شناخت کا تاریخی پسِ منظر اور پاکستانی سماج

پروفیسر ڈاکٹر مزمل حسین

1,000

پوری اسلامی دنیا کا بالعموم اور برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کا بالخصوص یہ مخمصہ بن چکا ہے کہ یہ آج کے معروضی حالات، زمینی حقائق یا روح عصر سے سبق حاصل کر نے کی معمولی سی کاوش بھی نہیں کرتے۔ اس مخمصے کے عقب میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے اسلامی ممالک میں بسنے والوں کی قومی سطح پر کوئی شناخت ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں جب ہم برصغیر کی تاریخ، تمدن اور تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے چار ادوار میں منقسم کر کے ہی بات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔

چوتھی صدی قبل مسیح پہلا دور ہے جس میں رونما ہونے والی فکری تحریک کی شکل میں بدھ ازم نے ملک کی قدیم روایتی روش کو نیا موڑ دیا۔ سولہویں صدی (دوسرا دور)کے ربع اول میں لودھی حکومت اپنے اختتام کو پہنچی اور شمالی ہند میں مغلیہ عہد کاآغاز ہوا۔ اس عہد میں بہت پہلے ہی عربوں کے ساتھ تہذیب کا ایک نیا دھارا ملک میں آچکا تھا اور وہ ہندوستانی تہذیب کے تہذیبی دریا کے گلے میں بانہیں ڈال چکی تھی اور مختلف فنون کی دستکاریوں، ہندوستانی کلاسیکی موسیقی، لباس، کھانا پینا اور بنگلہ زبان سمیت جدید ہندوستانی زبانوں کی شکل میں نئے لب و لہجے متعار ف ہو رہے تھے۔ یہی تہذیب ہمیں ورثے میں ملی ہے، جس کے آج ہم وارث ہیں ۔جس طرح آٹھ سو سالہ گپت سلطنت کے زوال اور ہندومذہب کے منتشر ہونے کی وجہ سے شمالی حملہ آوروں کے حملے کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح اب مغل حکومت کے تار تار ہونے اور یہاں کے معاشرے کے تالاب کے بندھے ہوئے پانی کی حالت میں پہنچ جانے کی وجہ سے ہم تیز طرار اہل یورپ کی چالوں کا شکار ہوگئے ۔یہ حقیقت ہے کہ اٹھارہویں صدی (تیسرا دور) ہندوستان کے لیے ایک سرخ اور کالی آندھی ثابت ہوئی اور انگریز نے ملک کی تہذیب و ثقافت کے پورے نظام کو تہہ وبالا کر دیا۔ یہ سلسلہ انیسویں صدی کے نصف آخر تک برابر چلتا رہا اور وہ عہد جدید(چوتھا دور) آگیا جس میں عظیم ہندوستان پہلے دو حصوں میں اور پھر تین حصوں (سقوط ڈھاکہ) میں منقسم ہو گیا۔

ان چار ادوار نے ہندوستان کے تہذیبی سلسلوں کو فطری انداز سے ایک ہی لڑی میں پروئے رکھا، بدھ ازم، ہندوستان میں مشترک ’’قدر‘‘ ایک ’’نمانتا‘ اور صوفیانہ طرز احساس ہے جس نے ہندوستان کو کئی صدیوں تک ایک توانا تہذیب میں جوڑے رکھا۔ یہاں پرایک مستحکم اور مضبوط معاشرہ قائم تھا۔ یہاں کے لوگ شریف، باوضع اور ان کی خوشیاں غمیاں یکساں تھیں۔ ان کے رہن سہن اور تمدن کے سازوسامان مشترک تھے ۔حتیٰ کہ ان کے ناموں میں بھی مماثلتیں موجود تھیں۔ فن تعمیر اور عبادت گاہوں کے درودیوار اور ادب آداب ایک دوسرے سے خاصی حد تک ملتے جلتے تھے۔ روحانی زندگیوں میں ’’تصوف ‘‘ ایک مضبوط حوالے کے طور پر موجود تھا۔ دھرتی سے محبت یہاں کے لوگوں کا ایمان تھا۔ زبان و ادب، ریتیں روایتیں سانجھی تھیں۔ مراد یہ ہے کہ ان کے سیاسی، سماجی، تہذیبی، اور مسلکی جذبات ایک دوجے کے لیے کسی بھی سطح پر ٹکرائو کا باعث نہ تھے۔

