قصور کس کا ہے؟

981

دوسرے بادشاہ نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کرکے ثابت کردیا کہ بادشاہت بھی جمہوریت ہے۔ حقیقی جمہوریت وہ ہے جہاں آخری اور فیصلہ عدالتیں نہیں جمہور کرتے ہیں، الیکشن میں ووٹ سے۔ اب ریاست کے دوسرے فیصلے بھی الیکشن سے ہوں گے

آج کل یہ سوال وائرل ہو رہا ہے کہ قصور کس کا ہے؟  کوئی طنز کرتا ہے میں الزام اس کو دیتا تھا  قصور اپنا نکل آیا۔ کوئی پوچھتا ہے مجھ پر الزام کیا ہے؟ سوالوں کے شور میں قصور کی  ساری کہانیاں  دب کر رہ گئی ہیں۔  ورنہ یہ سوال نہ اٹھتے۔ قصور کی  کہانی تو ایک ہی ہے۔ لیکن قصور کے معنی بدلتے رہنے سے کہانیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

پرانے زمانے  کا ذکر ہے کہ لاہو اور کاسو دو بھائی تھےجنہوں نے دو شہر آباد کئے لاہو کا بسایا لہور اورکاسو کا کسورکے نام سے مشہور ہوا۔ بیاس کے پانیوں سے سیراب یہ شہر سر سبز اور خوشحال تھے۔ ساری دنیا سے لوگ یہاں آتے اور ان کی کہانیاں لکھتے۔ چین اور سیام تک اس کے قصے مشہور ہوگئے۔ یونہی صدیاں بیت گئیں۔ کئی سلطنتیں گذر گئیں۔  کسی نے لہور میں ڈیرے ڈالے کسی نے کسور میں۔ ہوتے ہوتے ایران، خراسان، افغانستان، فرغانہ دنیا کے ہر ملک کے لوگ یہاں آباد ہوگئے۔  کسور دس بولیوں ، بیس ذاتوں اور بارہ کوٹوں کا شہر مشہور ہو گیا۔ یہ بارہ کوٹ قلعے اور محلات تھےجو مغلوں کے زمانے میں قندھار سے آنے والے خویشگی افغان سرداروں  نے تعمیر کئے۔ یہ محلات  اور قلعے اتنے شاندار تھے کہ ان کو فارسی اورعربی  میں قصور کہتے تھے۔ یوں یہ شہر قصور کہلایا۔ یہ بارہ قلعے جنہیں مقامی لوگ  کوٹ  کہتے ہیں آج کھنڈر ہیں۔ لیکن اب بھی شہر کی وجہ تسمیہ یہی ہیں ۔ یہ کھنڈر قصور کی کہانی  سناتے ہیں کہ قلعے اور محلات بادشاہوں کی حفاظت کے لئے بنتے ہیں جب بادشاہ نہیں رہتے تو یہ کوٹ، قلعے اور محل کھنڈر بن جاتے ہیں اورکسی کی  کیا اپنی بھی حفاظت  نہیں کرسکتے۔ شاید اسی لئے دوسری کہانیوں میں بادشاہوں نے یہ محلات پردیس میں بنائے۔

قصور کی دوسری کہانی اصل کہانی ہے۔ جب  ۱۹۶۵ میں دشمن نے شہر پر حملہ کیا تو قلعوں کے کھنڈر بے بسی کی تصویر تھے۔ جنگ کے لئے نہ فوج تیار تھی نہ مقامی انتظامیہ۔ دفاع کیا تو عوام نے۔اور کہانی بدل دی۔ یہ  کہانی عوام کی فتح اورمحلوں اور قلعوں کی شکست کی کہانی تھی۔ اب قصور تھا تو سب کا، کو تاہی تھی تو سب کی، جیت تھی تو سب کی۔ ہار تھی تو سب کی۔ قصور پاکستان کی علامت بن گیا اور قصور کی کہانی پاکستان کی کہانی بن گئی۔ ۱۹۶۵ میں یہ کہانی ’’میرا سوہنا شہر قصور نی‘‘ گیت کی زبانی  کہی گئی۔ یہ گیت بھی امر ہوگیا اور قصور کو  بھی امر کر گیا۔  یہ گیت نور جہاں نے اس سوہنے شہر میں بسنے والے غازیوں، ولیوں ، رب دے شیروں، اور جی دار عوام کی یاد میں گایا جو دشمن کی فوج کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ جب اس شہر کی بیٹی اللہ وسائی نے سینہ تان کر اس شہر کو میرا سوہنا شہر قصور کہا توقصور کی کہانی بدل گئی۔ اب قصور نہ بادشاہوں کا تھا، نہ  سرداروں اور ان کےقلعوں اور محلات کا۔ یہ قصور سب کا تھا۔ نور جہاں کے گیت نے قصور کے معنی بدل دئے،  کہانی بدل دی۔

