امریکی وفد کا دورہ اور حقانی نیٹ ورک کا تذکرہ

866

روایتی طور پر افغانستان کے شمال مشرقی صوبے خوست، پکتیا اور پکتیکا حقانی نیٹ ورک کے مضبوط مراکز رہے ہیں اور پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اب بھی اپنے ملک میں ہے

پاکستان اور افغانستان طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کا الزام لگاتے رہے ہیں اور یہ ہی معاملہ دو پڑوسی ممالک کے درمیان بداعتمادی و دوریوں کا سبب بھی بنا۔

باوجود اس کے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اور ظاہری طور پر موجود عسکریت پسندوں کے ڈھانچے کو توڑا دیا گیا، لیکن اب بھی پڑوسی ملک اور امریکہ خوش نہیں ہیں۔

کابل حکومت اور امریکہ کی طرف سے پاکستان پر یہ زور دیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے ہاں مبینہ طور پر موجود افغان طالبان کے دھڑے حقانی نیٹ کے خلاف کارروائی کرے۔

گزشتہ اختتام ہفتے سینیٹر جان مکین کی قیادت میں امریکی قانون سازوں کے  پانچ رکنی وفد نے پاکستان کے دورے بعد کابل میں افغان حکام سے بھی ملاقاتیں، جس کے بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

پاکستان کے دورے کے دوران امریکی وفد نے نا صرف وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں بلکہ قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کا بھی دورہ کیا جہاں اُنھیں عسکری کمانڈروں نے دہشت گردوں کے خلاف حاصل کی گئی کامیابیوں کے بارے میں بریفنگ دی۔

اس دورے کے بعد امریکی وفد کابل گیا تو اُنھوں نے افغان قیادت کو بتایا کہ پاکستان سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف باہمی تعاون سے اپنی اپنی حدود میں کارروائیوں پر آمادہ ہے، جس سے افغان قیادت نے بھی اتفاق کیا۔

جب کہ یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ پاکستان اور افغانستان ڈیورنڈ لائن پر اپنی اپنی جانب ایک دوسرے کے تعاون سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

افغان حکام کے مطابق اُنھیں امریکی وفد نے یہ بھی بتایا کہ ایسی کارروائیوں کی نگرانی اور تصدیق میں امریکہ کی طرف سے مدد کی جائے گی۔

لیکن پاکستانی عہدیداروں کی طرف سے اس بات کی سختی سے تردید کی گئی کہ افغان فورسز کی کسی بھی صورت پاکستانی حدود میں مشترکہ کارروائی اجازت دی جا سکتی ہے۔

تاہم یہ تجویز ضرور زیر غور ہے کہ جب پاکستان اپنی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گا تو افغان فورسز اپنی جانب سرحد کی نگرانی بڑھا دیں تاکہ فرار ہونے والے شدت پسندوں کو پکڑا یا مارا جا سکے اور ایسی ہی حکمت عملی پاکستان کی جانب بھی اختیار کی جائے گی۔

لیکن کیا یہ عملی طور پر ممکن ہے یا اس کے امکانات ہیں، بظاہر فوری طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔

حقانی نیٹ ورک ہے کیا؟

حقانی نیٹ ورک کو افغان طالبان کا تجربہ کار، مضبوط اور منظم گروہ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے جنگجوؤں کی تعداد اب بھی ہزاروں بتائی جاتی ہے۔اس گروپ کو افغان طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی کے نام کی وجہ جانا جاتا ہے، جو ماضی میں افغانستان میں روس کے خلاف ہونے والے جہاد کے ایک اہم کمانڈر رہے۔

لیکن اب اس گروہ کی قیادت جلال الدین حقانی کے بیٹے سراج الدین کر رہے ہیں اور وہ افغان طالبان کے نائب سربراہ بھی ہیں۔

حقانی نیٹ ورک کو پاکستان سے اس لیے جوڑا جاتا ہے کہ 1980 کی دہائیوں میں افغانستان میں جنگ کے دوران اس گروپ کی قیادت افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رہی۔

جب کہ اس بعد بھی یہ تاثر رہا کہ شمالی وزیرستان حقانی نیٹ ورک کا مرکز ہے اور طویل عرصے تک امریکہ یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی کارروائی کرے۔

تاہم پاکستانی عسکری کمانڈر یہ ہی کہتے رہے کہ اس علاقے میں کارروائی مناسب وقت پر کی جائے گی، اور پھر جون 2014 میں پاکستان فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ کیا جس میں تمام ہی دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد پاکستان کی طرف سے بارہا یہ کہا گیا کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے ڈھانچے کو منتشر کر دیا گیا ہے اور پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کی اصل طاقت افغانستان ہی میں ہے۔

افغان اور امریکہ عہدیدار اس نیٹ ورک کے خلاف اس لیے بھی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں کیوں کہ وہ حقانی نیٹ ورک کو افغان اور بین الاقوامی سکیورٹی فورسز کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

روایتی طور پر افغانستان کے شمال مشرقی صوبے خوست، پکتیا اور پکتیکا حقانی نیٹ ورک کے مضبوط مراکز رہے ہیں اور پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ گروہ اب بھی اپنے ملک میں ہے۔

حالیہ مہینوں میں افغانستان کے مشرقی صوبوں خوست اور پکتیکا میں امریکی فورسز کی فضائی کارروائیوں میں بھی حقانی نیٹ ورک کے متعدد جنگجوؤں کی ہلاکت کی خبریں سامنے آ چکی ہیں اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغان طالبان کے کمانڈر اپنے ہی ملک میں ہیں۔

لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان دنیا کو یہ یقین دہانی نہیں کروا سکا کہ دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...