جنوبی ایشیا میں جہادی تعبیرات کی علمیاتی تاریخ

پروفیسر فرانسس روبن سن

1,084

پروفیسرفرانسس کرسٹوفر رولینڈ روبن سن ماہرِ سماجیات اور تاریخ دان ہیں۔ وہ رائل ہالوے یونی ورسٹی آف لندن، برطانیہ کے شعبہ تاریخ سے وابستہ ہیں۔ وہ اسلام اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی تحقیقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا زیرِ نظر مضمون پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرِ لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان کی کتاب ’’جنوبی ایشیا میں جہادکی تعبیرات کی علمیاتی تاریخ‘‘ پرتنقیدی تبصرے کے طور پر لکھا گیا ہے جو لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے Bloomsbury Pakistanنے انگریزی زبان میں شائع کیا جس میں پروفیسر فرانسس روبن سن ان کے نقطہِ نظر اور ان کی علمی کاوش کی تائید وتحسین کرتے ہوئے کچھ تاریخی حقائق کی تصحیح کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔

ڈاکٹر طارق رحمان پاکستان کے ایک نامور اسکالر ہیں۔پاک فوج میں عمر کی تین دہائیاں گزارنے کے بعد انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اورانگریزی ادب و لسانیات پر اپنی توجہ مرکوز کردی۔انہوں نے پاکستانی تناظر میں لسانی مسائل کو موضوعِ تحقیق بنایا۔ اس موضوع پر ان کی تازہ تصنیف’ ہندی سے اردو تک: سماجی و سیاسی تاریخ‘ 2011ء میں شائع ہوئی۔ انہوں نے زندگی میں کئی اعزازات اور کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں پاکستان چیئر کے عہد پر متمکن ہوئے۔ قائدِ اعظم یونی ورسٹی اسلام آباد کے قومی ادارہ برائے مطالعہ پاکستان کے ڈائریکٹر کے طور پر تعلیمی خدمات سرانجام دیں،اور انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے حسنِ کارکردگی کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ان کے ماضی کی سرگرمیوں اور ترجیحات کو دیکھ کربمشکل یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا میں جہادی تعبیرات کے موضوع پر اس قدر خوبصورتی سے لکھ پائیں گے۔ لیکن حالات نے انہیں اس طرف مائل کیا، ان کے ارد گرد کے ماحول میں بڑھتی ہوئی اسلامی عسکریت پسندی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اس کام میں اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔ ان کی بیٹی نے انہیں بتایا کہ برطانیہ میں بھی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے آثاربڑھ رہے ہیں جبکہ جن شہروں کو وہ بہت اچھے طریقے سے جانتے تھے، یعنی اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور وغیرہ، یہ تمام شہر کب سے اس رجحان کی زد میں تھے۔ ان تمام تبدیلیوں کی کوئی قابلِ اطمینان توضیح نہ ہونے کے باعث انہوں نے یہ محسوس کیا ان تمام معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے یہ بھاری پتھر انہیں خود ہی اٹھانا پڑے گا۔

اگرچہ اسلامی عسکریت پسندی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن ڈاکٹر طارق رحمان ایک تہائی مسلمانوں پر مشتمل جنوب ایشیائی خطے کی صورتِ حال کو موضوع بناتے ہیں۔وہ سب سے پہلے اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و حدیث میں موجود جہاد ( عسکری اقدام) کے حوالوں کا مطالعہ پیش کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم کو بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کی 183آیات جہاد و قتال کے حوالے سے ہیں، وہ ان آیات کو ایک جدول میں انگریزی ترجمے کے ساتھ ایک ضمیمے کے طور پرہمارے سامنے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیشتر صورتوں میں جنگ کے لیے استعمال کی گئی اصطلاح قتال ہے۔ لفظِ جہاد محض 36 بار آیا ہے اور اس کا مطلب جدوجہد یا کوشش ہے جبکہ صرف 10 بار جہاد سے مراد قتل و قتال یا جنگ وغیرہ لیے گئے ہیں۔ جہاد کی اصطلاح پر امن جدوجہد کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ بہرحال مقدس جنگ سے متعلق آیات کے تجزیے کی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ جنگ و جدل کے لیے جہادسے زیادہ موزوں اصطلاح قتال کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تما م کلاسیکی فقہی مکاتبِ فکر ان جنگوں کی نشاندہی سورۃ البقرۃ کے حوالے سے کرتے ہیں جس میں قتال کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ ڈاکٹر طارق رحمان پیٹریشیا کرون کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ یہ ایک معجزہ ہے کہ جہاد کا لفظ مقدس جنگ کی تکنیکی اصطلاح کے طور پر سامنے آیا ہے‘‘۔

