کولن وارڈ معروف برطانوی انارکسٹ لکھاری ہیں۔ انہیں سماجیاتی تاریخ کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون ان کی کتاب Anarchism: A very Short Introductionکی تلخیص ہے جس میں انارکی کی درست تفہیم پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ ایک انارکسٹ سماج کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ دنیا میں انارکی کی اصطلاح کو زیادہ تر منفی مفہوم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا مطلب انتشار، خانہ جنگی یا فساد ہے۔ لیکن یہ اس کا حقیقی مطلب نہیں ہے۔ اس کا اصل استعمال ریاستوں کے استحصالی جبر کے خلاف کیا جاتا ہے۔ دنیا میں انارکسٹ نظریات کے حامل فلسفی اور گروہ ایک منظم فکر رکھتے ہیں۔ یہ انسانی آزادی پرعائد حدبندیوں اور درجہ بندیوں کو مسترد کرتے ہیں۔
بلاشبہ آپ نے انارکی کا نام تو سْن رکھا ہوگا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس اصطلاح کو عموماََ منفی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ افراتفری، دنگے فساد اور حتیٰ کہ سماجی ابتری۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انارکی کا منفی معنوں سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ دراصل اس اصطلاح کا استعمال انیسویں صدی کے فلسفیوں نے کیا اور وہ اس اصطلاح کے ذریعے اپنے تصورات میں موجود اس سماج کی وضاحت کررہے تھے جو بہت حد تک مساویانہ اور منصفانہ ہوتا ہے۔
انارکی کا بنیادی مقصد انسانی سماج سے درجہ بندی پر مبنی استحصالی نظام کا خاتمہ ہے چاہے وہ استحصالی درجہ بندی ریاست کی جانب سے اس کی پولیس فورس کی شکل میں ہو ، چاہے پدرشاہی کی جانب سے یاکسی مذہبی نظام کی جانب سے۔ جب اس استحصالی جبر کا خاتمہ ہوجائے گا تو انارکی پسندوں کے خیال میں سماج دوطرفہ احترام، براہ راست جمہوریت اور ایسے وفاق کی جانب بڑھ جائے گا جہاں انسانوں کا اجتماعی فائدہ تمام انسانوں کا مطمحِ نظر ہوگا۔
اگرچہ یہ تصور اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں انقلاب فرانس کی ناکامیوں کے سبب رائج ہوا تاہم یہ آج بھی اتنا ہی موزوں و برمحل ہے جتنا کہ اس دور میں تھا۔ جدید دور کے بحرانوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلیاں انسانی معاشر ے کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔ اس عہد میں انارکی پسند نظریات انسانی بقا کے لیے شہ رگ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔
انارکی پسند نظریہ ایک سیاسی فلسفہ ہے جو ہرطرح کی درجہ بندی کو مسترد کرتا ہے۔
انارکزم کا لفظ یونانی لفظ انارکیہ سے نکلا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’ بغیر رہنما کے‘‘۔ تاہم جدید دور میں انارکز م کا فلسفہ انیسویں صدی میں پروان چڑھا جب فرانسیسی مفکر پیرے جوزف پروڈن نے لفظ انارکزم کو اپنے سیاسی فلسفے سے جوڑا۔ اس فلسفے اور نظریے کا مطمحِ نظر یہ ہے کہ سماج کو بغیر کسی مرکزی حکومت یا طاقت کے منظم کیا جاسکتا ہے اور اسے ہونا چاہیے۔ جوزف پروڈن اور دیگر انارکی پسند اس امر کے قائل ہیں کہ سماجی نظم کے لیے انسانوں کے مابین انفرادی اور اجتماعی سطح پر رضاکارانہ معاہدے ہونے چاہئیں اور اس طرح کے سماج میں قابلیت اور انصاف نمو پائے گا اور یہ سماج اپنے تمام نمائندگا ن کے لیے پیداوار اور ضرورت کے مابین منصفانہ تناسب قائم کرسکے گا۔
