نئے سعودی ولی عہد کو درپیش چیلنجز
کسی بھی وقت یہ اعلان متوقع ہے کہ شاہ سلمان نے رضاکارانہ طور پر تاج شاہی اپنے بیٹے کو پہنا دیا ہے اور محمد بن سلمان سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے ہیں۔
سعودی عرب کی داخلی اور خارجی سیاست اس وقت بڑی نازک صورتحال سے دوچار ہے،سابق ولی عہد محمد بن نائف جن کے والد نائف بن عبدالعزیز بھی تا دم مرگ ولی عہد رہے کی معزولی کے بعد سے حالات معمول کے مطابق نہیں ہیں اور شاہی خاندان میں اختلافات اب اپنی حدوں کو چھو رہے ہیں۔ان کے ساتھ ان کی فیملی اور ان کے دیگر حلفا کو بھی جبری طور پر محل میں رکھا گیا ہے اور باہر کسی بھی سطح کا رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ولایت عہدی سے معزولی کے روز سے اب تک محمد بن نائف کے بارے میں کسی قسم کی خبر نہ سعودی اخبارات میں چھپ رہی ہے اور نہ ہی ٹی وی چینل پر، نئے ولی عہد محمد بن سلمان کی ان سے جھک کر ملنے کی تصویر ان کی میڈیا پر آنے والی آخری تصویر تھی،بن نائف کی ویلفئیر آرگنائزیشن کی خبریں بھی اب آنا بند ہو گئیں ہیں حالانکہ سعودی شہزادوں کی طرف سے فلاحی کاموں کی خبریں معمول کا حصہ ہیں۔
نئےولی عہد محمد بن سلمان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کی اپنی سیکورٹی فورسز ہیں ۔سعودی سیکورٹی فورسز اور مسلح افواج بھی پہلے سابق ولی عہد اور وزیر داخلہ محمد بن نائف کے ماتحت تھیں،اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کے خاتمے اور القاعدہ سے نمٹنے کا کام بھی انہیں کے سپرد تھا،لیکن اب بڑی تیزی کے ساتھ محمد بن سلمان کے آدمیوں کو سیکورٹی پر مامور کیا جا رہا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے خفیہ ایجنسیوں اور سیکورٹی فورسز کا مکمل نظام سنبھالنے والے شخص جنہیں عرب دنیا میں سب سے کامیاب خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے کو اتنی آسانی سے علیحدہ کرنا کیا ممکن ہو گا؟
اسی ضمن میں ایک چیلنج ۔صقور محمد بن نائف ۔کے نام سے تشکیل پانے والی فورس ہے جو کہ بنائی ہی سابق ولی عہد نے اپنے نام سے ہے،یہ سعودی عرب کی تیز ترین فورس سمجھی جاتی ہے اور اسی فورس نے داخلی امن کو اب تک بڑی کامیابی کے ساتھ سنبھالے رکھا ہے لیکن کیا محمد بن سلمان اس فورس کو ختم کر سکیں گے؟یا اسے اپنی تحویل میں لے سکیں گے؟
ایک اہم امر یہ بھی ہے کہ سعودی شہزادوں میں امریکہ کے ساتھ سب سے اچھے تعلقات بن نائف کے ہی ہیں،حال میں محمد بن سلمان نے بن نائف سے بھی زیادہ فرمانبرادری کی یقین دہانی کروائی ہےاور ولی عہد بننے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن کیا امریکا بن نائف کو اس کے حال پر چھوڑ دے گا؟ کبھی نہیں۔
اس وقت بن نائف کی نظریں بھی امریکا پر لگی ہوئی ہیں اور بن سلمان کی بھی،امریکا اس سنہری موقع کو کبھی ضائع نہیں جانے دے گا اور اس کی کوشش ہو گی کہ دونوں شہزادوں میں خلیج کو مزید گہرا کر کے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کر سکے،وہ اس وقت اعلانیہ طور پر تو محمد بن سلمان کے ساتھ کھڑا ہے لیکن معزول ولی عہد محمد بن نائف کے ساتھ بھی رابطے میں رہنا چاہ رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کی شاہی محل میں جبری اقامت کی خبریں کسی سعودی یا عرب اخبار سے نہیں بلکہ امریکی اخبارات سے آرہی ہیں تاکہ آزادی کے ساتھ محمد بن نائف اپنے دوستوں سے رابطہ رکھ سکیں۔
ساسہ پوسٹ کے مطابق شاہی خاندان میں اس وقت احمد بن عبدالعزیز کو بھی اپوزیشن کی طرف سے قیادت کے لیے تیار کیا جارہا ہے،ویب کے مطابق احمد بن عبدالعزیز کو آگے لاکر یہ اعلان کر دیا جائے گا کہ شاہ سلمان کا ذہنی توازن درست نہیں رہا اس لیے انہیں بادشاہت سے معزول کر دیا گیا ہے اور ایک ذہنی طور پر معذور شخص کی طرف سے اپنے بیٹے کو ولی عہد مقرر کرنا بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
ساسہ پوسٹ کے مطابق شاہی خاندان میں محمد بن سلمان کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہے جو بن نائف کو حاصل تھی،اور بن سلمان کے حق میں ووٹ دینے والوں کے نام بھی ظاہر نہیں کیے گئے۔اس ساری صورتحال کے پیش نظر دیوان ملکی کی جانب سے محمد بن سلمان کی تخت نشینی کی مکمل منصوبہ بندی کرلی گئی ہے اور کسی بھی وقت یہ اعلان متوقع ہے کہ شاہ سلمان نے رضاکارانہ طور پر تاج شاہی اپنے بیٹے کو پہنا دیا ہے اور محمد بن سلمان سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان حالات میں شہزادہ محمد بن نائف سعودی عرب کے بادشاہ بن جاتے ہیں تو کیا وہ ان خارجی چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن کے پیش نظر ان کو اتنی تیزی سے آگے لایا گیا ہے یا پھر وہ داخلی مسائل میں ہی الجھ کر رہ جائیں گے؟
اللہ نہ کرے کہ سعودی عرب میں بھی شام کی تاریخ دہرائی جائے۔
فیس بک پر تبصرے