نور جہان کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ سال بھی نہیں ہوے تھے کہ قصور کی تیسری کہانی  سامنے آئی۔ اس کہانی نے پھرقصور کے معنی بدل دئے۔  یہ کہانی فتح کی کہانی نہیں تھی۔ اس کہانی میں  نہ قلعوں اور محلوں کا ذکرتھا نہ بارہ کوٹوں کے کھنڈروں کا۔ ذکر تھا  نئے کھنڈروں کا جو اخلاق کی تباہ حالی کی کہانی سنا رہے تھے۔ مرثیہ تھا شہر کی شکست کا  جو اپنوں کے ہاتھوں ہوئی۔ نوحہ تھا قانون کا جو نہ بتا سکا کہ قصور کس کا ہے۔ رسوائی تھی مکینوں کی۔ کہانی تھی بے قصوروں کی جو قصور وار نامزد ہوے۔ قصور وار باعزت بری ہوے۔

یہ کہانی ضلع قصور کے ایک علاقے حسین والہ کی ہے جس میں تین سو سے زیادہ بچوں کے ساتھ  جنسی زیادتیوں کے بعد ان کی ویڈیو سر بازار بیچی گئیں۔ ماں باپ پوچھ رہے تھے قصور کس کا ہے؟ ویڈیو فروش آفر کر رہے تھے کہ ان فلموں پر پہلا حق ان بچوں کے والدین کا ہے۔ وہ چاہیں تو ان فلموں کی قیمت ادا کرکے اپنے پاس محفوظ کر سکتے ہیں ورنہ یورپ اور امریکہ کی منڈی میں ان کی  اتنی مانگ ہے کہ پاکستان کو کبھی کشکول نہیں اٹھانا پڑے گا۔ قصور کے عوام  احتجاجاً سڑکوں پر آگئے۔ حاکم وقت نے  لوگوں سے وعدہ کیا کہ مجرموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا تو ان کا نام بدل دیں۔ انہوں نے فوری طورپر ایک انکوائری کمیٹی بٹھا دی جو  طے کرے کہ قصور کس کا ہے۔ وزارت قانون حرکت میں آگئی۔ چند ہی دنوں میں وزیر قانون نے انکوائری رپورٹ عوام کو پیش کردی کہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ اس لئے کوئی بھی قصور وار نہیں ہے۔ زمینداروں کے درمیان زمین پر تنازعات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ سب نے سکھ کا سانس لیا کہ ایسی خانہ جنگی میں بے قصور ہی کام آتے ہیں۔ قصور ان بے قصوروں کا ہی  ہوتا ہےجو بڑے لوگوں کو ایسے گھناونے کاموں پر مجبور کرتے ہیں اور پھر خاموش بھی نہیں رہتے۔