لیکن پروڈن اس طرح کا سماج کیوں چاہتا تھا ؟ اس کا جواب انقلاب فرانس کی ناکامیوں میں پنہاں ہے۔انقلاب کے بعد کسانوں اور مزدوروں کے اس واہمے کا خاتمہ ہوگیا کہ نئے قائم ہونے والے اس سیاسی بورژوائی طبقے سے کچھ فائدہ ہوگا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ یہ لوگ جو اب حکمران بنے ہیں ان میں اور ان سابقہ حکمرانوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے جنہیں انہوں نے انقلاب کے دوران نکال باہر کیا تھا۔ پولیس اور فوج جیسے اداروں کے سفاک رویے، ستم زدہ ابتدائی دور کے انارکی پسند مفکرین، مثا ل کے طور پر پروڈن جیسے لوگوں نے بیان کیا کہ ایسا نہیں ہے کہ حکمران طبقہ ہی ان تمام مسائل کی وجہ تھا۔ بلکہ اس کی وجہ تصور حکمرانی ہے جس کے مطابق انسانوں کے ایک گروہ کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ دیگر پہ حکمرانی کرسکے اور یہ تصور ہی انسانی سماج میں تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ لہٰذا یہ معاملہ ہی ریاست کا ہے اور ایسا کیا طریقہ ہو کہ اس کا خاتمہ کیا جاسکے اور ایک منصفانہ سماج قائم ہو، یہی وہ فکر ہے جو اٹھارہویں صدی سے انارکی پسند مفکرین کا بنیادی نقطہ رہا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہوگا اس کا جواب اس صورت پہ منحصر ہے کہ آپ یہ سوال کس سے پوچھ رہے ہیں۔
انارکی پسندوں کا سب سے مشہور گروہ اشتمالیت پسند انارکسٹ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ کسی بھی خطے میں زمین، وسائل اور ذرائع پیداوار اسی لیے موجود ہیں کہ ان کا اختیار اس سماج کے پاس ہو جو ان سے مستفید ہورہا ہے۔ دیگر انارکی پسند تصورات مثلاََ فیمینسٹ اور گرین پولیٹکس ہیں تاہم انارکی پسند تصورات چاہے وہ کسی بھی گروہ کے ہوں وہ تمام طرح کی خارجی درجہ بندیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، چاہے ریاست کی جانب سے نافذ کی گئی ہوں ملازمت کے دوران مالکان کی جانب سے یا کسی مذہبی ادارے یا تنظیم کی جانب سے لاگو کی گئی ہوں۔
لیکن ایک انارکسٹ سماج کس طرح قائم ہوگا ؟ اس کے لیے چار اصول ہیں جو ممکنہ حد تک بروئے کار لائے جائیں گے۔ اولاً انارکی پسند تنظیموں کی رکنیت رضاکارانہ ہو اور اس کے لیے کسی باقاعدہ رکنیت کا عمل نہ ہو کیونکہ اس صورت میں انسانوں کی انفرادی آزادی اور ذمہ داری پہ حرف آئے گا۔ ثانیاً انارکی پسندوں کو ایک عملی صورت میں ڈھلنا ہوگا اور ان کے پاس اپنی موجودگی کا ایک واضح مقصد ہونا چاہیے۔ ثالثاً ان تنظیموں کا قیام عارضی ہو کیونکہ مستقل تنظیمیں زیادہ دیر تک فائدہ مند نہیں رہتیں۔ اگر وہ زیادہ عرصے تک قائم رہیں تو وہ اپنی بقا کی کوشش میں الجھ کر رہ جاتی ہیں یوں ان کا اصل مقصد ختم ہوجاتا ہے جس کے حصول کے لیے انہیں قائم کیا گیا تھا۔ رابعاً یہ لازم ہے کہ انارکی پسند تنظیمیں حجم میں چھوٹی ہونی چاہئیں۔ کیونکہ درجہ بندی کی امکانی صورت ایسی جگہ پہ زیادہ نہیں ہوتی جہاں افراد مسائل کے حل کے لیے ذاتی تعلقات کی صورت کوشش کررہے ہوں۔
