پاکستان ساگا تقریبِ انعامات 2019ء
گزشتہ روز 23 اگست کو مارگلہ ہوٹل اسلام آباد میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ذیلی شعبے ’’پاکستان ساگا‘‘ کی جانب سے تقسیم انعامات کی ایک تقریب کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ تقریب کے شروع میں ادارے کے پروجیکٹ مینیجر محمد اسماعیل خان نے پاکستان ساگا کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا، پاکستان ساگا ملک کا پہلا ویڈیو میگزین ہے جس کے ذریعے ان سماجی مسائل کو سامنے لایا جاتا ہے جو مین اسٹریم میڈیا میں زیربحث نہیں آتے۔ رواں سال اِس شعبے کے تحت 120 سے زائد ویڈیوز ریلیز کی گئیں۔ ساگا کے پیکجز بنانے کے لیے قبائلی اضلاع سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں سے باصلاحیت صحافیوں اور سماجی کارکنوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اپنے گردو پیش کی ایسی عام زندگیوں اور عام مسائل کوعکس بند کرتے ہیں جو پاکستان کا حقیقی چہرہ ہیں۔یہ محفل انہی نوجوانوں کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے۔
اس کے بعد پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے تمام مہمانوں اور حاضرین کو خوش آمدید کہا۔ پاکستان ساگا کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کے ذریعے جس طرح سماجی مسائل سامنے لائے جاتے ہیں اسی طرح پاکستان کی خوبصورتی اور اس میں ہونے والے اچھے کاموں کو بھی عکس بند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس شعبہ کے ساتھ جڑے تمام نوجوان اور ان کا کام انعام کے مستحق ہیں۔
پاکستان ساگا کا پہلا انعام بشریٰ بی بی کو دیا گیا۔ وہ پشاور سے تعلق رکھنے والی اس حوصلہ مند لڑکی کی کہانی کو سامنے لائی تھیں بچپن میں جس کے دونوں بازو بجلی کرنٹ لگنے کی وجہ سے ضائع ہوگئے تھے، لیکن اس نے ہمت نہیں چھوڑی۔ زندگی دوسروں کی ہمدردی کے سہارے گزارنے کی بجائے اس نے اپنے بل بوتے پر جینے کا عزم کیا ۔اب وہ کالج میں زیرتعلیم ہے۔ لکھنے کا کام پاؤں سے لیتی ہے اور ہر کلاس میں اول پوزیشن لیتی آئی ہے۔
دوسری پوزیشن کے لیے امَر بلال کی ویڈیو کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس میں ایک خواجہ سرا ندیم کشش کی کہانی کو پیش کیا گیا تھا جو ایک ریڈیو پروگرام کے میزبان ہیں اور اپنی کمیونٹی کی بہبود وفلاح کے لیے کام کرتے ہیں۔ ندیم کشش خود بھی تقریب میں موجود تھے۔
تیسرا انعام عبداللہ ملک کی پیش کردہ پشاور کی کرسچن کالونی میں پچیس سال سے اپنے گھر میں عورتوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے والی ایک خاتون کی کہانی کو دیا گیا۔ یہ خاتون بلاتفریق ہر مذہب کی خواتین کو لکھنا پڑھنا سکھاتی ہیں۔ وہ اپنے گھر میں تعلیم کے ساتھ رواداری کا درس بھی دیتی ہیں۔
پاکستان ساگا کی طرف سے دو توصیفی وحوصلہ افزائی کے ایورارڈ بھی پیش کیے گئے۔ ان میں سے ایک سیالکوٹ سے سفر کرکے اسلام آباد آکر فٹبال سی کے اپنی فیملی کا خرچ اُٹھانے والی ایک خاتون کی کہانی کو دیا گیا جو علی حسن خواجہ نے پیش کی، جبکہ دوسرا انعام پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اقلیتوں کو اسلامیات کی مذہبی تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل کو بیان کرنے والی میمونہ ملک کی ویڈیو کے نام ہوا۔
تقریب میں کئی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی اور اختصار کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ جرمن سفارت کار اینڈریاز وٹز نے اس شعبے کے کام کو سراہا اور کہا کہ پاکستان میں پایا جانے والا تنوع اس کی سب سے بڑی خوبصورتی ہے جس کے تحفظ کی ضرورت ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی تشریف لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے اندر پاکستان میں غیرمسلموں، خصوصاََ مسیحیوں نے بہت اچھی خدمات فراہم کی ہیں جو لائق تحسین ہے۔ انہوں خواجہ سرا کمیونٹی کی الگ شناخت کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے پیش کردہ تعاون کا بھی ذکر کیا۔
سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا اپنی گفتگو میں کہنا تھا کہ ملک کی مجموعی صورتحال خوش آئند نہیں ہے۔ مسائل کا حل تو الگ چیز ہے ان کا ذکر بھی آسان نہیں۔ اب بہتری لانے کے لیے زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔
سینئر صحافی اویس توحید نے کہا کہ یہ شام ان نوجوانوں کے نام ہے جو معاشرے کے حقیقی مسائل اجاگر کر رہے ہیں۔ حالانکہ آج پاکستان میں حقوق اور رواداری کی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ جگہ اتنی سکڑ گئی ہے کہ یہ امور اب صرف ڈرائنگ رومز میں زیربحث آتے ہیں۔
تقسیم انعامات کی اس تقریب میں پاکستان کی نمائندہ لوک و کلاسیکل موسیقی کو پیش کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔
فیس بک پر تبصرے