ناک کی مکھی اور بلوائیوں کی نفسیات

916

بزرگوں سے سنا تھا کہ اس ملک میں کبھی سائیکل پر بتی نہ لگانے پر سخت چالان ہوتا تھا۔اسی طرح کبھی لوگ آوارہ گردی کے کیس سے ڈرتے تھے اب تو دہشت گردی کے کیس سے کم پر کوئی اپنی جگہ سے بھی نہیں ہلتا۔

ہمارایہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ اپنی ناک پر سے عام دنوں میں مکھی تک اڑا نہیں سکتے ہیں وہ غیر مثبت اور منفی ماحول کافوری حصہ بن جاتے ہیں جہاں اس کے جیسے بہت سے لوگ شامل ہوں۔ بالخصوص تخریبی اور متشدد ردعمل میں کسی سے بھی پیچھے نہیں رہتے ۔بلوائی غضب کے بن جاتے ہیں ۔ اپنے گھر سے لے کر گلی محلہ اور شہر میں کسی بھی عظیم کارنامہ میں نام کبھی نہیں آیا ہوگا۔اگر کبھی آیا ہوگاتو صرف کئی کئی سال بعد کی مردم شماری میں یاپھر ووٹر لسٹوں میں جس کا فائدہ انہیں معلوم بھی نہیں، لگتا ہے یہ طے کیا گیا ہے کہ کسی مقصد اعلیٰ میں نام آنا توگویاایک شرمناک عمل ہے۔۔۔ہاں البتہ ان میں بلوائیوں والا رویہ اور یلغار والی جذباتی کیفیت کبھی بھی پیدا ہوسکتی ہے بلکہ اکثر مواقع پر پیدا بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ عمل خیرات بٹنے سے لے کر شادی بیاہ میں کھانا لگنے اور چھوٹی موٹی ڈنڈیاں مارنے تک اور وہاں سے لے کسی لوٹ مار اور کرتے کرتے بغیر سوچے سمجھے کسی انسان کو کچل کر مارنے تک دیکھا جاسکتاہے ۔
یہ عمومی رویہ Mob Behaviorجس نے ہمارے سماج کی روح تک کو لہولہان کیا ہوا ہے اور ہر آن خجالت اور ندامت کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اس پر ہمارے سماجی سائنس کے ماہرین کو سر جوڑ کر علمی اور تحقیقی بنیادوں پر کا م کرنا ہوگا۔محض میری اور میرے ہی طرح کے کچھ دوستوں کے مانند تبصرہ آرائی سے کام چلانا زیادہ بارآور نہ ہوگا۔سوچنے کی بات ہے کہ ایسے معاملات کو کبھی غربت اور کبھی جہالت سے جوڑکر اپنی دانشورانہ دھاک بٹھا نا کافی ہوتا تو یہ سب مسائل اب تک حل ہوچکے ہوتے۔غورکرنے پر نتیجہ نکل سکتا ہے کہ ان سب کے ڈانڈے دور تاریخ میں بھی مل سکتے ہیں اور یہاں ایسے واقعات کے پرکھنے کے لیے اجتماعی لاشعوری محرکات میں بھی جھانکا جا سکتا ہے۔
کبھی سناکرتے تھے کہ’’مارو! پاگل ہے۔۔۔ مارو! پاگل ہے۔۔۔‘‘اتفاق ہے کہ اب یہ نہیں سنتے ۔ایک اور کہ ’’چور ۔۔۔ چور۔۔۔ چور ۔۔۔چور۔۔۔۔‘‘یہ بھی کم ہی سنتے ہیں کہ آجکل اکثر چور لٹیرے اور ڈاکو بن گئے ہیں۔وہ بے شک کھلونا بندوق تھامے ہی لوگوں کو ہپناٹائز کرتے پھرتے ہوں۔ کم ہی لوگوں میں یہ ہمت ہوتی ہے کہ چور چورچور کی آواز کا تکلف کریں۔کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’خالی بندوق سے دو بندے ڈرتے ہیں۔ ایک وہ جس کے پاس ہے اور دوسرا وہ جو سامنے کھڑا ہو‘‘۔وگرنہ یہ ہم ہی ہیں کہ کسی بھی مجرم پر یہ ضرور کہتے ہیں کہ اسے تو گولی مارنی چاہیئے یا اسے پھانسی ، بلکہ سر عام پھانسی دینی چاہیئے وغیرہ وغیر چاہے جرم کچھ بھی ہو۔۔۔ سیاسی ، سماجی تبصروں سےلے کر محاورہ جاتی گفتگو تک ایسی زہر آلود اور پر تشدد اشارے کنائے ضرور سننے کو ملتے ہیں شاید اس کی وجہ قانون اور انصاف میں شک کا فائدہ دے کر مجرموں کو ہمیشہ آزاد ہوتے دیکھنا ہے۔واقعی میں یہ اعتبار مہم ہے۔
مجھے اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آتا ہے کہ کچھ فاصلے پر رش لگا ہوا تھا کہ اچانک میرے پاس ایک شخص تیزی سے دوڑتا ہوا گیا جس کو یہ بولتے ہوئے سنا’’ھلہ پھڈا ہے‘‘( چلو لڑائی ہے، کوئٹہ کی اردو)۔ اس کی گونج آج تک ذہن میں باقی ہے۔مجھے اتنا یاد ہے کہ مجھے اس پر شدید حیرت ہوئی تھی۔میں سارا دن سوچتا رہا کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ ادھر ’’پھڈا ‘‘ہی ہوگا؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا کیا کام ہے؟ اس کا کام نہیں تو یہ ادھر کیوں جارہا ہے؟ اور اگر ادھر جا رہا ہے تو اس کا ادھر کیا مفاد ہے؟اور سب سے بڑی بات کہ یہ شخص اتنا خوش کیوں ہورہاہے؟شاید اس وقت میرے ذہن میں یہ بہت معصومانہ سوالات رہے ہوں گے لیکن یہ دور حاضر کے بہت ہی بھیانک سوالات ہیں۔معاشرہ واقعی مفت خوری اورآدم خوری میں مبتلا نظر آتا ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ نری اذیت پسندی(Sadism)نہیں؟
