقت کی شاخسانہ ہے۔ یا ایسے ہی انٹر نیٹ پہ آئی کوئی بے معنی پوسٹ ہے۔
معاشی حالات کی غیر یقینی اور نا اہل سیاستدانوں کی جانب سے مسائل کے حل کے لیے دی گئی پالیسی پر غیریقینی جیسے عوامل نے جمہوریت پر عوام کی عدم اعتمادی کو فروغ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فسطائیت کے لیے موزوں زمین تیار ہورہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات میں جیت حاصل کرلی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ اور بیانیہ دنیا بھر میں فسطائیت اور بااثر مردوں کی حکمرانی کے لیے موزوں صورتحال تشکیل دے رہا ہے۔ یہ تصور کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا دنیا بھر میں آزادی امید اور جمہوریت کا علمبردار ہے یہ حقائق ملکی تاریخ میں پس منظرمیں جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم جیسا کہ مصنف نے وضاحت کی ہے کہ اپنے پیش رو صدور کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے اس عظیم روایت کو توڑا ہے اور غیر منتخب آمریتوں کی تعریفیں زیادہ کی ہیں۔
فلپائن کے صدر رودریگو دوترتے کی مثال ملاحظہ کیجیے جو اپنی شوٹ فرسٹ حکمت عملی کے سبب دنیا بھر میں بدنام ہیں۔ ان کے دور حکومت میں عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دونوں ہی منشیات کے تاجروں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے رویے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اس صورتحا ل کے سبب10 ہزار سے زائد لوگ بغیر آئینی کارروائی کے قتل کیے جاچکے ہیں۔ ان میں اکثر دیہاتوں میں رہنے والے غریب افراد تھے۔ لوگوں کا قتل عام اس قدر زیادہ ہوا ہے کہ دوترتے خود مزاحاََ یہ کہتا ہے کہ عوام کو چاہیے کہ اب جنازے اور کفن دفن کے کاروبار میں پیسہ لگائیں کیونکہ اس کاروبار میں بہت بچت ہے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیاہے کہ جو پولیس افسران غیر آئینی طریقے سے قتل و غارت کررہے ہیں انہیں اس کی معافی ملنی چاہیے۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ ان لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس آدمی کو اپنا دوست کہتے ہوئے دعوت دی اور دوترتے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ایک غیر ممکنہ کام انجام دیا ہے۔
دوترتے کی مثال کوئی ایک نہیں ہے۔ ٹرمپ دنیا بھر میں استبدادی حکمرانوں کی تعریف میں بہت آگے تک چلے گئے ہیں، چاہے وہ روس ہو یا مصر یا بحرین۔ حتیٰ کہ ٹرمپ کے لیے صدام حسین بھی لائق تعریف تھا۔ کیونکہ اس نے بھی دہشتگردوں کو بغیرکسی قانونی کارروائی کے قتل کروایا تھا۔ اسی اثنا میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کے روایتی حلیف ممالک کے ساتھ بھی دلائل کے تبادلے میں تندی دکھائی ہے، چاہے وہ جرمنی ہویا میکسیکو یا جنوبی کوریا، آخر الذکر شمالی کوریا کے خلاف نیوکلئیر دفاع کے لیے امریکی امداد پر انحصار کرتا ہے۔ اور ٹرمپ کی جانب سے خود امریکی اداروں پر تنقید دنیا بھر کے جمہور دشمن حکمرانوں کے لیے شہ کا باعث بنی ہے۔
حکومتی محکموں پر ٹرمپ کی جانب سے کی جانے والی تنقید کو عالمی میڈیا میں وسیع جگہ ملتی ہے۔ جب ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے دوران ان رپورٹر ز کو نکال دیا گیا جن کا تعلق ایسے میڈیا گروپ سے تھا جنہیں ٹرمپ پسند نہیں کرتے تو اسی دن کمبوڈیا کی حکومت نے اپنے ملک میں کام کرنے والے امریکی رپورٹرز کو ملک چھوڑنے کی دھمکی دی۔ کمبوڈیا کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وائٹ ہاوس کے اقدامات کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان صحافیوں پر اعتماد کرنا بے وقو فی شمار ہوگا اور یہ بھی کہ آزادی اظہار رائے کے قانون کو حکومتی اقدامات اور طاقت میں مزاحم نہیں ہونا چاہیے۔