اس شانت اور ٹھہری ہوئی تہذیب میں جونہی اہل یورپ کا عمل دخل شروع ہوا تو ہندوستانی تہذیب کی باطنی بنیادیں ہلنے لگیں۔ مغل بادشاہ عیش کے بادشاہ تھے، وہ روح عصر کو نہ سمجھ سکے اور سفید چمڑی والوں کی چالوں سے بے خبر شاعری اور موسیقی پر سر ہی دھنتے رہے۔ صدیو ں پر محیط تہذیب اور طرز سیاست آہستہ آہستہ فرسودہ اور ماضی کا حوالہ بننے لگی۔ ایک طرف جمود زدہ ماحول تھا تو دوسری طرف تیز طرار، فعال اور تازہ دم پوری مغربی سیاسی چالیں اور معیشت و تجارت کے نئے نویلے فلسفے، انھوں نے سترہویں صدی کے نصف آخر سے1857ء تک خود کو ہر جگہ مستحکم کر لیا اور ہندوستان کے منجمد اور غیر فعال اداروں پر اپنے سفاک پنجے گاڑ دیے ۔ا یسے میں ہندوستانی حکمران، اشرافیہ اور دیگر مقتدر طبقے ایک عجیب طرح کے مخمصے کا شکار ہوگئے ،جن کی ذہنی حالت کی ترجمانی غالبؔ کے اس شعر سے ہوجاتی ہے:
؎’’ایماں‘‘ مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے’’کفر‘‘
’’کعبہ ‘‘ میرے پیچھے ہے ’’کلیسا‘‘ میرے آگے

ان ذہنی تضادات کو سمجھنے کے لیے ہندوستان میں قائم ہونے والے ادارے’’دیو بند‘‘ دارلعلوم، علی گڑھ کالج، اودھ پنچ (اخبار) اکبر الہٰ آبادی کی شاعری، سر سید احمد خان اور اس کے قریبی لوگوں کی تحریریں، کتب اور دیگر تخلیقات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایک عجیب کش مکش تھی، دراصل یہ ایک ایسا مخمصہ تھا جو تہذیب کی وفات پر رونما ہوا کرتا ہے۔ ایک افراتفری تھی، میدان حشر کے مصداق۔ صدیوں پر پھیلی ہندوستانی تہذیب پر جب مغربی تہذیب نے یلغار کی تو ان کی اپنی شناخت معدوم ہو گئی۔ تمام سوچنے والے اذہان اپنے طور پر اپنا فلسفہ بیان کر رہے تھے۔ کچھ یورپی تہذیب اور جدید علوم کے داعی تھے تو کچھ اپنے ماضی کے مجاوربنے بیٹھے تھے۔ و ہ دور [جو آج تک بھی موجود ہے] ایک ’’عصر ِبے چہرہ‘‘ کی صورت اپنا آپ دکھا رہا تھا اس نے جس’’قدر‘‘ کو سب سے پہلے پامال کیا وہ یہاں کے بسنے والوں کی تہذیبی شناخت تھی۔

1857ء سے1947ء تک پوری صدی خوف ناک حد تک شکست و ریخت کا شکار رہی۔ اس صدی میں مغربی استعمار کو بھی کئی طرح کی مزاحمتوں کا سامنا رہا اور پایان کار نو آبادیاتی نظام کو اپنی بساط لپیٹنا پڑی لیکن شاطر نوآبادیاتی نظام کے کرتے دھرتوں نے منقسم ہندوستان کو مذہبی جنونیت کے حوالے کر دیا۔ جس نے بالخصوص اہل پاکستان کو ایک ایسے طرز احسا س میں مبتلا کر دیا جس کی بنیاد عقیدے کی غلط تشریح پر استوار ہے۔ عقیدہ اپنے طور پر کوئی برا نہیں ہو تا مگر جب عقیدے کے حوالے سے لوگ خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگیں تو نرگسیت جنم لیتی ہے اور یہ نرگسیت مخالف سے جینے کا حق چھین لیتی ہے۔بقول ایڈورڈ سعید ’’جب کوئی تہذیب، ثقافت اور سیاسی جماعت شناخت کی نرگسیت کے مرض میں مبتلا ہوجائے تو یہ اس کی تباہی کا پیش خیمہ ہے کیونکہ اس کا سفر رک جاتا ہے‘‘۔ پاکستان کی ریاست نے آغاز ہی سے اپنی کچھ ایسی پالیسیاں بنائیں کہ یہاں کے لوگوں کی جڑت اپنی تاریخ، دھرتی، تہذیب، ثقافت اور اپنے لوگوں سے نہ بنی۔اس کی مثال یہ دیکھ لیجیے کہ آہستہ آہستہ یہاں پر منائے جانے والے مقامی اور ثقافتی تہوار معدوم ہوتے گئے ہیں۔ آثار قدیمہ کو گرا کر ہاؤسنگ کالونیاں بنا دی گئی ہیں۔ تاریخی مقامات، بستیوں، شہروں کے پرانے نام بدل دیے گئے تاکہ لوگ یکسر طور پر اپنے ماضی سے کٹ جائیں۔ یہاں کے لوگ اب مساجد کا احترام تو کرتے ہیں مگر قومی املاک کو تباہ کرنا دلیری اور سینہ زوری سمجھتے ہیں۔

