سیاست، ادب اور تاریخ کے مطالعے، خاص طور پرملکی اور بلوچ قوم پرستانہ سیاست پر گہری نظر رکھنے کے حوالے سے ہمارے خطے میں اکثر بلوچ نوجوانو ں کی مثال دی جاتی ہے۔ ماضی میں جب بائیں بازو کی سیاست اور اشتراکی نظریہ کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی تو بلوچ نوجوانوں کا ایک گروپ طبقاتی تقسیم، معاشی استحصال اور اجارہ دارانہ نفسیات کے خلاف اٹھنے والی جدوجہد سے بہت متأثر تھا۔ سرمایہ داری نظام کے استحصالی رویے کا شکار تمام مظلوم و محکوم اقوام کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بلوچ نوجوان بھی اپنے بقا کی جنگ لڑنے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت سے نجات کے لیے ایک اْمید لے کر سویت یونین سے توقع رکھتے تھے کہ شاید ان کے درد کا مداوا ہو۔ وہ دور آئیڈیل ازم کا دور تھا، اس وقت کے ترقی پسندانہ نعروں کو محکوم اقوام اپنی آواز اور ترجمانی سمجھتے تھے۔ خاص طور پر مزدور طبقہ سوویت یونین کو اپنی جنت تصور کرتا تھا۔سوویت یونین سے لوگوں کی اس قدر گہری وابستگی تھی کہ دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والا مزدور بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور ثقافت یہ سمجھتا تھا کہ ہم ان میں سے ہیں اور وہ ہم میں سے ہیں۔
بالادست طبقے غریب طبقات کا استحصال کررہے تھے۔ بلوچ نوجوان سمجھتے تھے کہ اس خطے میں وہ کئی عشروں سے ظلم و بربریت کے سائے تلے غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کااستحصال ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس وقت بلوچ نوجوانوں کا ایک مکتبِ فکر بھی ترقی پسند سوچ کا حامی تھا۔ ان کا خیال تھا کہ بلوچوں کا مسئلہ قومی نہیں بلکہ طبقاتی ہے۔ چوں کہ اس خطے میں ہم بھی ایک مظلوم و محکوم قوم ہیں اور حریت پسندی کی جدوجہد کر رہے ہیں اس لیے ہم دنیا کی دوسری مظلوم اقوام کے بغیر اپنی جدوجہد کو سائنسی انداز میں کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب قوم پرستی کا نعرہ تھا۔ اس دور کے پاکستانی سوشلسٹ اور کمیونسٹ قوم پرستی کو تعصب اور تنگ نظری سے تعبیر کرتے تھے۔ بہرحال ان دونوں خیال و نظریے کے حامل نوجوان ہی تھے۔ وہ بلوچستان کی بلوچ قوم پرست سیاست کی مادر آرگنائزیشن بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن ہو یا ملکی سطح کی دیگر ترقی پسند طلبا تنظیمیں، ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، قوم کی امیدیں نوجوانوں سے زیادہ وابستہ تھیں بلکہ اس وقت نوجوانوں کی رائے کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی اور حقیقتاً وہ انتہائی باصلاحیت، باعلم ا ور با کردار تھے۔
بلو چ نوجوان بیک وقت نوآبادیت کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے اور نوجوانوں کی فکری تربیت بھی، اگر نوجوانوں میں وہی جوش و ولولہ باقی رہتا تو شاید بلوچ سیاست زیادہ متحرک اور سائنٹفک ہوتی اور یہ آپس کی چپقلش او راختلافات اس حد تک شدت اختیار نہ کرتے۔ بلوچ عوام میں یہ شعور نوجوانوں اور بی ایس او کا مرہونِ منت ہے کہ وہ دھرتی کے مالک ہونے کے باوجود ایک کالونی کی طرح رہ رہے ہیں اور وہ اپنی بقا اور شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں مگر ہماری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ صد آفریں ہمارے نوجوانوں پر کہ وہ بلوچ بیانیے کو اپنے قلم سے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق سوشل میڈیا پر بلوچ قومی سیاست، اپنی بقا اور بالادست قوتوں کے امتیازی رویے کوسیاسی، جمہوری اور سائنٹفک انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ بلوچ سیاست کے زیادہ تر قدآور سیاسی رہنما اسی طلبہ سیاست کی پیداوار ہیں۔
