حالات کچھ بھی ہوں، ہیروز کو مت بھولیں
ویسے تو تمام ہی پاکستانیوں بالخصوص پرجوش نوجوانوں کو اچھی خبروں کی تلاش رہتی ہے لیکن حالیہ دنوں میں چند پاکستانیوں کو ملنے والی نمایاں کامیابیاں ذرائع ابلاغ میں زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکیں
وزیراعظم نواز شریف اُور اُن کے خاندان سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ’جے آئی ٹی‘ کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامے پر ہونے والی ہلچل کا چرچہ اور شور اس قدر ہے کہ پاکستان سے جڑے کئی دیگر اہم معاملات یا تو اس گہما گہمی میں دب گئے ہیں یا اُن کا علم ہوتے ہوئے بھی کسی نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔
ویسے تو تمام ہی پاکستانیوں بالخصوص پرجوش نوجوانوں کو اچھی خبروں کی تلاش رہتی ہے لیکن حالیہ دنوں میں چند پاکستانیوں کو ملنے والی نمایاں کامیابیاں ذرائع ابلاغ میں زیادہ توجہ حاصل نہ کر سکیں۔ان میں سے زیادہ تر اچھی خبریں کھیل کے میدان میں پاکستان کو ملنے والی کامیابیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
محمد وسیم ’فلائی ویٹ‘ کیٹیگری میں عالمی نمبر ایک باکسر ہیں، اُنھوں نے پاناما کے باکسر الئیاسر والڈیز کو ناک آؤٹ کر کے مسلسل چھٹی کامیابی حاصل کی۔
جب کہ بیڈمنٹن میں عرفان سعید اور عظیم سرور نے بھارتی کھلاڑیوں کو شکست دے کر بیڈمنٹن چیمئین شپ جیتی، محمد سجاد سنوکر کے ایشین جونئیر چمپئین بن گئے اور سنوکر ہی میں اٹھارہ سال سے کم عمر عالمی مقابلہ نسیم اختر نے اپنے نام کیا۔اس کے علاوہ فیضان حسین کو برطانیہ کی ملکہ سے منسوب ’’ینگ کیوئینز‘‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
اسے بدقسمتی کہیے یا کچھ اور۔۔۔ ان کھلاڑیوں کی کامیابی تو دور کی بات پاکستانیوں کو ان ہونہار ہم وطنوں کے نام اور چہرے بھی یاد نہیں ہوں گے۔
بلا شبہ بے حد محنت اور کوششوں کے بعد یہ شاندار کامیابیاں ان پاکستانیوں کے حصے میں آئیں اور وہ داد کے مسحق بھی ہیں۔لیکن یہ بدقسمتی رہی کہ ماسوائے بعض کھیلوں کے فنون لطیفہ، سائنس، تعلیم، طب اور تحقیق سمیت دیگر شعبوں میں جو پاکستانی عالمی سطح پر اپنے ملک کا نام روشن کرتے رہے ہیں اُن میں سے اکثر کو بسا اوقات وہ توجہ نا ملی جو بعض کھلاڑیوں کے حصے میں آتی ہے۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ اس کو متعلقہ اداروں اور شخصیات پر چھوڑ دینا چاہیئے، اس میں ساری قوم کو الجھنے کی ضرورت نہیں۔لیکن اگر عوام اس میں شامل بھی ہوں تو اُنھیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ معاشرے کو خوبصورت اور متنوع بنانے کے لیے اُن تمام افراد و شخصیات کی کوششوں کو بھی اجاگر کرنا ہو گا جو ملک کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔خدشہ اس بات کا ہے کہ تمام تر مشکلات اور وسائل کی کمی کے باوجود عالمی سطح پر کامیابیاں حاصل کرنے والے پاکستانی اس عدم توجہی سے خداناخواستہ مایوس ہو نا ہو جائیں، اور ہم اپنے ہیروز کو کھو دیں۔
ایک وقت تھا جب پاکستان ہاکی کے کھیل میں چیمپئین تھا اور ہر جگہ اس کا چرچا رہتا تھا لیکن پھر توجہ اس سے ہٹ گئی یا کم ہو گئی، کھلاڑیوں کو وہ وسائل نا ملے کو کرکٹ کھیلنے والوں ملتے ہیں۔وہ گلی محلے جہاں بچوں کے ہاتھوں میں ہاکی ہوتی تھی، اب نئی نسل کے بچے شاید اس کھیل ہی سے نا آشنا ہیں۔
کرکٹ بلاشبہ اہم کھیل ہے اور توجہ کی مستحق بھی، لیکن چیمپئین تو چیمپئین ہوتا ہے چاہے اُس کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو۔
حال ہی میں برازیل کے اسٹار فٹبالر رونالڈینو اور رابرٹو کارلوس سمیت سات عالمی شہرت یافتہ فٹبالر پاکستان آئے، خود فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اُن سے ملاقات کی اور خوش آمدید کہا۔
ان کھلاڑیوں نے فٹبال کے کھیل کے فروغ کے لیے نمائشی میچ بھی کھیلے لیکن بدقسمتی سے اُنھیں بھی وہ کوریج نہ مل سکی جو ملنی چاہیئے تھی۔
اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں، ملک کے لیے چھوٹی سے چھوٹی کامیابی حاصل کرنے والے کو بھی بھلایا نا جائے، اُن کے لیے بڑے مالی اعلانات نہ سہی پرجوش خیرمقدم تو ضروری ہے۔
کیوں کہ اگر ایسا نا کیا گیا تو کامیابیاں روٹھ سکتی ہیں اور نامساعد حالات کے باوجود ملک کے سینے پر اعزاز و تمغے سجانے والے دلبرداشتہ ہو سکتے ہیں۔
حالات کچھ بھی ہوں اپنے ہیروز کو مت بھولیں۔
فیس بک پر تبصرے