ممکن ہے کہ یہ سب تشریحات محض تصوراتی وہم و گمان کی صورت لگ رہی ہوں۔ بہر حال آگے چل کر ہم یہ کھوج لگائیں گے کہ کس طرح انارکی پسند مفکرین نے سماج میں تبدیلی کا تصور واضح کیا اور ان انارکی پسند تصورات نے عملی میدان میں کیا کارگزاری انجام دی۔
انارکی پسند تصورات کو پیٹر کروپوٹکن اور پیرے جوزف پروڈن جیسے مفکرین نے پروان چڑھایا اور ان کی بہترین عملی صورت اسپین میں نظر آئی۔ اگرچہ انارکی پسند تصورات کی جانب بہت سے فلسفیوں نے غور وفکر کیا مگر اس کی تاریخ کے تین ادوار ایسے ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اٹھارہویں صدی کے روسی فلسفی پیٹر کروپوٹکن، ان کے ہم عصر فرانسیسی فلسفی پیرے جوزف پروڈن اور ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران انارکی پسند تصورات کا ہنگامہ خیز عہد۔
پیرے جوزف پروڈن نے پہلی باز انارکزم کی اصطلاح کے علاوہ دو مشہور زمانہ تصورات’’ملکیت دراصل چوری ہے‘‘ اور’’ملکیت آزادی ہے‘‘ ، بھی پیش کیے۔ ان کے مطابق یہ دونوں جملے ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہیں۔ ملکیت چوری ہی تو ہے کیونکہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی ملکیت عام طور پر مزدور طبقے کی استحصا ل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہ ملکیت آزادی بھی ہوتی ہے کیونکہ کسانوں اور مزدوروں کو رہنے کے لیے زمین کی ملکیت چاہیے۔ مزدوروں اور کسانوں کو زمین اور دیگر ذرائع پیداوار کی ضرورت ہے تاکہ وہ کامیاب ہوسکیں۔ ان کے لیے ملکیت ایک آزادی کی مانند ہے کیونکہ وہ استحصال یا چھینا جھپٹی سے حاصل نہیں کی گئی۔
یہ پروڈن کا ہی اصرار تھا کہ لوگوں کے گروہوں کے درمیان ایک مرکزی اتحادی ربط ہونا چاہیے۔ اسی کے سبب مئی 1871ء میں پیرس شہر میں پہلا عوامی مارچ ہوا۔ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اجتماع اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ تھا جہاں انقلابی اشتراکیت کی عملی صورت نظر آئی۔ ا س مختصر مدت کے دوران انقلابی رہنمائوں کو یہ اندازہ ہوا کہ پروڈن کی رائے کے مطابق انہیں اپنی بقا کے لیے دیگر طبقوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا۔ افسوس کہ ان کا یہ اکٹھ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور ان کی کوشش دم توڑ گئی۔
پروڈن کے علاوہ ایک اور انارکی پسند فلسفی پیٹر کروپوٹکن تھا۔وہ ایک سائنسی دماغ رکھتا تھا۔ اس نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے ایک منصفانہ قسم کا ادارہ قائم کرنے کی کوشش بھی کی۔ اس نے اپنی مشہور تصنیف ’’روٹی کی جیت‘‘ میں بیان کیا ہے کہ کس طرح عوامی پنچایتیں انقلاب کے بعد کے ابتدائی دنوں میں سماجی سطح پہ خود کو دوطرفہ امداد اور رضاکارانہ تعاون کے تحت منظم کرسکتی ہیں۔