لوٹا اور ٹونٹی چوری تو چھوڑیئے ہم میں سے کسی کوسڑک پہ کوئی چابی پڑی مل جائے تو اسے بھی اٹھا نے میں ہچکچاہٹ نہ ہوگی۔خدانخواستہ سامان سے لدا ٹرک الٹ جائے پھر تو چاندی ہوجاتی ہے۔وگرنہ مندے کے دنوں میں ہمیں کسی دن اگر بازار میں کوئی معمولی چور پکڑاہوا مل جائے تو سبحان اللہ ۔ اسے اللہ کی رضا کی خاطر ہر کوئی اچل اچل کر ایک چماٹ ضرور لگائے گااور اس کا سر منڈواکر ، منہ کالا، ننگا کرکے چپلوں کا ہار پہنا کر گدھے کی سواری کراکر پورے علاقے میں منادی ضرور کرائی جائے گی کہ دیکھو دیکھو یہ چور ہے ہم نے اسے پکڑا ہے اور آج کے بعد معاشرہ پاک صاف ہوگیا ہے۔نہ چوری ہوگی نہ چکاری۔بقول سہیل وڑائچ ’’کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘‘۔۔۔
فلسفہ ء جدلیات کے اصولوں کے ہوتے ہوئے اتنے کھلے تضادات کے باوجود معاشرتی ارتقا کا عمل سست تر بلکہ مردہ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ اس کی وجہ یقیناًیہ ہوگی کہ یہ تضادات ایک دوسرے کو نفی نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے سازگار ماحول میں معاونت کرتے ہیں۔جہاں سب کا اتفاق اس بات پر ہو کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں تو شرم کیسی اور کاہے کو خجالت کی زحمت؟پھر توایک خطرناک مشورہ یہی ملتا ہے کہ ان سب سے ہاتھ دھونا چاہیئے نہ کہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑنا چاہیئے۔یہاں ہر چیز میں اتفاق ہوتا ہے ماسوائے اس پر کہ کسی کونہیں کو بھی پتہ نہیں ہوگاکہ اتفاق کس چیز پر ہے؟ اور کیوں ہے؟۔ معاشرے کے تضادات جنہیں عامیانہ زبان میں منافقتیں کہا جاتا ہے کو باربار زیر بحث لا کر ہی زوال آمادہ معاشرے کو اس گرداب سے نکالا جاسکتا ہے۔ان باتوں سے کسی بھی صورت مفر ممکن نہیں۔
حالیہ برسوں میں یہ عمومی ردعمل بیش تر پرتشدد ہی رہا ہے حتی ٰ کہ سیاسی پارٹیوں کے کھانوں پر بھی ٹوٹ پڑتے ہوئے کارکنان کی بے شمار دفعہ لڑائیاں ہوچکی ہیں، وہاں ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیئے لیکن چونکہ یہ معمول بن چکا ہے لہذا کسی کو اس میں تامل نہیں ۔میڈیا والوں کے لیے بھی یہ ایک خبر سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور ہمارے لیے توشاید معمولی واقعہ ہو۔دوسری طرف لوگوں کا اجتماع کی شکل میں کسی کومارمار کر قتل کرنا اسی اضطراری کیفیت کا شاخسانہ ہے۔فقط کچھ سننا اور پھر یکایک مارنے کے لیے دوڑنا۔نہ آگے کا پتہ نہ پیچھے کا پتہ۔مزے کی بات یہ ہے کہ بلوے کا کیس بھی بہت ہی کمزور سمجھا جاتا ہے جو بالعموم افواہ سے شروع ہوتا ہے اور کسی خوفناک انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
اب بھی بہت دیر ہوچکی ہے۔ معاشرتی اصلاح کا عمل ضروری ہے۔ بے ترتیب اورغیرمنظم معاشرہ ہم سب کی بقا کے لیے ٹھیک نہیں۔اس کے لیے سماجی علوم کے ماہرین کی خدمات کے علاوہ وہ تمام قانونی سہولتیں بھی ختم کرانی چاہیئے کہ جن سے ایسے واقعات کے ماقبل اور مابعد مجرموں کو شہ ملتی ہو۔بزرگوں سے سنا تھا کہ اس ملک میں کبھی سائیکل پر بتی نہ لگانے پر سخت چالان ہوتا تھا۔اسی طرح کبھی لوگ آوارہ گردی کے کیس سے ڈرتے تھے اب تو دہشت گردی کے کیس سے کم پر کوئی اپنی جگہ سے بھی نہیں ہلتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...