مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال، پاکستان کے لیے ایک امتحان
بھارت نے ایک صدارتی حکمنامے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا ہے۔ اس سے قبل وادی میں بڑے پیمانے پر عسکری اہلکاروں کی اضافی نفری کی تعیناتی کی گئی اور غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو بھی نافذ کیا گیا ہے۔
2016 سے بھارت نے کشمیر میں جو رویہ اپنایا ہے اس میں بات چیت کا کوئی آپشن موجود نہیں تھا اور کشمیریوں کے خلاف مسلسل سخت برتاؤ روا رکھا گیا، لیکن چند دن قبل تک کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ مودی حکومت ایسا بڑا قدم اٹھاسکتی ہے۔ انڈین وزیراعظم نے پچھلے عرصے میں متعدد بار یہ دہرایا کہ جب تک شدت پسندی موجود ہے اس وقت تک کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ اور شدت پسندی سے ان کی مراد ہر وہ آواز اور تحریک تھی جو بھارتی حکومت کی خواہشات و مفادات کو چیلنج کرتی ہو یا ریاست سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہو۔ کشمیری کمانڈر برہان وانی کو شہید کرنے اور اس کے بعد ہونے والوں تمام مظاہروں کو بے رحمی سے کچلاگیا۔ پاکستان کی جانب سے امن کی خاطر مذاکرات کے لیے کی جانے والی کوششوں بھی کو خاطر میں نہیں لایاگیا۔ انڈیا نے پچھلے دنوں صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا تھا۔ اب جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کیوں بات چیت اور ثالثی کے لیے رضامند نہیں تھا۔
کشمیر میں کرفیو نافذ کرنے اور ہنگامی حالات پیدا کرنے کے ساتھ بھارت نے پاکستان کی حدود میں کلسٹر بم پھینک کر شاید پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ وہ کشمیر کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کرے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے کے ردعمل میں جنم لینے والی کسی بھی صورتحال سے سختی اور تشدد کے ساتھ نمٹنے کے تیار ہے، چاہے اس کی جو بھی قیمت ہو۔ پاکستانی حکام سفارتی سطح پر انسانی حقوق کی چند بڑی تنظیموں اور بعض ممالک کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن کشمیر میں جس منظرنامے کی تشکیل کی گئی اور جیسا خوف مسلط کیا گیا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے نہ طاقتور ممالک و تنظیموں نے ابھی تک خود سے کسی اقدام کا اشارہ دیا ہے نہ پاکستان کوئی بڑی کامیابی حاصل کر پایا ہے۔ بھارت کے متشدد رویے کے مقابل بطور فریق کمزور معاشی و سفارتی پس منظر کے ساتھ اور خطے کے امن کی پیچیدہ صورتحال کے تناظر میں محاذ آرائی سے بچتے ہوئے پاکستان کے لیے کشمیر اور اس کے عوام کی خاطر کارآمد کردار ادا کرنا ایک امتحان ہے۔
فیس بک پر تبصرے