قانون کا اصول ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اسی لئے قانون کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ  شبہے کا پورا فائدہ ملزم کو دیا جائے۔ قانون کی غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کی طرف داری نہ کی جائے۔ چنانچہ قانون اور تفتیش کے سارے ادارے ملزم کو بچانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ روز مرہ اخلاق کا بھی تقاضا ہے کہ راہ چلتے سے یہ تفتیش نہ کرے کہ اس کی جیب میں جو روپے ہیں وہ کہاں سے آئے۔ منی ٹریل مانگنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔ زمین پر پڑے زیورات مل جائیں تو یہ یقین ہونے کے باوجود کہ یہ آپ کی ملکیت نہیں آپ اپنی جیب میں ڈال سکتے ہیں۔ کوئی آپ سے ثبوت نہیں مانگ سکتا۔ نہ یہ چوری کہلاتی ہے نہ قانون شکنی۔ حالانکہ آپ کو ذرا سا بھی شک نہیں  ہوتا کہ آپ نے کسی اور کا مال جیب میں ڈالا ہے۔  لیکن قانون اور اخلاق آپ کو قصور وار نہیں مانتا۔ قصور ہے  تو اس شخص کا جس نے اپنے مال کی حفاظت نہیں کی۔

بچوں کے ساتھ زیادتی کا بھی یہی معاملہ ہے۔ کسی کو کسی کے کہنے یا تصویر میں زیادتی کرتے دیکھنے پر تو مجرم تو نہیں کہا جا سکتا۔ جب تک دو چار گواہ قسم اٹھا کر نہ کہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکا ہے سنی سنائی پر کسی کو کیسے سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ کیسے طے ہو کہ قصور کس کا ہے؟ بعض اوقات یہ پتا بھی ہو یا ثابت بھی ہو جائے کہ زیادتی  کس کی ہے اسے قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کیونکہ قصور وار ذہنی مریض بھی ہو سکتا ہے۔

قصور کے اس ’’نام نہاد اسکینڈل‘‘ پر جب اخباروں میں بحث جاری تھی تو ملک کے بعض نامور کالم نگاروں نے جن کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور لوگ پیار سے انہیں جان کی طرح عزیز رکھتے ہیں تحقیقی مضمون لکھے۔ ثابت ہوا کہ یہ ہم جنس پرستی کی وبا ہے جو مغرب سے آئی ہے اور بعض انجمنیں اور ان کی سہیلیاں انسانی حقوق کے نام پر ایسی قبیح عادات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں۔ یہ بچے بھی اخلاق باختہ ہیں جن کے والدین نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی۔ جنہوں نے ان بچوں کے ساتھ زیادتی کی، ان کی فلمیں بنائیں وہ قصور وار نہیں۔ انہوں نے تو اس کاروبار کو پاکستان میں پھیلایا ملک کی معاشی ترقی میں حصہ لیا ہے۔ لعنت ہے ایسے مردوں اور نو عمروں پر جو عورتوں کا روپ دھارتے ہیں اور شریف لوگوں کے اخلاق خراب کرتے ہیں۔

وہ تو بھلا ہو پنجاب کی وزارت قانون کا کہ فوراً قانونی کاروائی کرکے اس پراپاگنڈے کا قلع قمع کر دیا۔ اور مغرب کی اس سازش کو ناکام بنا دیا جو انسانی حقوق کے نام پر ہم جنس پرستی کو فروغ دے رہی تھی۔

قصور کی یہ کہانی اتنی پرانی  بھی نہیں ۔ جن پر بیتی وہ ابھی زندہ ہیں۔ سب لوگ  اس ہولناک کہانی کو بھلانا چاہتے ہیں۔ آپ بیتی تو ہے نہیں کہ بھلائی نہ جاسکے۔  سپنا بھی نہیں جو رات کو دیکھا ہو اور دن میں یاد نہ آئے۔  یہ توجگ بیتی ہے جو جاگتے یاد نہیں آتی لیکن رات بھر سونے نہیں دیتی۔