سالوں بعد ہسپانوی خانہ جنگی کے عہد میں کروپوٹکن کے وہ نظریات جن میں اس نے بیان کیا تھا کہ کس طرح مزدور اور کسان مل جل کر صنعت اور زراعت کا نظام سنبھال سکتے ہیں، انہوں نے 1936ء کے انقلاب سے پہلے بہت اہم کردار ادا کیا۔ 1930ء کی دہائی میں اسپین بنیادی طور پر ایک زرعی سماج تھا جہاں آبادی کا 2 فیصد طبقہ67 فیصد وسائل کا مالک تھا۔ انقلاب کے بعد یہ صورتحال بدل گئی۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں نجی ملکیت کا خاتمہ کردیا گیا۔ زرعی رقبے کی دیکھ بھال اور کاشت کا عمل اجتماعی طرز پہ انجام دیا جانے لگا۔ انقلابی کاتولانیا کے علاقے میں اجتماعی کوشش کے عمل کو دیگر شعبو ں جیسا کہ پبلک ٹرانسپورٹ، بجلی اور ٹیلی کیمونیکیشن تک پھیلا کر اسے ملک کے مزید علاقوں تک پھیلا دیا گیا۔ اگرچہ آخر کار ہسپانوی خانہ جنگی میں جیت فسطائی قوتوں کی ہوئی اور فرانسیکو فرانکو حکمران بن گیا۔ ہسپانیہ میں انارکی پسند نظریات کی کامیاب عملی صورت سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ یہ نظریہ سماج میں تبدیلی کے لیے ایک بڑا محرک ثابت ہوسکتا ہے۔
انارکسٹ نظریات سماج کے بہت سے مسائل کے مختلف حل تجویز کرتے ہیں خاص طور پر ان میں وہ مسائل شامل ہیں جنہوں نے امریکی نظام انصاف کو گہنا یا ہوا ہے۔ اگرچہ انارکسٹ نظریات کا بنیادی مقصد سماج میں موجود درجوں کا خاتمہ ہے تاہم انارکی پسند فلسفیوں کے نظریات کی مدد سے بہت سے ایسے مسائل کا حل بھی تجویز کیا جاسکتا ہے جو موجودہ سماجی نظام کو درپیش ہیں۔ ایک معاملہ جہاں انارکی پسند نظریات بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں وہ جیلوں کی اصلاحات ہے۔ بہت سے انارکسٹ فلسفیوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سبب جیلوں میں کافی وقت گزارا ہے۔ کروپوٹکن نے اپنی زندگی کا کافی وقت مختلف جیلوں میں گزارا ہے جہاں اس نے موجودہ نظام انصاف کی خامیوں کا قریب سے مطالعہ کیا۔ یہ کروپوٹکن ہی تھا جس نے سب سے پہلے ’’جیلوں کو جرائم کی یونیورسٹیز‘‘ کا نام دیا۔ جیل میں قید کے دوران بہت سے ایسے قیدی جو معمولی جرائم کے سبب قید میں ہوتے ہیں وہاں موجود دیگر ساتھیوں سے بڑے جرائم کی تربیت لے لیتے ہیں۔ جیل سے رہائی کے بعد وہ ان جرائم کو سرانجام دیتے ہیں اور پھر پکڑے جانے کی صورت میں واپس جیل کی قید میں پہنچ جاتے ہیں۔
کروپوٹکن کے مشاہدات نے بعد ازاں امریکی نظام انصاف میں تبدیلیاں لانے والے اصلاح کاروں کے لیے بنیاد فراہم کی۔ ان میں سے بہت سے مصلحین دونوں عالمی جنگوں کے دوران ضمیر کے قیدی رہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جیلوںمیں قید بہت سے قیدی پسماندہ پس منظر کے حامل ہوتے ہیں۔ غربت ایک بنیادی عامل ہے جس کے سبب بہت سے افراد معمولی جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔آپ ان معمولی جرائم کے مجرمین کو جرائم کی یونیورسٹی میںبھیجیںتو وہ وہاں سے مزید جرائم سیکھ کر آئیں گے۔ آزاد ہو کر پھر وہ کوئی مزید بڑا جرم کریں گے اور پھر پکڑے جائیں گے اور قید برداشت کریں گے اور آگے ہی آگے جرم و سزا کا یہ مرحلہ طویل عرصے تک چلتا رہے گا۔