طارق رحمان کہتے ہیں کہ متن اور تعبیر دو باہم جدا چیزیں ہیں اور روایتی طور پر تعبیرات تغیر پذیر رہی ہیں۔ وہ قرآن کے تشریحی عمل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ کوئی بھی فرد مختلف تعبیری مناہج کی بنا پر کسی ایک آیت کی تشریح کسی دوسرے فرد کی پیش کردہ تشریح سے مختلف یا اس سے بالکل متضاد بھی کر سکتا ہے‘۔ احادیث کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح احادیث کی تشریحات میں فقہا کی سماجی اخلاقیات و اقدار کا اثر نظر آتا ہے۔ یہ خیال کس قدر پختہ ہے کہ ’’چنانچہ جہاد کو بطور ایک تصور پیش کرنے والی تمام تر تشریحات میں تغیر پذیری تعبیر کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس طرزِ عمل کے سبب ہے کہ تغیر پذیری اور انجمادسے طبعی وابستگی کی بنیاد پر کسی تعبیر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ‘‘

ماقبل دورِ جدید میں جب مسلمان مقتدر تھے، اس دور میں لکھی گئی تفاسیرِ قرآن اور جہاد سے متعلق کتب کے مطالعے کی بنا پر طارق رحمان کا موقف ہے کہ اس وقت کے علما کے ہاں جہاد کی دو اقسام تھیں، اقدامی اور دفاعی؛ تاہم اس کا مقصد دنیاوی جاہ و حشمت اور زیادہ سے زیادہ علاقہ فتح کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے زیرِ نگیں رکھنے کی بجائے مذہبِ اسلام کا پھیلائو تھا اور یہ بھی کہ جہاد اسلامی ریاست کے سربراہ کی طرف سے اجازت کے بغیر جائز اور روا نہیں ہے۔ لیکن اٹھارہویں صدی میں جب مسلمانوں کا اقتدار زوال کی جانب بڑھنے لگا تو معاملہ بدل گیا۔وہ شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی، ان کے خاندان اور رفقا کے مختلف جوابی طرز ہاے عمل کو بیان کرتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ برِ صغیر سے باہر کے مسلم سلاطین اور حکمرانوں کو خطے پر حملہ آور ہو کر مسلم سلطنت کو ازسرِ نو قائم کرنے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی جو برطانوی حکومت کو کسی طرح بہتر طور پر سمجھ چکے تھے، انہوں نے انگریزوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنے کی ممکنہ صورتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے فتویٰ دیا۔ جبکہ شاہ عبد العزیز کے شاگرد سید احمد بریلوی نے سکھوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا علم بلند کیا۔ اس امید کے ساتھ کہ وہ شمال مغربی سرحد پر ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام عمل میں لا سکیں۔