یہ سب شناختی بحران کی وجہ ہے کیونکہ قومیں اپنی روایات، تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس صورت حال سے بڑے قومی المیوں نے جنم لیا ہے مثلاً ابھی تک ہمارا طرز سیاست جمہوری یا پارلیمانی کی بجائے آمریت یا مطلق العنانیت کی خواہش سے جڑا ہے۔ ہم جابر، ظالم اور آمر کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ گزشتہ برس ترکی کے لوگوں نے جس طرح جمہوری حکومت کو بچانے کے لیے مزاحمت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی تھیں، ہمارے یہاں ایسے جذبے کا فقدان ہے۔

ہمارے علما اور اسکالرز نے ابھی تک پسماندگی اور رجعت پسندی کے اسباب کومحض مابعد الطبیعیاتی دنیا میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے قوم منطقی ہونے کی بجائے رومان پرور تخیل کی دنیا میں رہنے کی عادی ہوچکی۔ شخصیت پرستی نے اسی سوچ سے جنم لیا ہے۔ جس کی بدولت ہم حقیقت پسند ہیں نہ ہی معقولیت پسند؛ صرف ماضی پرست بن کر رہ گئے ہیں اورہمارے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ ہمار ا گذشتہ کل آنے والے کل سے بہتر تھا۔ایسی قدامت پرستی ’’روحِ عصر‘‘ کا شعور نہیں دے سکتی جب کہ عصری تقاضوں کی تفہیم ہی ترقی اور باوقار بننے کی واضح دلیل ہے۔ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان اور دیگر غیرعربی مسلم معاشرے، وہ سدا غیر ملکی حملہ آوروں کو مسلم مجاہدین سمجھ کر انھیں اپنے ہیروز کا مقام دیتے ہیں بقول شخصے’’ حد تو یہ ہے کہ ہندی نژاد مسلمان حکمرانوں کو بھی ترکوں کے مقابلے میں قبول نہیں کیا گیا۔ اس کا ایک خوفناک پہلو یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان جمہوریت کی بجائے آمریت کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بات ان کے لاشعور کا حصہ بن چکی ہے۔ دراصل اس روش سے اشرافیہ اور ’’تھیوکریسی ‘‘ کو مالی اور معاشرتی مفادات حاصل ہوتے ہیں جبکہ عوام محرومی کی زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔‘‘

’’شناختی بحران‘‘ کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کے زیر اثر بسنے والے لوگ ثنویت کا شکار ہو جاتے ہیں اور دو عملی کے راستے پر گامزن رہتے ہیں۔ ان کی دہری شخصیت انھیں ہر سطح پر قول اور فعل کے تضاد میں مبتلا رکھتی ہے۔ اس کی اساسی وجہ یہ ہے کہ راسخ العقیدگی اور روح عصر میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں اور وقت کے دھارے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے یہ بے چہرہ لوگ کوئی ڈھنگ کا فیصلہ ہی نہیں کر پاتے۔ آج ہم اسی مسئلے کا شکار ہیں۔ ہم سب خود غرضی، مفاد پرستی اور موقع پرستی میں بسنے والی قوم ہیں بلکہ قوم ہیں ہی نہیں کیونکہ قومیں اپنی شناخت کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ شاید ہی موجودہ نسل میں کوئی پڑھا لکھا ہو جسے یہ معلوم ہو کہ وادی سندھ ساڑھے پانچ ہزار سے چھ ہزار برس پرانی تہذیب کی وارث ہے یہاں دنیاکے سب سے قدیم قبائل (ایک منڈا قبیلہ ہے) بستے رہے ہیں۔’’ انڈیا‘‘کا نام اسی شیر دریا انڈس سے اپنی مناسبت رکھتا ہے دنیا کا سب سے زرخیز ادب(Rich Literature)حتیٰ کہ رگ وید یںاسی وادی میں تخلیق ہوئیں۔ بڑے بڑے صوفیا اور صوفیانہ شاعری کے عقب میں یہی وادی موجود ہے لیکن آج کی نوجوان نسل کو ایسی کسی حقیقت سے کوئی غرض نہیںکہ اس کا ماضی کیا تھا۔ وہ صرف اپنے ذاتی تحفظ کے لیے ہر جائز و ناجائز ( بلکہ زیادہ ناجائز) ذرائع استعمال کر کے امیر اور طاقت ور بننا چاہتا ہے۔ محبت، انسان دوستی، باہمی بھائی چارہ اور رواداری، ایک دوسرے سے جڑت رکھنے کی صورت میں پنپتی ہے اور اس کی بنیاد ایک مضبوط اور لازوال شناخت ہی میں پنہاں ہے۔