ان مشاہدات کے سبب اصلاح کاروں نے نظام انصاف میں انسانی تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کا عمل تیز کیا۔ مثال کے طور پر ایک تجویز کے مطابق معمولی جرائم میں ملوث افراد کو سزا کے بعد عارضی خدمات کے شعبے میں کھپا یا جاتا ہے جہاں ایک افسر اس شخص کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اسے رہنمائی مہیا کرتا ہے کہ وہ عام زندگی کی جانب لوٹ جائے اور جرائم کے سلسلے میں ملوث ہوکر نہ رہ جائے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات اب بہت حد تک کم ہوگئے ہیں۔ مثال کے طور پر سال2000ء میں امریکا میں2 ملین افراد جیلوں میں قید تھے۔ جدید قومی تصور پر قائم ریاستوں میں امریکہ اس وقت سرفہرست ہے جہاں آبادی کے تناسب کے لحاظ سے سب سے زیادہ افراد جیلوں میں قید ہیں۔ ایک بار پھر ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے انارکی پسند نظریات کی جانب دیکھنا ہوگا کہ ہم منشیات کے استعمال میں مسلسل اضافے کے سبب جیلوں میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر کس طرح قابو پائیں۔
1922ء میں ایک اطالوی انارکسٹ فلسفی ایریکو مالاٹسٹا نے کہا تھا کہ منشیات کے استعمال کے سبب جیلوں میں قید افراد پر اس سزا کا اثر متضاد ہوتا ہے کیونکہ جیلوں میں قید افراد میں منشیات کے استعمال کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور یوں سماج میں منشیات سے متعلق جرائم مثال کے طور پر اسمگلنگ اور ڈرگ ٹریفکینگ میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ مالاٹسٹا نے تجویز دی کہ منشیات کے استعمال اور فروخت کو جرائم کی فہرست میں سے نکال دیجیے تو آپ اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں۔ اس طرح آپ جیلوں میں زائد از گنجائش قیدیوں کی موجودگی کے مسئلے سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔ اس کے مطابق منشیات کی جانب کشش کی ایک بڑی وجہ ان کے استعمال کا جرم ہونا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کو بہت کم کیا جاسکتا ہے۔ سوئٹرزلینڈ کے شہر زیورخ اور نیدرلینڈ کے شہر ایمسٹر ڈم نے منشیات کے استعمال اور فروخت کو جرائم کی فہرست سے خارج کردیا اور دونوں شہروں کے اس فیصلے کے نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ مالاٹسٹا کا خیال درست تھا۔
انارکی پسند فلسفے سے خاموش اور شورید دونوں طرح کے انقلاب برپا کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ انارکی پسندوں نے انقلاب کے ذریعے کوئی بہت بڑی سماجی تبدیلی کا مظاہرہ تاحال نہیں کیا۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انارکی پسندوں کی سیاسی کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کے بہت سے گوشے جنہیں ہم توجہ نہیں دیتے ایسے ہیں جو انارکی پسند نظریات کے مرہون منت ہیں۔
مثال کے طور پر اپنے لباس کو ہی دیکھ لیجئے۔ پچھلے پچاس سالوں میں ہم جو لباس پہن رہے ہیں وہ صنف اور طبقاتی فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ لیکن بیسیویں صدی کے دوران انتہاپسند انہ حد تک رواج سے مختلف رویہ اپنا کر انارکی پسندوں نے ایسے لوگوں کے لیے بہت سی سہولت کا اہتما م کردیا جس کے سبب لوگ جو چاہیں وہ پہن سکتے ہیں۔ یہی بات خواتین کی تحریک کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے۔ انارکی پسند فیمینسٹ مصنفہ ایما گولڈمین نے پدر شاہی کو مسترد کرنے والی ایک شہرہ آفاق تصنیف بنا م ’’عورت کی آزادی کا دکھ ‘‘لکھی جو پہلی مرتبہ1906ء میں شائع ہوئی۔