بلوچ معاشرہ بنیادی طور پر لبرل اور جمہوری خیالات پر مشتمل سیکولر و مذہبی انتہا پسندی سے پاک معاشرہ رہا ہے۔ آج بلوچستان سمیت ملک بھر میں مذہبی انتہا پسندی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور نوجوان بے راہ روی کا شکار ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان ادب اور سیاست کے حوالے سے باقی صوبوں سے زیادہ آئیڈیل ہیں۔ قوم پرست جدوجہد سے انہیں بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔ ان کی بلوچ سرزمین اور زبان دوستی اتنی شدید اور گہری تھی کہ وہ بلوچ کاز کے لیے جان دینے تک تیار تھے۔ بلوچ نوجوانوں کوسیاسی قیادت سے اتنی زیادہ امیدیں تھیں کہ لیڈر کی آواز پر سب لبیک کہتے تھے۔ نوجوانوں کا خیال تھا کہ ہماری قیادت ہماری کمٹمنٹ اور ہمارے جذبات کی ہم سے زیادہ ترجمانی کرتی ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچستان میں جاری موجودہ بغاوتی تحاریک اور دوسرے مکاتب جو پارلیمانی وجمہوری سیاست پریقین رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھے میدان میں پہلے سے موجود تھے، دونوں میں نوجوانوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔
ہوا یہ کہ نوجوانوں کو ایک سیاسی اور قابلِ عمل پروگرام دینے کی بجائے جذباتی نعروں اور جزوقتی راستہ اختیار کرنے کا نعرہ تھما دیا گیا، یوں ہماری قوم کے بے تحاشا نوجوان وقت سے پہلے اس سرزمین اور وطن دوستی کی خاطر اپنا قرض اْتار کر جدوجہد کے میدان میں شہید ہوئے۔ بعض یا تو حالات کا مقابلہ نہ کر سکے، اپنی جان بچانے کی خاطر یا یہ سوچ کر کہ ہم خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے بیرونِ ممالک میں ڈپلومیٹک چینل اختیار کر کے بلوچ کیس کو اْجاگر کرنے میں یہاں سے زیادہ کام کر سکیں گے، باہر چلے گئے۔ بعض خوابوں کے بکھر جانے کی وجہ سے مایوس ہو کر سیاسی عمل سے دست بردار ہو گئے اور گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس خلا کو پْر کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔1999-2000ء کے بعد نوجوان یہ محسوس کر تے ہیں کہ قوم پرستی کی سیاست کو ایک تحریک کی صورت میں منظم کرنے کی جدوجہد میں نہ صرف ہماری قربانیاں شامل ہیں بلکہ اس کے وارث ہی ہم ہیں۔ مگر بدبختی سے ہم عملی سیاست میں موروثی سیاست کے درمیان اپنی موجودگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جس طرح میر غوث بخش بزنجو نے کہا تھا کہ’’میری سیاست کے وارث میرے آج کے نوجوان ہیں‘‘۔ انہوں نے فلسفیانہ انداز میں نوجوانوں کی کمٹمنٹ اور جدوجہد کو دیکھ کر یہ بات کہی تھی۔
ان نوجوانوں کا بلوچ سیاست میں طلبہ یونین سے لے کر ایم آر ڈی تک کی جدوجہد میں نوجوانوں کا جو کردار رہا ہے وہ تاریخ کے اوراق میں انمٹ ہے۔ مگر ہماری سیاست اور سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ بجائے اس کے کہ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی قربانیوں اور جدوجہد میں ان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ سیاسی عمل میں ان کی اہمیت اور ضرورت محسوس کریں، ان کو مزید دیوار سے لگارہی ہیں۔مستزاد یہ کہ سیاست میں اب بھی موروثیت کا عنصر غالب ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس نوجوانوں کے لیے ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے کہ جس سے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اگرچہ نیشنل پارٹی نے اپنے حالیہ کنونشن میں نوجونواں کو آگے لانے اور ان کی اہمیت پر بہت زور دیاہے تاہم آئندہ حالات کس نہج پر جائیں گے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جمہوری اور قومی سیاست میں اْنہیں اولین کردار ادا کرنے کی گنجائش دیں تاکہ وہ بلوچ قوم پرست سیاست کے بیانیے کو صحیح طریقے سے پیش کر سکیں۔