اس صورتحال میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے یہ بیان آیا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے میڈیا اداروں کو جانبدار اور جھوٹی خبروں کی نشرو اشاعت کرنے والا کہنے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ چینل جب چین پر الزام لگاتے ہیں تو ہم انہیں نظرانداز کریں۔ مختصر بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات سے دنیا بھر میں عوامیت پسند حکمرانوں کو شہ مل رہی ہے۔ تو کس طرح کا ردعمل صدر ٹرمپ امریکہ میں دکھا رہے ہیں۔
ٹرمپ کا یہ بیانیہ کہ وہ متاثرہ فریق ہیں اور قومی احیا اس قدر لازم ہے کہ ہماری توجہ فاشسٹ تحریک پہ رہنی چاہییے۔ فاشسٹ تحریکوں نے اشتمالیت اور سرمایہ داری نظام کے خلاف اور اندرون اور بیرون ملک موجود دشمنوں کے خلاف ہمیشہ مطالبات کے دوران سر اٹھایا ہے چاہے وہ کسی مذہبی گروہ کی جانب سے ہوں یا کسی نسلی گروہ کی جانب سے ہوں۔
متاثرہ فریق کیسے ہوتے ہیں وہ سب اس امر سے آگاہ ہوں گے جنہوں نے صدر ٹرمپ کی تقاریر سن رکھی ہیں۔ ٹرمپ کی امریکہ سے متعلق وہ تصویر جس میں وہ متاثرہ لگتا ہے اس کی بہت ہی مختصر شکل پیش کرتی ہے۔ سال2018ء میں صدر ٹرمپ نے پنسلوانیا میں تقریر کرتے ہوئے وہی پرانی کہانی دہرائی کہ سالہا سال سے امریکی شہری اپنی نوکریوں کی چوری دیکھ رہے ہیں۔ فیکٹریاں بند پڑی ہیں اور نوکریاں امریکہ سے نکال کر دنیا کے دیگر خطوں میں منتقل کردی گئی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا بھر کو اربوں ڈالر مہیا کرتا ہے اور ہمارے اپنے ملک میں چوروں کا ایک گروہ ہماری دولت کو لوٹ کر کھا رہا ہے۔
ایک ناقد یہ اعتراض کرتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران پنسلوانیا میں ملازمتوں کے حجم میں اضافہ ہوا ہے اوراس ریاست میں ایکسپورٹ ٹریڈ کی مقدار بڑھنے سے دو لاکھ ملازمتیں پید اہوئی ہیں۔تاہم ٹرمپ کی عادت ہے کہ وہ نہایت سطحی اور قوم پرستانہ نعرے بازی سے ناامیدی پھیلاتے ہیں اور ا ن لوگوں کو مخاطب کرتے ہیں جو پہلے ہی زندگی سے لاتعلق ہیں۔ اس توہمانہ مظلومیت کو ختم کرنے کے لیے ٹرمپ نے’سب سے پہلے امریکا(America First)‘کا نعرہ دیا ۔ اس نعرے کی باقاعدہ ایک تاریخ ہے، اور اس کے ساتھ جدید دور کی تاریخ کی ایک تکلیف دہ حقیقت چھپی ہوئی ہے۔
1940ء میں امریکا فرسٹ کمیٹی نے بہت سے ایسے افراد کو اکٹھا کیاجو جنگ میں امریکی شمولیت کے حامی نہیں تھے اور نازیوں کے ہمدرد تھے۔اس تحریک کے حامی حکومت کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئے اور وہ امریکہ کو اس جنگ میں شامل ہونے سے روک رہے تھے۔ اس تحریک میں اس وقت جان پڑی جب دنیا کے مشہور ترین امریکی پائیلٹ چارلس لنڈ برگ نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ اس نے کہا کہ اسے خوف ہے کہ امریکہ کے یہودی اپنے اثر ورسوخ کے بل بوتے پر امریکہ کو جنگ میں دھکیل رہے ہیں۔ اس وقت سے یہ نعرہ اخلاقی بزدلی کی یاد دلاتا ہے۔
جدید زمانے میں ایسا نعرہ بے معنی ہے۔ کوئی بھی مشکل چاہے وہ معاشی ہو یا فوجی، اس کے خلاف اکیلے کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس طرح کے نعرے بزدلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ پیانگ یانگ کو ایٹمی ہتھیار کیوں تعمیر نہیں کرنے چاہییں ؟ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں شمالی کوریا اپنے مفادات محفوظ بنا رہا ہے۔ پیوٹن کو کریمیا پر قبضہ کیوں نہ کرنا چاہیے تھا، وہ بھی تو روس ہی کو سب سے پہلے رکھ رہے تھے۔ ٹرمپ کا یہ نعرہ دنیا بھر کی مطلق العنان ریاستو ں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سرِ دست فسطائیت کا سامنا نہیں کررہا۔صدر ٹرمپ ممکنہ طور پر جمہوریت مخالف رویہ رکھتے ہوں اور انہیں مطلق العنان حکومت پسند ،ہوتاہم ابھی تک امریکہ میں جمہوری ادارے مضبوطی سے قائم ہیں۔ لیکن یاد رکھیے فسطائیت ہمارے اوپر قدم بہ قدم رینگ رہی ہے۔
