ڈاکٹر ساجد جاوید سرگودھا یونی ورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ان کی تازہ کتاب’’اردو لسانیات اور مستشرقین‘‘ عکس پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی ہے جسے اردو ادبیات میں نمایاں اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ساجد جاوید کی یہ کتاب ان کی شبانہ روز کوششوں، اردو زبان سے ان کے لگائو اور تحقیق و مطالعے جیسے مشکل اور کٹھن کام میں ان کی حد درجے دلچسپی کی عکاس ہے۔ ان کی یہ تصنیف قاری کو نہ صرف اردو بلکہ دیگر مقامی زبانوں کے تاریخی پس منظر سے بھی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ اپنی تصنیف میں فاضل مصنف تاریخی شواہد کی بنیاد پر اردو کے ابتدائی ادوار، اس کی نمو، لسانی ساختیات اور ایک باقاعدہ زبان کے طور پر اپنے آپ کو منوانے تک کے مراحل کی نہایت عرق ریزی سے تصویر کشی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اردو زبان پر دیگر زبانوں کے اثرات، اس کے لسانی قواعد و ضوابط کی تشکیل، اس کی وسعت اور نشر و اشاعت میں حصہ لینے والے مقامی اور غیر ہندوستانی، بالخصوص مغربی یا برطانوی اہلِ علم کی کوشش و کاوش سے بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں مشرقی یا ہندوستانی لسانی روایت اور اس کی تاریخ کا وقیع جائزہ لیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے میں اردو لسانیات کے حوالے سے برِ صغیر کے مخصوص تناظر میں اس کے قواعدِ لسان کی تشکیل، اس کے اسبا ب و مقاصد اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس عمل میں کردار کا تحقیقی و تنقیدی پیرائے میں جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں شامل مضامین کے مطالعے سے زبان اور بولی میں فرق، زبان کی تشکیل و تشہیر کے بنیادی مراحل اور ابتدائی ادوار کی تفہیم کے بنیادی مباحث کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔اس حصے کے مطالعے سے سترھویں اور اٹھارہویں صدی کے برِ صغیر میں لسانی و ادبی منظرنامے سے بھی آگاہی ملتی ہے اور اردو کے اولین شعرا کی کاوشوں اور مساعی کو تنقیدی طور پر زیرِ غور لایا گیا ہے۔ اٹھارہویں صدی میں مقامی اہل السنہ کی جانب سے اردو قواعد نویسی کی ابتدائی کاوشوں کے آغاز کا پتہ ملتا ہے۔ جبکہ اس کے بعد اصلاحِ زبان کی اولین تحریک کے بارے میں تفصیلی رہنمائی ملتی ہے۔
کتاب میں لسانیاتی تنقید کے اولین محرک اوربرِ صغیر کے پہلے لسانیاتی نقاد کے طور پر ڈاکٹر محی الدین قادری کو پیش کیا گیا ہے اور ان کے لسانیات افکار کا تذکرہ انتہائی علمی انداز میں کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر قادری پہلے لسانی نقاد ہیں جنہوں نے ہندوستانی صوتیات کا لسانی تجزیہ کر کے اردو میں اطلاقی لسانیات کی بنا ڈالی۔انہوں نے اردو زبان کی لسانی تاریخ کا قیاسات کی بجائے سائنسی انداز میں مطالعہ کیا اور تاریخی لسانیات کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا۔پہلے حصے کے آخری مضمون میں اردو لغت نویسی کے اصول اور لوازمات کے حوالے سے چند نظری مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اردولغت نویسی کی ترتیب و تدوین میں جو مسائل پیش آتے ہیں وہ لغت نویسی کے سائنسی اصولوں کو مدِ نظر نہ رکھے جانے کا نتیجہ ہیں۔ ضرورت ہے کہ ماہرین زبان اس حوالے سے اپنی توانائیاں صرف کریں۔
دوسرا حصہ اردو زبان کی ترویج وا شاعت، مستشرقین کی کاوشوں اوراردو زبان کی حوصلہ افزائی کے کاروباری اور تجارتی اغرا ض و مقاصد کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ پہلے مضمون میں ماقبل استعماری دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی لسانی ضرورتوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ صاحبِ کتاب کے مطابق اردو کے سب سے پہلے قواعد نویس جون جوشوا کیٹلر ہیں جنہوں نے 1698ء میں قواعد کی کتاب لکھی۔ اس کے علاوہ مشنری ضرورتوں کے پیشِ نظر ادو قواعد نویسی کے لیے کام کرنے والے مستشرق بنجمن شلز کے بارے میں مکمل ایک مضمون شامل ہے۔ کلاسیکی مشرقی متون کا مطالعہ اور ہندوستان میں تقابلی لسانیات کے آغاز کے موضوع پر ایک مفصل مضمون قاری کو برصغیر کی کلاسیکی اور ورینکلر زبانوں پر تحقیقات کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ جان گل کرسٹ کا ماقبل نو آبادیاتی عہد میں زبانِ حکمرانی کی تشکیل کے منصوبے کو بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اسے اردو لسانیات کا درخشندہ باب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اردو زبان کی ترقی میں ان کا کرداد ناقابلِ فراموش ہے۔ مولوی عبد الحق اور جان گل کرسٹ کی لغات کی قواعدی مماثلتوں کے بارے میں لکھاگیا مضمون انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اردو قواعد و لسانیات کے حوالے نہایت دلچسپ ہے۔
ڈاکٹر ساجد جاوید کی یہ علمی و تحقیقی کاوش قابلِ قدر اور اردو لسانیات و قواعد میں دلچسپی رکھنے والے اہلِ علم اور طلبہ کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
فیس بک پر تبصرے