نوجوان اگرچہ اس بات کے معترف ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے اس جدوجہد کی بنیاد رکھی لیکن اس کے جنم سے پرورش تک کے مراحل میں نوجوانوں کے کردار سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود عملی طور پر سیاسی جماعتوں کے اندر نوجوانوں کاکردار نہ ہونے کے برابر ہے۔
حالاں کہ جدید بلوچ قوم پرست سیاست کی بنیاد رکھنے والے ہی نوجوان تھے۔چند موروثی سیاست دانوں اور سرداروں کے علاوہ میر یوسف عزیز سے لے کر بلوچستان کی موجودہ سیاسی قیادت اسی گراس رُوٹ اور طلبہ سیاست کی پیداوار ہیں۔ اگر ہم غیر جانبداری اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ خطے کی موجودہ سیاسی، معاشی، ملکی اور بین الااقوامی سیاست میں نوجوان زیادہ باخبر ہیں اور حالات کا زیادہ ادراک رکھتے ہیں۔ بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے اْس وقت کہا تھا کہ اگر آج نوجوانوں کی آواز کو نہیں سْنا تو کل ایک آواز اْٹھے گی جو کسی کو سْننے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔
منتخب عوامی نمائندے اور پارلیمانی ادارے بشمول سیاسی جماعتیں اپنی انا، ذاتی مفادات اور اپنے ہر برے عمل کو جواز فراہم کرنے اور ا ن کے دفاع کے لیے عوام کی آواز کو دبا دیں گے تو عوام کے پاس سراپا احتجاج ہونے کے سوا کیا چارہ رہ جائے گا۔ ان حالات میں اگر نوجوان اپنے مسائل کے حل کے لیے جائز طریقے سے ملکی آئین ا ور قانون کے اندر رہتے ہوئے پُرامن احتجاج کا راستہ اپناتے ہیں تو ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اس عمل سے ریاست کی رٹ چیلنج ہوتی ہے۔حالاں کہ اظہارِ رائے کی آزادی کا احترام پوری مہذب دنیا کرتی ہے اور ہمارے ہاں بھی کے آئین کے آرٹیکل 19 میں آزادی اظہارِ رائے کے ضمن میں واضح طور پر اس حوالے سے شق موجود ہے۔ مگر ہمارے حکمرانوں کا المیہ یہ ہے کہ کسی کو آئین کی تشریح تو دور کی بات اپنی ذمہ داریاں اور دائرہ کاربھی بمشکل معلوم ہوتا ہے۔ لورالائی میں بلوچ قوم پرست استاد رہنما ارمان لُونی کے قتل کے بعد سیاسی حکومت کا غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز رویہ عوام کے منتخب نمائندوں کی بے حسی کا عکاس ہے۔ اگر اپنے حق اور آزادیوں کے لیے اٹھائی گئی آوازوں کو اسی طرح خاموش کیا جاتا رہا تو نوجوانوں کے اندر اس کے ردِ عمل میں غم و غصہ بڑھے گا۔
مسئلہ ریاست نہیں، نہ ہی کوئی ریاست مخالف ہے، عوام کے حق میں آواز بلند کرنا اور مفاد پرست اور استحصالی طبقے کے خلاف علمِ احتجاج بلند کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ سیاسی میدان میں نوجوانوں اور عوام کی شرکت کے راستے مسدود کرنے کے بعد پرامن جدوجہد کے دیگر راستوں کے آگے بھی اگر بند باندھ دیا جائے گا اور خود سیاسی جماعتیں عوام کے حق کے لیے باہر نہیں نکلیں گی تو اس کے اثرات کسی طور مثبت نہیں ہو سکتے۔
نوجوانوں کے معقول اور جائز تحفظات کو دور کرنے کے لیے سیاسی تعمیری عمل میں ان کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ کل اگر یہ نظریاتی نوجوان اپنے وجود کی آواز اٹھا سکتے تھے، عوام کو متحرک کرنے میں اور نوآبادیت کے خلاف کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے، وہ آج بھیطلبہ قیادت کے شانہ بشانہ اپنے حقوق کی آواز کو توانا طریقے سے بلند کر سکتے ہیں۔ طلبہ تنظیموں نے قوم کے ذہن و دماغ میں ایک ایسی آواز پھونک دی ہے اورجہاں بھی ان کا نام آ ئے نوجوانوں میں ایک خاص جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ عوامی سیاست کو زندہ رکھنے اور ایک منظم قومی آواز بننے کے لیے بْزرگ تجربہ کار قیادت اور نوجوان باصلاحیت قیادت شانہ بشانہ بلوچ قوم پرست سیاست کی جدوجہد کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آگے لے آئیں تو نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور حالات میں بھی بہتری آنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
فیس بک پر تبصرے