اس کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ عور ت کو درپیش تکالیف ہی وہ واحد وجہ نہیں ہیں کہ انہیں آزادی دی جائے۔ عشروں تک اس سے پہلے خواتین فیمینسٹ اس موضوع پر سرگرم رہی ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ خواتین کو یہ آزادی ہونی چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ انہیں بچے پیدا کرنے ہیں یا نہیں یا انہیں آزادی ہو کہ وہ جس سے چاہیں اپنے جسمانی تعلقات رکھیں۔ فیمینسٹ نظریات پر ان کے اثرات کے علاوہ ایما گولڈمین آزادانہ محبت کی نہ صرف حامی تھیں بلکہ وہ اس خیال پہ کاربند رہیں۔ ان کی زندگی اور تحریروں میں اس تصور کی بہت جھلک نظر آتی ہے کہ وہ ممکنہ انارکی پسند سماج میں جسمانی تعلقات کو کس طرح تصور کرتی تھیں۔ انارکی پسند بشمول ایماگولڈمین ان پہلے لوگوں میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے آزادانہ تعلقات کے لیے آواز اٹھائی تاکہ ریاست اور چرچ کی پابند شادیوں سے آزادی مل سکے۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر خاندانی منصوبہ بندی کی جدید سہولیات کے سبب اب آزادانہ محبت اور جنسی تعلقات مغربی معاشرے کی عام اقدار میں شامل ہوچکے ہیں۔
ان انقلابی تصورات نے ہماری روزمرہ زندگیوںمیں انقلابی تبدیلیاں رونما کی ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے انارکی پسند وں کے لائے ہوئے تمام انقلابی اقدامات اسی طرح خاموش ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد انارکی پسند اپنی ابحاث اور کوششوں کو آن لائن دنیا تک لے آئے ہیں اور دنیا کے ہر خطے میں اپنے ہم خیال لوگوں سے رابطے میں ہیں۔ سال1999ء میں یہ کوششیں بالکل واضح تھیں جب انارکی پسند اور دیگر سرمایہ داری مخالف قوتوں نے کامیابی سے ’’ملٹی لیٹرل ایگریمنٹ آن انویسٹمنٹ‘‘ (ایک معاہدہ جسے او ای سی ڈی ممالک اور بڑے کاروباریوں نے کیا جس کے مطابق ایسے ممالک کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے جو انہیں منافع کی شرح محدود کرنے کا کہتے ہیں) کو نافذ العمل ہونے سے روک دیا۔
انٹرنیٹ پہ موجود سرگرم کارکنوں نے اس معاہدے کی ایک نقل حاصل کرلی اور اسے لوگوں تک پھیلا دیا یوں اس کے خلاف ایک بڑی مہم کا آغاز ہوگیا۔ نومبر1999ء میں جب اس تنظیم کے بڑے رہنما اہم ملاقات کے لیے اکٹھے ہوئے تو ہزاروں کی تعداد میں احتجاجیوں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا اور یوں یہ مذاکرات ناکام ہوکررہ گئے۔
چونکہ ہمارے کرہ ارض کو بقا کے مسائل درپیش ہیں لہٰذا صرف انارکی پسند تصورات ہی ہماری دنیا کوماحولیاتی طور پر لاحق مکمل تباہی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جوں جوں اکیسویں صدی آگے بڑھ رہی ہے انسانیت کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور وسائل میں تیزی سے کمی جیسے مسائل لاحق ہیں۔ سرمایہ داری نظام اپنی اصلیت کے سبب ان مشکلات کو حل نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اپنی فطرت کے مطابق منافع کمانے، استعمال بڑھانے اور نئی منڈیوں کے قیام پر یقین رکھتا ہے۔