طارق رحمان وضاحت کرتے ہیں کہ انیسویں صدی میں برطانوی سامراج کی خطے میں موجودگی کے پیشِ نظر جنوب ایشیائی تناظر میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ طاقت کے اس کھیل میں مسیحی مبلغین برطانوی حکومت کے شانہ بشانہ تھے، اور ان میں سے بعض ہندوستان کو مسیحی سلطنت بنانے کا عزم لیے ہوئے تھے اور ان میں سے بیشتر اس بات کا پرچار کرنے لگے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔وہ مسلمان، جنہیں عموماًجدت پسند کہاجاتا ہے، جو برطانوی حکومت اور مغربی تہذیب کے ساتھ ربط استوار کرنا چاہتے تھے، انہوں نے جہاد کی تشریحات میں واضح طور پر یہ زور دیا کہ جہاد صرف دفاعی ہوتا ہے اور برطانوی حکومت کے اندر ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ یہاں ہم آزادانہ طریقے سے عبادات کر سکتے ہیں۔تاہم علما کے نزدیک مسائل اس قدر آسان نہیں تھے۔ انیسویں صدی کے آخری نصف میں برِ صغیر کی چند ذہین علمی شخصیات میں سے ایک مولانا عبد الحی فرنگی محل نے موقف پیش کیا کہ انگریز سرکار کے خلاف مزاحمت کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ بیشترعلما نے ان سے اس بات پر اختلاف کیا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں بنگال کی فرائضی تحریک کے روحِ رواں حاجی شریعت اللہ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دیا۔ ایک صدی بعد تحریکِ خلافت کے زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ہندوستان کو دارالحرب کہااور فتویٰ ہجرت جاری کیا جس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمانوں کی کثیر تعداد نے افغانستان کی طرف ہجرت کی تاہم اس کے نتائج انتہائی دردناک ثابت ہوئے۔علاوہ ازیں شمال مغربی سرحد پر بھی کئی مزاحمتی تحریکیں جاری تھیں جن میں یہاں کے مقامی مولوی برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں لفظِ جہاد کا استعمال کیا کرتے تھے۔ان ایام میں بڑے پیمانے پر کوئی مسلمہ مسلم سلطنت قائم نہیں تھی اور مسلمان حکمِ جہاد کے کلاسیکی اصولوں کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا صاحبِ تصنیف کے مطابق ان دنوں لفظِ جہاد اپنے فقہی پسِ منظر اور مذہبی متون کے تشریحی سیاق کی بجائے جذبات کے اظہار کا ایک معاملہ بن گیا تھا۔ ایک طرح سے یہ ایک عوامی نوعیت کے تصور میں ڈھل چکا تھا جس کی باگ ڈوربیداریِ عامہ کے لیے آواز لگانے والے کسی بھی فردکے پاس آجاتی تھی۔

مابعد نو آبادیاتی دور کی طرف بڑھتے ہوئے طارق رحمان ایک نئے مفہوم پر اصرار کرتے ہیں جو جدید ریاست کے اسلامی قالب کو اہمیت دینے کے سبب وجود میں آیا ہے۔ پاکستان میں اس تصور کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی تھے، تاہم ان کی اس فکر نے بعد ازاں مشرقِ وسطیٰ کے کئی مسلم مفکرین، بالخصوص سید قطب کو بہت متاثر کیا۔ان کے نزدیک اور ان سے متاثر دیگر افراد، جیسا کہ عبد السلام فرج کے مطابق کامل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی ہی مسلم حکومتوں کو اقتدار سے باہر نکالنے کے پیشِ نظر مزاحمتی جہاد وقت کی ضرورت بن کر سامنے آیا۔ صاحبِ کتاب ان سطروں میں جہاد کے مقصد اور اس کی ساخت میں در آئی تبدیلی کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اب پرتشدد ہو چکا ہے اور اس کا مقصدجدید ریاست کو ایک اسلامی سماج میں بدلنے کے لیے اپنے تسلط میں کرنا ہے۔پاکستان میں یہ نظریات ان افراد کی تحاریر کی صورت داخل ہوئے، تاہم ان کی درآمد میں عبداللہ عزام، اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الظواہری جیسے عربوں کا بھی حصہ ہے جو 1979ء کے افغان جہاد میں روس کے خلاف لڑنے کے لیے پاکستان آئے۔

