سائبر ٹیررازم کے قوانین پر عمل در آمد کیوں نہیں ہوا ؟

1,017

ہولی کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے جو تقریر کی اس کے فوری بعد ان پر توہین مذہب کے فتوا لگایا لیکن حیر ت انگیز طور پر ایسا کرنے والے مقرر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی

امسال 17 اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس کی اور 10 فروری کو حیدرآباد سے غائب ہونے والی لڑکی نورین لغاری کی برآمدگی کی تصدیق بھی کی ۔ ڈی جی آئی ایس پی  آرنے بتایا کہ نورین لغاری کو فیس بک ذریعے دہشت گردوں نے اپنی طرف مائل کیا اوروہ ایسٹر کے موقع پر اس سے کسی چرچ پر خود کش حملہ کرانا چاہتے تھے۔ میجر جنرل آصف غفور نے والدین سے درخواست کی کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات پر نظر رکھیں ۔دوسری جانب انکشاف ہوا ہے کہ بحیثیت ریاست ، پاکستان میں انٹر نیٹ کی مانٹرنگ کا بھی کوئی موئثر نظام نہیں اور ملک میں سائبرقانون کی منظوری کے باجود اب تک Cyber Terrorism کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا ہے ۔
اگر کہا جائے کہ پاکستان نے اپنی سائبر سرحدوں کو کھلا چھوڑا ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا جس کی وجہ سے ملک میں نہ صرف شدت پسندوں کو دہشت گردی کی طرف مائل اور اکسایا جاتا ہے بلکہ ان کی بھرتی بھی کی جاتی ہے اور اس کی تازہ اور اہم ترین مثال نورین لغاری کیس ہے ۔ انٹر نیٹ اور بلخصوص اگر بات کی جائے سوشل میڈیا کی، تو یہ نوجوان نسل کو دہشت گردی کی طرف مائل کرنے کا موثرذریعہ بن چکا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بشمول فیس بک، ٹوئٹر،واٹس ایپ، ڈیلی موشن ، وی میو اورٹیلی گرام پر دہشت گردی اور شدت پسندی کو فروغ دینے والے درجنوں پیجز چل رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ لوگ سوشل میڈیا کی ان ہی ویب سائٹس پر لوگوں پر کفر اور قتل کرنے کے فتوے بھی دئے جارہے ہیں لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ داعش ، القاعدہ ، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار سمیت دیگر کالعدم جماعتیں ان ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کے ذریعے ریاست اورریاستی اداروں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈے میں مصرو ف ہیں اور ان کا یہ عمل بنا کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔
ملک میں سائبر کرائم بل کو گذشتہ سال اگست میں منظور کرکے نافذ العمل کیاجا چکا ہے ۔ اس بل کی منظوری کے دوران مختلف حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی لیکن ا س کے باوجود اس بل کو منظور کرکے نافذکردیا گیا ہے۔ اس بل کوپیسایعنی Prevention of Electronic Crime Act, 2016 کا نام دیا گیا تھا ۔پیسا کی شق 10 سائبر ٹیررسم سے متعلق ہے ۔جس کے مطابق کو ئی بھی شخص جو حکومت ، عوام یا عوام کے کسی مخصوص طبقے ، برادری ، فرقے کے خلاف کسی کو اکساتا ہے، ان میں خوف ، فرقہ وارانہ یا لسانی نفرت پیدا کرتا ہے ، یا کسی بھی تنظیم یا شخص کے مقاصد کو آگے بڑھاتا ہے جس پر قانون کے تحت پابندی ہے، اسے 14 سال تک کی قید یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ساتھ دی جاسکتی ہیں ۔
نہ صرف یہ بلکہ اسی قانون کی شق نمبر 11 اور 12 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی انفارمیشن سسٹم یا ڈیوائس کو استعمال کرتے ہوئے ایسی معلومات تیار کرتا ہے یا پھیلاتا ہے جس سے مذہبی ، فرقہ وارانہ یا لسانی نفرت پیدا ہو،یاوہ لوگوں کو دہشت گردی کے لئے بھرتی کرتا ہو یا ان کو مالی معاونت کی طرف راغب کرتا ہو یا دہشت گردی کی منصوبہ بندی کرتا ہو ، اس کو 7 سال کی سزا دی جاسکتی ہے یا جرمانہ کیا جاسکتا ہے یا دونوں سزائیں ساتھ دی جاسکتی ہیں۔
پاکستان میں اگر کوئی شخص کسی کو ٹیلی ویژن چینل پر بیٹھ کر دھمکی دیتا ہے یا ڈراتا ہے اور ریاست کے خلاف بات کرتا ہے تو پیمرا صرف اس چینل پر پابندی یا جرمانہ عاعد کرسکتاہے لیکن ایسے شخص کے خلاف فوجداری کارروائی نہیں کرسکتی ۔ پیسا کا قانون وہ فورم ہے جہاں فوجداری مقدمہ قائم کرکے اس کے خلاف کارروائی بھی جاسکتی ہے ۔
اہم بات یہ کہ ہولی کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے جو تقریر کی اس کے فوری بعد ان پر توہین مذہب کے فتوا لگایا لیکن حیر ت انگیز طور پر ایسا کرنے والے مقرر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور وہ آج بھی آزادی کے ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں تقاریب میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں۔سائبر ٹیررسم کے مقدمات کی تفتیش کا اختیار ایف آئی اے کو دیا گیا تھا تاہم اس ایکٹ کو منظور ہوئے ایک سال ہوا چاہتا ہے مگر ایف آئی اے سائبر ونگ کے سینئر افسرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی ہے پاکستان میں سائبر ٹیررازم  کا کوئی بھی کیس درج نہیں ہوا اور نہ ہی اس حوالے کسی کی باقاعدہ گرفتاری عمل میں آئی ہے۔دوسری اہم بات کہ ملک میں سوشل میڈیا کی ریگولیٹری باڈی ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)Complain Oriented ادارہ یعنی جب تک کوئی پی ٹی اے کو شکایت نہیں کرے گا وہ کسی بھی سوشل میڈیا ویب سائٹ یا پیج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ پی ٹی اے کے پاس ملک میں انٹر نیٹ ٹریفک کو مانیٹر کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اس کی نگرانی کا ارادہ رکھتی ہے۔دوسری جانب ایف آئی اے کے پاس بھی یہ صلاحیت ، آلات اور ماہر ین موجود ہیں جو سائبر کرائم اور سائبر ٹیررازم سے لڑ سکیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...