دہشت گردی کا مسئلہ سنجیدہ بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے

1,141

پاکستان بظاہر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بلیک لسٹ  کیے جانے سے بچنے کے لیے عسکریت مخالف مہم میں کافی کچھ کرچکا ہے۔ اورلانڈو فلوریڈا میں ہونے والے گذشتہ ایف اے ٹی ایف جائزہ اجلاس میں ملائیشیا، ترکی اور چین کی حمایت کے باوصف پاکستان کوپہلے ہی اس خطرے سے ایک حد تک باہر آنے میں کامیابی مل چکی ہے۔ تاہم پاکستان پر ابھی بھی ان تمام عسکریت پسند گروہوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کرنے کے لیے دباؤ برقرار ہے جنہیں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے کالعدم قرار دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو مختلف عسکریت پسند گروہوں سے متعلق امتیازی حکمتِ عملی اپنانے کے حوالے سے بھی دیکھا جارہا ہے۔ فروری 2019ء میں ایف اے ٹی ایف کے پیرس اجلاس میں پاکستان کی یہ حکمتِ عملی رد کردی گئی تھی کہ وہ مختلف عسکریت پسند گروہوں میں تفریق روا رکھے اور پاکستان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ تمام عسکریت پسند گروہوں کے خلاف یکساں پیمانوں پر اقدامات اٹھائے۔ ایف اے ٹی ایف کے ان مشاہدات کی بنا پر پاکستان نے اپنے ایکشن پلان پر قابلِ ذکر حد تک نظر ِ ثانی کرتے ہوئے دہشت گردی کی مالی معاونت کے خاتمے  پر توجہ مرکوز کی ہے۔

کئی ایک بار پاکستان نے ایف اے ٹی ایف جیسے بین الاقوامی اداروں کو سیاست سے پاک کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے، اس کے خیال میں بھارت، امریکا، برطانیہ  اور دیگر چند یورپی ممالک اس فورم کو پاکستان پر حد درجے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کے دوست ممالک نے دھیمے انداز سے اگرچہ پاکستان کی حمایت کی ہے لیکن وہ پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت  کے مسئلے پر کوئی رعایت دینے پر راضی نہیں ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے کشمیر اور افغانستان میں برسرِ پیکار عسکریت پسند گروہوں کے حوالے سے پاکستان عالمی دباؤ کا شکار ہے اور وہ اس مسئلے سے کسی طور نمٹنے کی کوششیں کرتا رہا ہے لیکن اس معاملے میں ایف اے ٹی ایف کا دباؤ دیوار میں آخری کیل ثابت ہوا ہے جس کے باعث پاکستان نے عسکریت پسندانہ خطرے سے متعلق اپنے تصور کو یکسر تبدیل کیا ہے۔

پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی (CTD) نے حال ہی میں کالعدم  جماعۃ الدعوۃ کے بانی رہنماؤں، حافظ محمد سعید، عبد الرحمن مکی اور ظفر اقبال سمیت دیگر قیادت کے خلاف مقدمات  دائر کیے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ  پاکستان نے یہ اقدامات ایف اے ٹی ایف  کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل کی غرض سے اٹھائے ہیں۔ دوسری طرف یہ اقدامات عسکریت پسندی کے خلاف پاکستان کی سنجیدگی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم عملاً  انسداد دہشت گردی کی حالیہ مہم کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے محکمہ جات میں صلاحیت کا فقدان بھی اہم مسئلہ ہے جو عسکریت پسند قیادت کے خلاف چارہ جوئی کا قانونی جواز تلاش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

سی ٹی ڈی کے حالیہ اقدامات جماعۃ الدعوۃ کی قیادت کی نقل و حرکت محدود کرنے کا باعث تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے خلاف دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کونچلی عدالتوں میں ثابت کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حافظ محمد سعید کے خلاف اس طرح کے مقدمات قائم کیے گئے ہیں، اس سے بیشتر بھی 2009ء میں ایک بار فیصل آباد میں ایک عوامی جلسے کے دوران اپنی تنظیم کے لیے چندہ مانگنے کے حوالے سے ان پر مقدمہ دائر کیا گیا تھا لیکن لاہور ہائیکورٹ نے انہیں بری کر دیا تھا اور بعد ازاں وزارتِ داخلہ کی جانب سے عدالتِ عظمیٰ میں داخل کی گئی عدالتِ عالیہ کے فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست بھی خارج کردی گئی تھی۔ تاہم اس بار حالات مختلف ہیں، جماعۃ الدعوۃ سے منسلک تمام فلاحی ادارے اور عسکریت پسند تنظیمیں وزارتِ داخلہ کی جانب سے کالعدم قرار دی جا چکی ہیں۔

کالعدم تنظیموں کی قیادت کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات پاکستان پر ایف اے ٹی ایف  کے دباؤ کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں تاہم  تنِ تنہا یہ اقدامات پاکستان میں عسکریت اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں

کالعدم تنظیموں کی قیادت کے خلاف دائر کیے گئے مقدمات پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کو کم کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں تاہم  تنِ تنہا یہ اقدامات پاکستان میں عسکریت اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں۔ ریاست کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی بنیادوں پر سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ان گروہوں سے منسلک کارکنان ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینیت کا شکارہیں، ان میں تربیت یافتہ و غیر تربیت یافتہ عسکریت پسند، فلاحی کارکنان اور انتظامی صلاحیتوں کے حامل افراد شامل ہیں۔

ان تنظیموں کی زیرِ نگرانی چلنے والے اسکول اور دیگر تعلیمی ادارے صوبائی تعلیمی محکموں کے سپرد کر دیے گئے ہیں جبکہ ممکنہ طور پرمحکمہ اوقاف ان تنظیموں کے زیرِ انتظام چلنے والے مدارس کا نظم و نسق سنبھالے گا۔ جماعۃ الدعوۃ 700 سے زائد اسکول اور 200 سے زائد مدارس چلا رہی تھی جبکہ کالعدم جیشِ محمد کے زیرانتظام مدارس اور اسکولوں کی تعداد بھی درجنوں میں ہے۔ ان مدارس اور اسکولوں کا اسٹاف بھی بغیر کسی چھان بین اور اصلاحی پروگرام کے صوبائی تعلیمی محکموں کے زیرِ نگرانی دے دیا گیا ہے۔ تاہم فلاحی اداروں سے وابستہ انتظامی اراکین اور کارکنان  کے حوالے سے ابھی کوئی حکمتِ عملی مرتب نہیں کی گئی اور ماسوائے 50 افراد کے جنہیں پنجاب ریسکیو آپریشنز کی جانب سے بھرتی کیا گیا ہے، باقی ماندہ افراد کو فی الحال کسی  محکمے یا شعبے میں نہیں کھپایا گیا۔ محکمہ ریسکیو نے جماعۃ الدعوۃ کی ملکیتی 250 ایمبولینسز بھی اپنی تحویل میں لے لی ہیں۔

ان کارکنان میں اپنی قیادت کے خلاف بھی مایوسی بڑھ رہی ہے اور یہ انتہائی خطرناک ہے۔ 2001ء میں کالعدم قرار دی گئی جماعتوں سے وابستہ افراد میں اسی طرح کی مایوسی دیکھنے کو ملی تھی جس کے باعث ان کے مابین سنگین اختلافات پیدا ہوئے اور ان میں سے کئی  ارکان ریاست کے خلاف ہو گئے تھے اور انہوں نےعالمی دہشت گرد گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ جماعۃ الدعوۃ اور جیشِ محمد کے مایوس کارکنا ن اب بھی داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کاحصہ بن سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے عسکریت پسند گروہ بنا لیں۔ جیشِ محمد کے کارکنان اس حوالے سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہو سکتے ہیں، کیوں کہ ان میں سے بیشتر افراد ماضی میں تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور دیگر فرقہ پرست تنظیموں سے منسلک رہے ہیں۔

پاکستان کو ان کالعدم گروہوں کے سابقہ اراکین کے حوالے سے ایک جامع بحالی منصوبہ  بنانا ہو گا۔ اسی طرح کا ہی کوئی پروگرا م انسداد دہشت گردی کی پاکستانی پالیسیوں پر عالمی برادری کے اعتماد میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ دنیا ایسے ہی اقدامات کو تسلیم کر تی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں 2178(2014ء) اور 2396(2017ء) میں بھی ایسے ہی اقدامات پر زور دیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ  کی سلامتی کونسل کی جانب سے جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی پالیسی ‘Plan of Action to Prevent Violent Extremism’ میں 70سفارشات شامل تھیں جن میں علیحدگی اور بحالی منصوبوں جیسے اقدامات اٹھانے کی تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں۔ اس طرح کے جامع اور سنجیدہ لائحہِ عمل کی عدم موجودگی نہ صرف کالعدم گروہوں کے جنگجو اور غیر جنگجو اراکین کے مستقبل  کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ کرے گی بلکہ یہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے عزائم  پر بھی سوالیہ نشان ہو گا۔

ایسے بحالی منصوبوں کی تجویز و ترتیب نیکٹا(National Counter Terrorism Authority) کی ذمہ داری ہے تاہم ابھی تک یہ ادارہ اس حوالے سے کوئی پیش رفت ممکن نہیں بنا سکا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نیکٹا  استعدادِ کار کی کمی کا شکار ہے یا پھر اس کے پاس اختیارات ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنے تئیں کوئی پالیسی  قدم اٹھائے، یہی وجہ ہے کہ وہ  ہمیشہ طاقتور سکیورٹی اداروں کی جانب دیکھتا ہے یا  وہی کرتا ہے جو ان کی طرف سے کہا جاتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کا مسئلہ اس قدر آسان اور سادہ نہیں ہے۔ اس کے لیے نہ صرف وسیع  پیمانے پر مشاورت درکار ہے بلکہ ایک واضح  دکھائی دینے والا سنجیدہ ایکشن پلان بھی ضروری ہے۔

مترجم: حذیفہ مسعود، بشکریہ: ڈان

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...