ایسے حالات کا تصور کوئی مشکل نہیں ہے جن کے اندر فسطائیت جڑیں پکڑتی ہے۔ ذرا تصور کیجیے،امریکا پر تاریخ کا بدترین دہشتگردانہ حملہ ہوتا ہے اور اس میں ہزاروں جانیںجاتی ہیں۔ امریکہ میں موجود مسلم گروہ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ ششدر امریکی صدر اپنے شہریوں کو اعتماد میں لیتا ہے اور یہ اپیل کرتا ہے کہ وہ پرامن رہیں اور ایسی سوچ کو مسترد کردیں جو امریکی مسلمانوں کو مرکزی دھارے سے باہر کرنے کی بات کرتی ہو۔ اس دوران کچھ حملے مزید ہوتے ہیں اور ایک کم عمر بھڑکیلا مقرر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سوشل میڈیا اور خبروں میں ظاہر ہوتا ہے۔ وہ سیاسی انتظامیہ کو کمزوری دکھانے پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ وہ ایک انقلابی تحریک شروع کرنے کی آواز اٹھاتا ہے تاکہ سیاسی انتظامیہ کا زور توڑا جائے اور دہشتگردوں کو ختم کیا جائے اور امریکہ کو ایک بار پھر سے عظیم بنایا جائے۔ جلد ہی اس کے ہزاروں چاہنے والے ہوں گے اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔
امریکیوں کو ہیجان انگیزی کے خلاف مضبوط ہونا ہوگا۔ فسطائیت ایک حقیقت ہے اگرچہ اس وقت وہ ممکنہ طور پر زیادہ مضبوط نہیں ہے۔
جارج ٹائون یونیورسٹی میں گریجویٹ جماعت میں سوال اٹھا نے پر ایک طالب علم جلدی سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا، فسطائیت ایک حقیقت ہے اور یہ یقینا زور پکڑ سکتی ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس نے دلیل دی کہ امریکیوں کا اپنے اداروں اور اخلاقیات پہ یقین کرنے کا مطلب ہے کہ لوگ ان کے خاتمے کو با آسانی نظر انداز کردیں گے۔ لوگوں کو لگے گا کہ کوئی بہت زیادہ دیر نہیں ہوگی اور معاملات جلد ہی بہتر ہوجائیں گے۔ایک ایسی ہیجان انگیز صورت سے بچائو کے لیے کہ جہاں فسطائیت کی ثقافت مضبوط ہوسکتی ہو امریکیوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے باہم مربوط رہیں۔
موجود ہ دور میں امریکی افسوس ناک حد تک غیر متحد ہیں۔ چند دہائیاں پہلے تک ہر امریکی شام کو ایک ہی ٹی وی شو دیکھتا تھا اور صبح کے وقت ایک ہی جیسے اخبارات پڑھتا تھا، لائف، ٹائم، رولنگ اسٹون یا نیوز ویک۔ لوگوں کے خیالات مختلف ہو سکتے تھے مگر ان کی بنیاد ایک ہی ہوا کرتی تھی۔ آج لوگ اپنے اپنے میڈیا چینل کے بنائے ہوئے بلبلے میں رہتے ہیں جو ان کی شکایات کو سلجھانے کی بجائے مزید ہوا دیتے ہیں۔ لوگ اپنے سیاسی مخالفین کے دلائل سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسا تصور مشکل نہیں ہے کہ ایک واقعہ چاہے وہ معاشی بحران ہو یا کوئی دہشتگردی ہو یا کوئی قتل، یہ ایسی صورت حال کو جنم دے سکتا ہے کہ جہاں لوگ جمہوریت سے متنفر ہو کر فاشزم کی جانب پھر جائیں۔
فسطائیت کوئی گمراہی یا غیر عمومی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی تاریخ کا ایک ایسا معاملہ ہے جو بار بار اس سے پہلے رونما ہوچکا ہے۔ اسے روکنا یا اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور اس کے متعلق اس وقت علم ہوتا ہے جب یہ ہوچکا ہو۔ اس کے وجود پانے کی وجوہات شکایات، تقسیمات، اور سیاسی عمل سے غیر اطمینانی ہیں اور اس کا خطرہ اس وقت دنیا کے بہت سے معاشروں کو لاحق ہے۔ لہٰذا ہمیں ہوشیار اور خبردار رہنا ہوگا کہ جب کوئی جمہوریت کو چیلنج کرے تو ہم اس کا تحفظ کرسکیں۔
(مترجم: شوذب عسکری)
فیس بک پر تبصرے