اب جبکہ ایسا نظر نہیں آرہا کہ سرمایہ داری نظام کے حامی کوئی عملی اقدام کرنے والے ہیں تو انارکی پسندوں اور ان کے حامیوں نے یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ اب و ہ وقت آن پہنچا ہے کہ اپنی زمین کی بقا اور نسل انسانی کی بھلائی کے لیے انہیں اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ اگر سرمایہ داری نظام ان مسائل کو ختم نہیں کرسکتا جو اس نے خود پیدا کیے ہیں تو ہمیں کرہ ارض کی بھلائی کیلیے اپنے طرز حیات میں خود ہی کوئی تبدیلی لانی ہوگی۔
پیٹر ہارپر، جوماحول دوست سیاست او ر مستقل ترقی کے لیے ایک سرگرم کارکن ہیں وہ ان دو گرین متضاد طرز حیات کی نشاندہی کرتے ہیں جو پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہم نے اپنائے ہیں۔ ایک کو وہ لائٹ گرین طرز حیات کا نام دیتے ہیں اور دوسرے کو ڈیپ گرین طرزحیات۔ لائٹ گرین، یعنی متبادل انفرادی طرز حیات میں پیسہ خرچ کرنا مثال کے طور پر ماحول دوست مہنگی ٹیکنالوجی میں رقم کی سرمایہ کاری، بجلی سے چلنے والی کار کا استعمال، شمسی توانائی اور قدرتی خوراک اور ڈیپ گرین سے مراد ہے کہ رقم کی سرمایہ کاری کی بجائے وسیع سطح پر اجتماعی ماحول دوست اقدامات اٹھائے جائیں۔ مثلا پبلک ٹرانسپورٹ اور سائیکل چلانے کی مہم میں سرمایہ کاری، گھروں اور دیہاتوں کی سطح پر خوراک کی تیاری اور کرنسی کے استعمال کے متبادل ذرائع کا فروغ۔ ہارپر کے مطابق وہ افراد جو انارکی پسند نظریات میں اجتماعیت کے فلسفے سے متاثر ہوکر اور ماحول دوست گرین طرز حیات اپنا رہے ہیں، وہی افراد آ نے والے ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بہترین صلاحیتوں کے حامل ہیں۔انارکی پسند نظریات ہی ماحولیاتی بحران کے خلاف جنگ میں نمایاں ہیں۔
مثال کے طور پر دیہی یا شہری علاقوں میں کاشتکاری کو ہی دیکھ لیجیے، یہاں پہ اپنے تصورات کے سبب وقت کی قید سے آزاد سو سال پہلے کروپوٹکن نے کہا تھا کہ ہمیں بڑے اور وسیع درجے پر عالمی درجے کے پیداواری عمل کی بجائے جس میں وسائل کا ضیاع ہوتا ہے چھوٹی سطح پر ماحول دوست کاشتکاری کے ذریعے خوراک کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کروپوٹکن نے کہا تھا کہ برطانیہ ایک جزیرہ ہے اور اسے چاہیے کہ اپنی خوراک کی ضروریات کو اپنی مقامی سطح پر ہی پورا کرے۔ ان کے عہد میں یہ خیال بے وقوفی سمجھا گیا مگر آج یہی خیال برمحل تصور کیا جارہا ہے۔ بہت سے انارکی پسند فلسفی جو اپنے عہد سے آگے سوچتے تھے ان کے افکار پر آج دنیا عمل پیرا ہے۔ یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے نوے فیصد شہری اپنی ضرورت کی خوراک خود اپنے شہر سے ہی حاصل کرتے ہیں۔
ہم نے اس مضمون میں بہت سے انارکی پسند فلسفیوں کی فکر کے متعلق جانا ہے تاہم ہمارے مستقبل کے انسانی سماج اور خوراک کی ضروریات کے لیے اس کے لیے زراعت کے عمل میں اجتماعی کاوش اور ہمارے کرہ ارض کو ماحولیاتی بحرانوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہماری اجتماعی تیاریو ں کے متعلق سب سے اہم رہنمائی کروپوٹکن کے افکار میں ظا ہر ہے۔
(مترجم: شوذب عسکری)
فیس بک پر تبصرے