یووال نوح ہریری، بندہ بشر: انسان کا ماضی حال اور مستقبل
مترجم : سعید نقوی، تبصرہ نگار:شوذب عسکری
یووال نوح ہریری کی کتاب بندہ بشر جب میں نے پہلی بار دیکھی تو یہ مجھے نصاب کی ایک کتاب کی مانند محسوس ہوئی۔ یہ باب در باب معلومات سے بھری ہوئی ایک ضخیم کتاب تھی۔ خوش قسمتی سے جب میں نے اس کا مطالعہ شروع کیا تو یہ نصاب کی کتاب کے برعکس ایک دلچسپ ناول کی طرح پڑھی جانے لگی۔ یہ قاری کو پہلے ہی صفحے سے جکڑ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میں ورق ورق اس کے دلچسپ انداز میں گم ہوتا چلا گیا کیونکہ معلومات ایک تسلسل کے ساتھ روانی میں ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک جڑی ہوئی تھیں۔
یہ کتاب چار حصوں میں منقسم ہے جس میں پہلا حصہ ادراکی انقلاب کے متعلق ہے۔ ہریری کے مقاصد واضح ہیں وہ ہمیں یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ اس کرہ ارض پہ بحیثیت انسان ہمیشہ سے ہم ہی اکیلے نہیں تھے۔ درحقیقت ہماری یکتائی ایک منفرد خصوصیت ہے۔ بندہ بشر اپنے قاری کو یہ حوصلہ دلاتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے متعلق معروضی انداز سے جائزہ لے اور انسانیت کے آدرش کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرے۔ یہ کتاب ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ ہمارا ارتقا ایک جانور کے روپ میں آج کے دن تک کیسی تبدیلیوں سے گزرا، ہریری انسانوں کو فطرتاََ دیگر انواع سے برتر خیال نہیں کرتے۔ وہ ان تمام نظریات کو گہرائی سے جانچتے ہیں جن کا موضوع نسل انسانی کا ارتقا ہے۔ وہ یہ کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم جو آج کے انسان ہیں وہی کیوں محفوظ رہے اور ہمارے دیگر رشتہ دار جو وسیع انسانی نسل سے تعلق رکھتے تھے وہ نابود کیوں ہوگئے؟
اس کتاب میں ان افسانوں کی جانچ بھی کی گئی ہے جو انسانوں نے ارتقائی عمل کے دوران اس لیے گھڑے کہ انسانی سماج چلتا رہے اور اس میں اجتماعی دانش کارفرما رہے۔ میں نے شاید زندگی میں اس سے پہلے کبھی بھی اس نکتے پہ غور نہیں کیا تھا کہ وہ کون سا لمحہ ہوگا جب ہماری تاریخ نے ہماری طے شدہ اس قسمت سے انحراف کیا جو ہمارے حیاتیاتی افعال سے وجود پارہی تھی۔ مجھے ادراکی انقلاب کے حصے کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ اس سے پہلے ہمیں کبھی بھی نصاب کی کتابوں میں اس اہم ترین عہد کے متعلق نہیں پڑھایا گیا جو زرعی انقلاب سے پہلے کا تھا، محض ایک پیراگراف پڑھا کر ہمیں ہمیشہ اس اہم نکتے سے محروم رکھا گیا جو انسانی ارتقا کو سمجھنے کے لیے لازم تھا۔ اگرچہ یہ حصہ کتاب کے دیگر حصوں کی نسبت مختصر ہے تاہم اس موضوع پر اس قدر سہل اور مفصل گفتگو اس سے پہلے میں نے کبھی بھی نہیں پڑھی تھی۔ ہریری اس موضوع پر اس قدر شاندار اور محققانہ تحقیق کے لیے داد کے مستحق ہیں۔ انہوں نے اس حصے میں جن واقعات پر سے پردہ اٹھایا ہے وہ اس سے پہلے عام قارئین کی نظروں سے نہیں گزرے یا کم ازکم مجھے اپنی لاعلمی کا اعتراف ہے کہ میں اس سے واقف نہیں تھا کہ انسان آسٹریلیا کیسے پہنچے اور اس کرہ ارض پہ ایسی کتنی انواع ہیں جن کا خاتمہ ہم انسانوں کی وجہ سے ہوا۔ جدید انسانوں کی آسٹریلیا آمد جن عوامل کا نتیجہ تھا میں ان کے متعلق کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
کتاب کا دوسرا حصہ زرعی انقلاب کے متعلق ہے، اس میں درج مندرجات اپنی طرز میں منفرد بیانیے کے حامل ہیں کیونکہ جس طور اس امر کا جائزہ ہریری لیتے ہیں کہ زرعی انقلاب کے انسانوں اور کرہ ارض پر کیا منفی اور مثبت اثرات تھے آپ کو یہ بیانیہ اورکہیں پڑھنے کو نہیں ملے گا۔ ہریری اسے تاریخ کا سب سے بڑا دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ زرعی انقلاب ہمارے لیے اس وجہ سے بہتر تھا کہ ہم نے اپنی بہت سی نقول تیار کرلیں لیکن یہ ہمارے لیے اس وجہ سے برا تھا کہ ہم نے اس کے نتیجے میں معیار زندگی متاثر ہوا اور نوع انسان کی مشکلات بڑھ گئیں۔ اس کے نتیجے میں دیگر جاندار بہت متاثر ہوئے اور کرہ ارض کا فطری نظام حیات بدل کر رہ گیا۔ اس حصے میں طبقہ اشرافیہ کے آغاز اور ریاضی و تحریر جیسے دیگر عوامل کے آغاز کے متعلق بھی بیان کیاگیا ہے۔
