واشنگٹن کا پاکستان کے بارے میں بدلتا رویہ

926

جب سے خطےمیں نئے اتحادات اورمفادات کی گیم شروع ہوئی ہے پاکستان کے بارے میں افغان اورامریکی رویہ میں کچھ سختی دیکھنے میں آرہی ہے

پاکستان کے دورے پرآئے ہوئے سینٹرزکے وفد کے سب اہم رکن امریکی امورخارجہ کی کمیٹی کے سربراہ اوربااثرامریکی سینٹرجان مکین نے پاکستان کووارننگ دی ہے کہ اگرپاکستان نے حقانی نیٹ ورک کو سپورٹ کرنابند نہیں کیا تواس صورت میں امریکہ کو پاکستان کی طرف اپنا رویہ بدلنا چاہئے۔ ڈان کے مطابق یہ واشنگٹن کا پاکستان کی طرف تبدیل ہوتی ہوئی پالیسی کی غمازی کرتاہے، جوکھبی اس کا قریبی حلیف تصورکیاجاتاتھا۔

سینٹرجان مکین نے کابل جانے سے پہلے خبردارکیاکہ اس نے اپنے اس پیغام سے پاکستان کی سویلین اورملٹری لیڈرشپ کوآگاہ کردیاہے۔ کابل پہنچ کرانہوں نے کہا ’’ ہم توقع کرتے ہیں وہ (پاکستان) ، خاص کرحقانی نیٹ ورک اوردہشت گرد نتظیموں کے خلاف ہمارے ساتھ تعاون کرے گا‘‘۔انہوں نے دھمکی آمیزلہجہ اپناتے ہوئے کہاکہ ’’اگراس(پاکستان) نے اپنارویہ نہیں بدلا،توہمیں بھی بطورقوم پاکستان کے خلاف اپنارویہ تبدیل کرنا چاہیئے‘‘۔ ایک اطلاع کے مطابق امریکی وفد نے پاکستانی فوج کوبتاتاکہ پاکستان کے حقانی نیٹ سے تعلقات ہیں۔ اگرپاکستان کے اندرکوئِی دہشت گرد پایاگیاتواس کوگرفتارکرکے سزادی جائے گی۔ اس قسم کی کارروائی کی دھمکی ایک ایسے وقت میں دی جارہی ہے جب پاکستان میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کے اشاعت کے بعد ایک مرتبہ پھرپاکستان میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کے کام پرسوالات اٹھ رہے ہیں اورپاکستانی عدالت میں ریمنڈڈیوس کی پاکستان حوالگی اورمقدمہ کیلئے درخواست بھی دائرکی گئی ہے۔ جان مکین کے دھمکیوں سے پاکستان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوتادکھائی دے رہاہے۔

لیکن افغانستان جانے سے قبل امریکی وفد نے نہ صرف وزیرستان کادورہ کیابلکہ پاکستانی اقدامات پراطمنان کااظہاربھی کیاتھا۔ پاکستان کے فوجی سربراہ قمرباجوہ کے ہمراہ جنوبی وزیرستان کے دورے پرجان مکین نے کہا ’’ہم نے پاکستان  افغانستان تعاون اور تعلقات سمیت کئی معاملات پر بات کی اور ہم پراعتماد ہیں کہ صحیح تعاون اور صحیح اسٹریٹجی کے ذریعے ہم اس طویل جدو جہد کو کامیاب ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔‘‘

جان مکین کے دورے کے دوران نیویارک ٹائمز میں پاکستان کے سابق سفیرحسین حقانی کا مضمون بھی آج ہی شائع ہواہے۔ اورحسین حقانی کا پہلامشورہ بھی یہی ہے کہ اگرافغانستان میں (جنگ) جیتنی ہے توپاکستان کے بارے میں سخت موقف اختیارکیاجائے۔ حسین حقانی نے ٹرمپ انتظامیہ کوافغانستان سے متعلق مشورہ دیاہے کہ اس کالازمی جزپاکستان کے خلاف سخت مؤقف کا ہوناضروری ہے۔ حسین حقانی کے بقول  اگر یہ مان لیا جائے کہ طالبان افغانستان کے 40فی صد حصہ پرکنٹرول رکھتے ہیں، تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ طالبان کی لیڈرشپ اپنی حفاظت کے لئے پاکستان میں ہے اوروہاں سے معاملات چلا رہی ہے اگرچہ ماضی کی حکومتیں پاکستان کومواقع دے رہی تھیں مگرٹرمپ انتظامیہ کومتبادل راہ اپنانے کامشورہ دیاگیاہے۔ اس کااستدلال ہے کہ پاکستان اگرچہ سردجنگ کے زمانہ سے امریکہ کااتحادی رہاہے لیکن پاکستان کوصحیح طرح سے سمجھناامریکہ افسران کے لئے آسان نہیں رہاہے۔ پاکستان امریکہ سے ہتھیار، معاشی امداد اورانڈیا سے مخاصمت کے لئے سفارتی مددلیتارہاہے۔ لیکن پاکستان اورامریکہ دونوں نے ایک دوسرے کوناامید ہی کیاہے۔ کیونکہ دونوں کے جنوبی ایشیاء میں مفادات میں ٹکراؤ پایاجاتاہے۔ حسین حقانی افغانستان میں انڈیا کے کردارکے بارےمیں پاکستانی خدشات سے مطمئن نہیں اوراسے بے جاتصورکرتے ہیں۔

