مدارس اصلاحات کے لیے نئی کوششیں، لائحہ عمل کیا ہے؟
جنوری 2017 کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الحق کی زیر نگرانی تیار کردہ “پیغام پاکستان” کے کے نام سے نیا بیانیہ تحریری دستاویز کی صورت میں تشکیل دیا گیا جوکہ ریاست پاکستان کے موجودہ رجحان کی ترجمان ہے۔ اس کے بنیادی نقاط مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ، ریاست کے خلاف محاذ آرائی، تخریب و فساد، دہشت گردی اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوے جیسے مسائل تھے۔ ابتدائی طور پر پاکستان کےمعروف اور جید 1800 اور اب تک 5000 سے زائد علمائے کرام نے “پیغام پاکستان “کی تحریری دستاویز پر دستخط کیے ہیں۔
2018 میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حکومت آئی اور 2019 کے ابتداء میں مذہبی کالعدم تنظیموں کے حوالے سے کچھ تحفظات سامنے آئے اور اس طرح کچھ دینی مدارس اور کالعدم تنظیموں کے خلاف وفاقی حکومت کے حکم پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں پنجاب اور صوبہ سندھ میں کالعدم تنظیموں کی مساجد، مدارس اور اسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا۔ جس کے باعث ایک مرتبہ پھر دینی مدارس میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس طرح مورخہ 6 مارچ 2019 کو پنجاب میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے 160 مدرسے، 32 اسکول، 153 ڈسپنسریز تحویل میں لی گئیں، 2 کالجز، 4 اسپتال اور 178 ایمبولیسنز بھی سرکاری تحویل میں لی گئی ہیں۔ پنجاب میں تحویل میں لی گئی ایمبولینسز ریسکیو 1122 کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ جب کہ دوسری جانب نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ حکومت نے بھی صوبے میں دینی مدارس کو خود چلانے کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا ہے جس کے تحت کالعدم تنظیموں کے 56 مدارس، مراکزِ صحت سمیت دیگر املاک کو کنٹرول میں لیا گیا ہے، اور بالخصوص مدرسہ جامعہ الدرسات الاسلامیہ جوکہ جماعت دعوہ کا کراچی میں مرکز ہے کو سندھ حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مجموعی طور پر صوبوں میں 182 مدارس، 34 اسکولز، 5 کالج، 163 اسپتال، 184ایمبولنس اور 8 دفاتر تحویل میں لے گئے، کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن جاری رہے گا جب کہ صوبوں کے ساتھ وزارت داخلہ مل کر کام کر رہی ہے۔
اسی طرح پاکستان کے معروف وفاقات اور ممتاز علمائے کرام پر مبنی ایک وفد نے بھی مدارس کے حوالے سے مورخہ 2 اپریل 2019 کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف و دیگر وزراء سے بھی ملاقات کی اور انہیں در پیش مسائل سے آگاہ کیا۔ ملاقات چارسے پانچ گھنٹے طویل تھی۔ آرمی چیف نے دینی مدارس کے تمام معاملات حل کرانے اور دینی مدارس کو کسی صورت ختم نہ کرنے کی یقین دہائی کروائی۔ جنرل قمر باجوہ نے دینی مدارس کوبنک اکاونٹ کھولنے، دینی مدارس کے نصاب میں کچھ تبدیلیوں، مدارس کے فضلاء کودیگرقومی شعبوں میں بھی کھپانے کی خواہش ظاہر کی۔ ملاقات میں آرمی چیف بے تکلفانہ انداز میں علماء کے تحفظات سنے اور تمام تر مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کروائی۔
حکومت نے ایسے وقت میں دینی مدارس کے ذمے داران سے رابطہ کیاہے جب مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کرچکے ہیں اور اس حوالے سے وہ ملک بھر میں دس سے زائد ملین مارچ کرچکے ہیں
ملاقات کے حوالے سے مولانا زاہدالراشدی لکھتے ہیں کہ ’’آرمی چیف اور ان کے رفقا کی ٹیم دینی مدارس کے نظام و نصاب سے براہ راست واقفیت رکھتی ہے، اس کے نفع اور نقصان دونوں پر ان کی نظر ہے اور وہ اس نظام و نصاب کو چند ناگزیر تبدیلیوں کے ساتھ موجودہ صورت میں ہی باقی رکھنے کے حق میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا خیال ہے کہ دینی نصاب کو فرقہ وارانہ تکفیر کے مبینہ عنصر سے پاک ہونا چاہیے۔ دوسری یہ کہ ان کے خیال میں ریاست کی پالیسی اور نظم سے ہٹ کر مسلح جدوجہد کی ہر صورت کی نفی ہونی چاہیے اور پرائیویٹ عسکریت پسندی کے ہر امکان کو ختم ہو جانا چاہیے۔ تیسری یہ کہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے فضلا کو مسجد و مدرسہ کے نظام کا حصہ بننے کے ساتھ ساتھ دیگر قومی شعبوں اور اداروں میں کھپانے کا کوئی نظم بھی قائم ہونا چاہیے۔ چوتھی یہ کہ دینی مدارس کے آمد و خرچ کا حساب باقاعدہ بینکوں کے ذریعے ہونا چاہیے تاکہ یہ ریکارڈ میں آجائے۔