ہریری انسانوں کو فطرتاََ دیگر انواع سے برتر خیال نہیں کرتے۔ وہ ان تمام نظریات کو گہرائی سے جانچتے ہیں جن کا موضوع نسل انسانی کا ارتقا ہے۔ وہ یہ کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم جو آج کے انسان ہیں وہی کیوں محفوظ رہے اور ہمارے دیگر رشتہ دار جو وسیع انسانی نسل سے تعلق رکھتے تھے وہ نابود کیوں ہوگئے
تاہم اس حصے کا سب سے دلچسپ باب آٹھواں تھا جس میں ہریری نے تاریخ میں گھڑے گئے ایسے افسانوں کا ذکر کیا جو آج ہمیں سماج میں منظم رکھتے ہیں اور اس سچائی کا بیان کہ حقوق انسانی درحقیقت وہ نہیں ہیں جیسا ہم سوچتے ہیں۔ اس حصے میں بہت سی بحث تصور طہارت پہ کی گئی ہے جو کہ مختلف ثقافتوں کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انسانوں نے اس تصور کو دیگر گروہوں سے مختلف ہونے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس حصے میں جنس اور صنف کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے ان عوامل کا کھوج لگایا گیا ہے کہ کس طرح انسانی سماج پدر سری معاشرے میں تبدیل ہوا۔ اس باب میں زرعی انقلاب کے عہد میں رونما ہونے والے بہت سے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے جس کے نتیجے میں وہ آبادیاں وجود میں آئیں جو آج بھی باقی ہیں۔
تیسرے حصے کا موضوع انسانیت کا یکجا ہونا ہے۔ اس میں انسانوں کے مابین اتحاد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہریری موجودہ سیاسی نظام پر سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آخر امریکی سیاست کس طرح ایک فرد اور مساوات کو برابری سے سہارا دے سکتی ہے؟ نیز یہ بھی کیا کہ کیا آپ ایک واحد خدا پر یقین رکھتے ہیں؟ تو پھر آپ اس کے ہوتے ہوئے کسی بدی کا اور شیطان کا خیال کس طرح پال سکتے ہیں؟ اس حصے میں ہریری نے انسانوں کی قوت ادراک کی ناہمواریوں کا جائزہ لیا ہے اور اس معاملے کی کھوج کی ہے کہ کس طرح انسانوں کے اندر بدی اور اچھائی کی باہمی جنگ کے نتیجے میں انسانی سماج کو ترقی دی جارہی ہے۔ اس باب میں سب سے دلچسپ موضوع کرنسی کا وجود میں آنا اور اس کے ساتھ مذہب اور نظریات کا وجود پانا شامل ہے۔
باب نمبر اُنیس کے آغاز پر ہریری یہ سوال دریافت کرتے ہیں کہ کیا ہم خوش ہیں؟ یہ ایک اہم اور مختلف سوال ہے جس میں تاریخ متوجہ ہوتی ہے۔ ہریری کا جواب ہے کہ شاید ہمیشہ نہیں۔ انہوں نے اس باب میں بیان کیا کہ وبائی امراض انسانوں کے دکھ کی وجہ نہیں ہے بلکہ بعض انسانوں نے کہا کہ وہ اس کے ساتھ زیادہ خوش ہیں۔ راقم جو کہ ان دنوں بہت دوائیاں کھا رہا ہے، ہریری کی بات سے متفق نظر آتاہے۔ وہ اس کے متعلق بھی لکھتے ہیں کہ کتنی مقدار میں رقم انسان کو خوش رکھ سکتی ہے اور کیا رشتہ دار اور شادی انسانی خوشی کا باعث ہے۔ لیکن ہریری کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ انسانوں کے اپنے فہم پہ منحصر ہے کہ اسے کیا چیز خوشی مہیا کرتی ہے۔ حیاتیاتی افعال سے ہٹ کر خوشی کا تعلق زندگی میں معنی و مفہوم کا پا لینا ہے۔
ہریری کی اس کتاب کا اصل مدعا یہ ہے کہ وہ اپنے قاری کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ آج تک کی انسانی تاریخ کے ارتقا کی وجہ افراتفری ہے۔ وہ کسی ایک ضابطے اور رستے کو اس کی وجہ نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سچائی یہ نہیں تمہارے سامنے دنیا کیسی دکھتی ہے بلکہ سچائی یہ ہے کہ تم اسے کس زاویے سے دیکھ رہے ہو۔ وہ کتاب کے آخری حصے میں قاری کو مستقبل کی ایک جھلک دکھلانے کی کوشش کرتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ دور کے انسان ہماری طرح کے حقیقی انسان نہ ہوں۔
فیس بک پر تبصرے