طارق رحمان اس بات سے آگاہی فراہم کرتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد پرست اسلام پسند قوتیں اپنے ہم خیال شرق وسطی بھائیوں کی طرز پر آگے بڑھی ہیں۔ وہ لشکرِ طیبہ کے سربراہ حافظ محمد سعید، جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود ازہر اور جامعہ بنوری ٹائون کے مفتی نظام الدین شامزئی کی تحاریر کے تجزیاتی مطالعے کی بنا پر کہتے ہیں کہ کشمیر میں بھارت، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور دنیا میں امریکا کے کردارکی مذمت ہر تین افراد کی تحاریر میں ملتی ہے۔ تاہم عمومی طور پر ’’ وہ اس آئیڈیالوجیکل تصور کے ساتھ شروعات کرتے ہیں کہ جہاد تمام پاکستانی مسلمانوں پر فرض ہے اور چونکہ حاکمانِ ریاست ان احکاماتِ اسلام کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں تو اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بطور امام اس فریضے کی ادائیگی کی سبیل کریں۔ مزید یہ کہ ان کے نزدیک جہاد ایک مزاحمت ہے اور اگر یہ طاقتور دشمنوں کے خلاف ہے تولڑائی کے کئی غیر روایتی طریقے (خود کش حملے وغیرہ )بھی استعمال میں لائے جا سکتے ہیں۔‘‘ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ پاکستان میں رائج جہاد سے متعلق تصورات جہاد کی کلاسیکی تعریفات سے بہت حد تک دور جا چکے ہیں۔حتیٰ کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں رائج جہاد ی تصورات سے بالکل مختلف ہیں جہاں حکومت کے خلاف جہاد اگرچہ روا سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں حکومت کی طرف سے کی گئی کسی کارروائی کو بھی جائز تسلیم کیا جاتا ہے اور غالباً اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے حساس ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس نے ان عناصر کو اپنے لیے مفید سمجھ لیا ہے باوجود اس کے کہ ان کی رفاقت کے مضمرات ہمیشہ الٹے پڑے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ جہاد کی کوئی بھی موجودہ تعبیر ایسی نہیں ہے جو کلاسیکی دور سے اب تک جوں کی توں رہی ہے، یہ تمام تشریحات ہمہ دم بدلتی رہی ہیں۔ بالخصوص مغربی سامراجی دور کے بعد ہر گروہ نے اپنے عقائد، سیاسی صورتِ حال اور طبقاتی ضررویات کے پیشِ نظر اس تصور کی مختلف تشریح کی ہے۔ جہاد کے گذشتہ و موجودہ تصورات جن قرآنی آیات سے ماخوذ ہیں، ان آیات کے تجزیے پر مشتمل سیاسی و مذہبی مفکرین کے تحقیقی مطالعہ جات اس نقطہِ نظر کی توثیق کرتے ہیں۔ یہ کتاب ایک عمدہ کاوش اور جہاد سے متعلق تحقیقی ادب میں نمایاں اضافہ ہے۔ تاہم اس کتاب میں کچھ غلطیوں کی نشاندہی کرنا ضروری ہے مثال کے طور پر وہابیت کے بانی محمد عبدالوہاب نہیں بلکہ محمد بن عبد الوہاب تھے، اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد، حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے بیٹے نہیں ہیں اور ممکنہ طور پر ملفوظاتِ تیموری کو بطور حوالہ نقل کرنا علمی اخلاقیات کے خلاف ہے کیوں کہ بیشتر اہلِ علم کی جانب سے اس کتاب کو جعل سازی کا شاخشانہ قراردیا گیاہے۔ اس بات کا اعتراف انتہائی ضروری ہے کہ جس طرح ڈاکٹر طارق رحمان جنوبی ایشیا میں جہادی تصورات کی علمیاتی تاریخ کی بنا پر تشریحی مناہج کو سامنے لائے ہیں، یہ ان کا خاصہ ہے۔وہ تاریخی نظائرو وقائع کی بنا پر اس تصور میں در آنے والی تبدیلیوں کوعمدگی سے بیان کرتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ ان کی یہ کتاب نہ صرف علما و محققین بلکہ پالیسی ساز حلقوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
(مترجم: حذیفہ مسعود)

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...