بش انتطامیہ نے پاکستان کو12.4بلین ڈالرز اورابامہ انتظامیہ نے 21بلین ڈالرزامداددی مگریہ رقم پاکستان کی افغان طالبان کے لئے سپورٹ پراثراندازنہیں ہوئی۔ اس لئے حقانی تجویزدیتاہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کو ایک بڑے نان نیٹواتحادی کے درجے سے محروم کرتے ہوئے اس کے لئے امریکی فوجی ٹیکنالوجی کومحدودکردے۔ اورامداد کوطالبان کے کاروائی سےمشروط کردے۔ اس فروری میں کچھ اسی طرح کے مشورے’’بروکنگز‘‘نامی تھنک ٹینک کے بروس ریڈل نے بھی دئے تھے۔ وہ کہتاہے کہ افغانستان کومستحکم کرنے میں سب سے بڑی اورواحد مشکل طالبان ہیں۔ اوران طالبان کے محفوظ ٹھکانے پاکستان میں ہیں لیکن گزشتہ 15سال میں دوامریکی انتظامیہ کی طرف سے 25بلین ڈالرزکی امداد کے باوجود پاکستان نے حقانی نیٹ ورک سے اپنے ناطے نہ توڑے۔ وہ کہتاہے کہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ دراصل پاکستانی پروکسی کے ساتھ ہے۔ اس لئے پاکستان کی طرف ایک نئے اپروچ کی شدیدضرورت ہے۔ بروس بھی امریکہ کومشورہ دیتاہے کہ کچھ ایسا طریقہ کاراختیارکیاجائے کہ پاکستان کی دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کی حوصلہ شکنی کی جائے اورپاکستان کے اندرونی اوربیرونی دہشت گردوں سے تعلقات کوختم کرنے کی کوئِی راہ نکالی جائے۔ وہ کہتاہے کہ دہشت گردوں کونوازشریف کی حکومت کی بہت کم سرپرستی حاصل ہے۔ یہ دراصل انٹلی جنس ایجنسیاں اورفوج کی اعلیٰ کمانڈہے جوان کی پشت پناہ ہیں۔

امریکہ کوافغانستان میں شدید مشکلات کاسامناہے۔ اشرف غنی کی افغان حکومت کوطالبان حملوں کے علاوہ اندرونی طورسیاسی مخالفت اوربغاوت کاسامناہے۔ پوری ریاستی انتظامیہ مفلوج ہوکررہ گئی ہے۔ جنگ اورعوامی بغاوت امریکہ اورافغان حکومت دونوں کے کنٹرول سے باہرہے۔ اس لئے جب یہ حالات پرقابوپانے میں ناکام ہوتے ہیں تویہ ساراالزام پاکستان پرمنتقل کردیتے ہیں۔ ان کا شروع ہی سے اس امرپرزوررہاہے کہ پاکستان طالبان کی مدد کررہاہے، خاص کر حقانی نیٹ ورک کے بارے میں کہاجاتاہے کہ پاکستان کا پروردہ ہے۔ پہلے یہ الزامات طالبان کے حوالے سے بھی زیادہ قوی تھے۔ مگراب کہاجارہاہے کہ ملاعمرکے بعد آنے والے امیروں نے پاکستان پراپناانحصارکسی حدتک کم کردیاہے اوریہ اب روس وغیرہ سے زیادہ نزدیک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ دعوے ہوتے رہتےہیں کہ افغان طالبان کی شوریٰ کامرکزکوئٹہ کے قریب کچلاک میں ہے۔ اوراسی وجہ سے یہ کوئٹہ شوریٰ کے نام سے مشہور بھی ہے جبکہ آپریشنل کمانڈرزافغانستان میں ہیں۔

جب سے خطےمیں نئے اتحادات اورمفادات کی گیم شروع ہوئی ہے ، پاکستان کے بارے میں افغان اورامریکی رویہ میں کچھ سختی دیکھنے میں آرہی ہے۔ پاکستان اب نئے تشکیل پانے والے روس چین اتحاد کے زیادہ قریب ہے تودوسری طرف انڈیا افغانستان اورامریکہ اتحادی بن کرسامنے آئے ہیں۔ انڈیا کواب افغانستان میں زیادہ رسائی حاصل ہے اوریہی پاکستان کے لئے سب سےزیادہ تکلیف دہ عمل ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغان اورانڈیا مشترکہ طورپرپاکستان میں تخریب کاری کی سرپرستی کررہے ہیں۔

جنوبی ایشیاء اورافغانستان میں بڑھتی ہوئی بدامنی، شورش اورتنازعات اب ان ممالک کے باہمی چپقلش اورتناوکی وجہ سے خوفناک شکل اختیارکرتے جارہے ہیں۔ جہاں خطے کے ممالک میں اندرونی اتنشاربڑھ رہاہے، وہاں ان ممالک کےدرمیان بھِی جنگ کے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ پاکستان پرامریکہ، انڈیا، افغانستان اورایران کی طرف سے مسلسل دباو بڑھ رہاہے کہ یہ اسلامی شدت پسندوں کی پرورش اورپشت پناہی سے ہاتھ کھنچ لے۔ اب واشگٹن میں ان آوازوں کی گونج ایک ایسے دورمیں بلندآوازمیں سنائی دے رہی ہے جب وہاں ٹرمپ کی حکومت برسراقتدارہے جوایک پرتشدد پالیسی پرعمل پیرا دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لئے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ کیونکہ اس کے خلاف سیاسی اورفوجی اقدامات کی وکالت میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔

مضون نگارکراچی میں مقیم محقق ہے۔

Sartaj2000@yahoo.com

Tweet: @sartajku

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...