قصور کے واقعے کو تین سال بھی نہیں ہوے تھے کہ  نئی کہانی نے  جنم لیا۔ اب یہ کہانی صرف قصور کی نہیں پورے ملک کی داستان تھی۔ اس کہانی میں قصور کے پرانے معنی واپس آگئے ہیں۔ اب قصور کا حوالہ جنسی زیادتی یا ہم جنس پرستی نہیں،  محلات ہیں۔ لیکن یہ وہ کوٹ  نہیں جو افغان سرداروں نے اپنی اور رعایا کی حفاظت کے لئے قصور میں تعمیر کئے تھے ۔ یہ کہانیاں ان قصور اور محلات کی ہیں جو بادشاہوں نے اپنی دولت کی حفاظت کے لئے فرانس اور برطانیہ میں خریدے ہیں۔ان کہانیوں میں باغات کا ذکر بھی ہے۔ یہ قصور کے چھانگا مانگا کے جنگلات کی بات نہیں جہاں سیاسی وفاداریاں تبدیل کی جاتی تھیں۔ یہ یورپ کے باغات میں بنے ان محلات کی ہیں جہاں میثاق جمہوریت لکھے جاتے ہیں، این آر او طے ہوتے ہیں۔

بھلا ہو وزارت قانون کے ان بروقت اقدامات  کا جن سے قصور کی جنس ہی بدل گئی۔ اب  سوال زنانہ نہیں رہا کہ قصور کس کا ہے۔ اب یہ پوچھا جارہا ہے کہ مجھ پر الزام کیا ہے؟ سوال کا تیور مردانہ ہے۔ اس  سوال میں جہاں قانون سے  مزید واقفیت کا گماں گذرتا ہے وہاں  قانون کی بے بسی پر یقین میں اضافے کا احساس بھی پایا جاتا ہے۔

یہ کہانی چوتھی کھونٹ کی کہانی ہے۔ جس میں مسافر پتھر ہو جاتے ہیں۔ پتھر استحکام کی علامت ہیں۔ جو پتھروں پر چلنے کا ہنر نہیں رکھتے کہکشاؤں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ چوتھی کھونٹ حقیقی جمہوریت اور عالمی معیشت کی انقلابی نوید ہے۔ اس جمہوریت نے دو بادشاہتوں کی قربانیوں سے جنم لیا ہے۔ ایک بادشاہ نے اپنے حقوق سے دست برداری کا اعلان کیا اور اپنے دو وزرائے اعظم کو عدالت کی قربانگاہ میں پیش کرنے کو ترجیح دے کر ثابت کیا  کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔  دوسرے بادشاہ نے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کے لئے پیش کرکے ثابت کردیا کہ بادشاہت بھی جمہوریت ہے۔ حقیقی جمہوریت وہ ہے جہاں آخری اور فیصلہ  عدالتیں نہیں جمہور کرتے ہیں، الیکشن میں ووٹ سے۔ اب  ریاست کے دوسرے فیصلے بھی الیکشن سے ہوں گے۔جمہوریت کی ایک انقلابی صورت کا ظہور ہونے والا ہے۔ اب تک ریاست تین ستونوں پر قائم تھی۔ لیکن ایسی ریاست مہنگی پڑتی ہے۔ ایک مستحکم  ریاست کے لئے ایک ہی ستون کافی ہے اور وہ ہے الیکشن کمیشن۔ اب مقدمات الیکشن کے ذریعے طے ہوا کریں گے۔ برقی آلات کے استعمال سے وقت بھی کم لگے گا۔ تفتیش اور عدالتی کاروائیوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے الیکشن یا ریفرنڈم کے لئے ایک ہی سوال دیا جائے گا قصور وار کون ہے۔ عوام کو چند نام دئے جائیں گے جن میں سے وہ ایک یا زیادہ کا انتخاب کر سکیں گے۔ جو نام زیادہ ووٹ حاصل کریں گے انہیں قصور وار ٹھہرا کر قانون کے مطابق سزا دے دی جائے گی۔ اس انقلابی عدالت کے دائرہ کار میں حسب ضرورت کمی بیشی بھی قانون کے مطابق  کی جائے گی۔ قانون بھی ریفرنڈم سے طے ہوگا تاکہ جمہوریت اپنے صحیح اور مکمل مفہوم میں رائج ہو سکے۔ قصور سب کا ہے تو اس جزا سزا کے طلسم میں قصور نہ تیرا ہو نہ میرا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...