اس تناظر میں ہماری ریاست، نصاب، اہل سیاست اور دیگر ادارے ذمہ دار ہیں۔ جب ریاست اپنے لوگوں کو تحفظ اور حقوق دینے میں ناکام ہو جائے، نصاب میں اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو تعلیمی حکمتوں سے نہ پڑھایا جائے اور اہل سیاست مستحکم سیاسی نظام کو مروج کرنے میں ناکام ہو جائیں، نوجوان نسل کا مستقبل بے یقینی کا شکار ہو، ریاستی ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو جائیں اور تعلیم جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے طبقاتی بنیادوں سے دی جارہی ہو تو پھر لوگوں کی جڑت اور عقیدت اپنے ملک، اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں سے نہ بنے تو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ اسی سر زمین پر جب مختلف مسالک، دھرم، مذاہب اور زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہوں مگر اہم اور متبرک صرف دو چار ہوں اور باقی دھتکارے ہوئے تو شناخت کے مسائل تو ضرور پیدا ہو ں گے۔ شناخت انسان کی فطرت کا بنیادی تقاضہ ہے۔ خود کو منوانا اور اپنی ذات کا احترام کراناہمیشہ سے انسان کا ’’ کریز‘‘ رہا ہے۔ مگر ملک خداداد میں ذات پات اور دین دھرم کے اتنے تضادات موجود ہیں کہ ملک کی کثیر آبادی خود کو یہاں کے متنوع نظام ہائے زندگی کا حصہ ہی نہیں سمجھتی۔ پاکستان بنے پون صدی ہونے کو ہے، ابھی تک ملک کی چھوٹی قومیتوں کو اسٹیبلشمنٹ کے رحم و کرم پر کس نے چھوڑرکھا ہے؟ یقیناً اس کے پیچھے وہ طرز احساس کار فرما ہے جو کسی انجانے خوف کا شکار ہے کہ چھوٹی قومیتوں کو حقوق دینے، مقامی زبانوں کا احترام کرنے اور اقلیتوں کے اعتراف میں کہیں کسی کے مفادات کو زک تو نہیں پہنچے گی۔

یہ سب کیوں ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قومی سطح پر کوئی ایسی پہچان یا شناخت نہیں ہے جو ہمیں رواداری کا ماحول دے سکے اور متوازن معاشرے کی بنیاد استوار ہو سکے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج پاکستان کی علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والی شعریات اور ادبیات ’’ مابعد نو آبادیاتی‘‘ مطالعے کی طرف راغب کر رہی ہیں۔ مقامی ثقافتوں، کرداروں اور اپنی دھرتی کی طرف مراجعت کا درس، دراصل اس بیگانگی اور اجنبیت سے محفوظ رکھنے کا درس ہے جو شناختی بحران کے بموجب آج کے اہل پاکستان کا مقدر بنا ہے۔ المیہ یہ بھی بن چکا ہے کہ یہاں کے باسی اپنی اصل شناخت کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنی شناخت اپنی زبان، تہذیب، ثقافت اور تاریخ کی بجائے مذہب میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کا خمیازہ ہم سقوط ڈھاکہ کی صورت میں پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ ابوالکلام آزاد نے 1946ء میں اپنے ایک انٹرویو میں وضاحت سے آئندہ منظرنامے سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان ( جو بننے چلا ہے) صرف اسی وقت تک متحد رہے گا جب تک محمد علی جناح اور لیاقت علی خان زندہ ہیں۔ کیونکہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں سوائے اسلام کے کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ دنیا میں آج تک مسلم ممالک میں پائیدار اتحاد کبھی قائم نہیں رہ سکا کیوں کہ ان کے مابین مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی سطح پر بہت سے تضادات موجود ہیں۔

ابوالکلام آزاد کے اس بیانیے نے آج اس بات کو سچ ثابت کر دکھایا ہے کہ مذہب کبھی قوموں کو متحد رکھنے کا طاقتور عامل نہیں بن سکتا بلکہ قوموں میں اتحاد پیدا کرنے والی قوت دھرتی سے جڑا بیانیہ ہوتا ہے۔ اہل ِپاکستان کا شناختی بحران آج جو شدت اختیار کر چکا ہے اس کے عقب میں ماں دھرتی سے جڑت نہ ہونے کا رویہ ہے کیوں کہ دھرتی سب باسیوں کی سانجھی ہوتی ہے جبکہ مذہب اور مذہب سے جنم لینے والے عقائد مختلف اور جدا جدا ہوتے ہیں اور شناخت کے مسائل اجتماعی اور باہمی محبت و رواداری سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...