میرے خیال میں وہ مذکورہ بالا تحفظات کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب و نظام کو موجودہ صورت میں ہی برقرار رکھنے کے حق میں ہیں اور اسے سپورٹ کرنے کا عزم رکھتے ہیں جو بہرحال خوش آئند ہے اور دینی مدارس کے ارباب حل و عقد کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ ایک موقع پرجب آرمی چیف نے کہا کہ مدارس کے نصاب میں موجود انتہاپسندی پھیلانے والی کتاب نکال دیں تو اس پرقاری حنیف جالندھری نے کہا کہ آپ ایسی کتاب کی نشاندہی کریں ہم نکال دیں گے۔ اسی طرح جب جنرل قمرباجوہ نے مدارس کے بنک اکاؤنٹ کھلوانے کی بات کی تو مدارس کے ذمے داران نے کہا کہ مدارس کے بنک اکاؤنٹ کھولنے میں بنک اورضلعی انتظامیہ رکاوٹ ہے۔ مدارس والے بنک اکاؤنٹ کھلوانے کے حق میں ہیں۔ اس پرآرمی چیف نے یقین دہانی کروائی کہ ایسی تمام تر رکاوٹیں دورکی جائیں گی‘‘۔
وفاقی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پرعمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ملک بھر کے علما کرام کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان سے مدارس کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس بات کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان سے ملک بھر کے معروف علماء کرام کی ملاقات کے موقع پر کیا گیا۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد 100 دن مکمل ہونے سے پہلے ہی دینی مدارس کے ذمے داران سے ملاقات کی گئی تھی اورعلماء نے 22 نکات پر مشتمل محضرنامہ وزیراعظم کو پیش کیا تھا۔ مگر اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔ چھ ماہ کے طویل انتظار کے بعد بالآخر حکومت نے دوبارہ ایسے وقت میں دینی مدارس کے ذمے داران سے رابطہ کیاہے جب مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کرچکے ہیں اور اس حوالے سے وہ ملک بھر میں دس سے زائد ملین مارچ کرچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے مولانافضل الرحمن کا توڑ کرنے کے لیے دینی مدارس کے ذمے داران کواعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے اور وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر دینی مدارس کے ذمے داران سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان سے مدارس کو کوئی خطرہ نہیں، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں علما و مشائخ کا ساتھ چاہیے۔
پاکستان میں وقت کے ساتھ دینی مدارس کے نطام تعلیم میں اصلاحات کا عمل جاری رہا۔ ریاست ان کے مسائل بھی حل کرنے میں کوشش کرتی رہی ہے۔ بد قسمتی یہ ہوجاتی ہے کہ ہر حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق ان مدارس کے مسائل کو دیکھتی ہے۔ مگر مجھے اب لگتا ہے کہ اب دینی مدارس اور حکومت کے درمیان مسائل کے حل کا آغاز ہو نے جا رہا ہے جو بہت جلد متوقع ہے۔
اس حوالے سے وفاقی وزارت تعلیم کے پاس دینی مدارس کی رجسٹریشن کا کوئی باضابطہ شعبہ نہیں ہے البتہ ماضی میں احقر کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کے مطابق عمل در آمد شروع ہو چکا ہے۔ میری تجاویز میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو وزارت تعلیم کے ماتحت کر دیا جائے تاکہ مستقل میں جب بھی وزارت اور وفاقات کے مابین کوئی معاملہ طے ہوجائے تو یہ ادارہ کام کرسکے گا۔ میری معلومات کے مطابق اب موجودہ حکومت میں وزیر اعظم نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ وزارت تعلیم کو منتقل کرنے کی سمری منظور کر دی ہے اور آئندہ کا لائحہ بھی تیار ہو رہا ہے جس کے مطابق وفاقی وزارت تعلیم ہی مدارس کے رجسٹریشن اور دیگر مسائل کے حل میں تمام وفاقوں کے نمائندوں کی مشاورت سے پیش پیش رہے گی۔
فیس بک پر تبصرے