موصل سےخلیج تک

934

کیا ابھی تک ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ جنگیں تباہی کی طرف ہی لے جاتی ہیں؟کیا موصل کے کھنڈرات اس بات کی گواہی کے لیے کافی نہیں ہیں؟

نائن الیون کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال نے مسلم دنیا کو جن مشکلات سے دوچار کیا ہے ان میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے،عرب بہار نے آکر جلتی پر تیل کا کام کیا،گزشتہ ہفتے عراق کے شہر موصل سے داعش کے خاتمے پر فتح کا جشن بھی منایا گیا مگر جشن منانے والے کرائے کے فوجی کیا جانیں کہ جس شہر میں چند ماہ قبل ہنستی بستی زندگی رواں دواں تھی اسے کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے بعد اور معصوم شہریوں کی لاشوں پر کھڑے ہوکر جشن منانے سے ان کے پیاروں پر کیا گزری ہوگی؟

مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ جشن کسی کامیابی پر نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی تباہی و بربادی پر جشن تھا اور اس بات کا عندیہ تھا کہ اب جشن منانے کے لیے نئی جگہ کا انتخاب کر لیا گیا ہے جہاں ایک مرتبہ پھر  بموں اور گولیوں کے ساز پر موت کا رقص ہو گا اور ایک اور آبادی ویرانے میں بدل جائے گی۔

میرا یہ خدشہ بے جا نہیں ہے،چند دن قبل ہی اسرائیل نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں  بتایا گیا ہے کہ  عرب بہار کے بعد اب خلیج بہار  کی تیاریاں کر لی گئی ہیں،اگرچہ بظاہر یہ صف بندی قطر کے خلاف ہے لیکن رپورٹ کے مطابق بحرین کو بزور طاقت خلیج سے الگ کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔کیا قطر اور خلیجی ممالک کا اچانک سے پیدا ہونے والا بحران اس کی دلیل نہیں؟ اور پھر اس پر اتنے بڑے پیمانے پر مصالحتی کوششیں اتمام حجت کے سوا بھی کوئی معنی رکھتی ہیں؟

یہ بحران اب پچاسویں روز میں داخل ہو گیاہے مگر تاحال افہام و تفہیم کی کوئی صورت نہیں ٍپیدا ہو سکی،خلیجی بحران کو حل کرنے کے لیے کئی عالمی طاقتیں میدان میں آچکی ہیں اور ہنوز ان کی بے سود   آنیاں جانیاں ٍ جاری ہیں۔

خلیجی ممالک میں سے کویت اور عمان فریقین کے درمیان مصالحتی کردار ادا کرنے کے لیے کوشاں ہیں،ادھر فرانس نے بھی مصالحتی کوششوں میں سہولت کار  بننے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں وائی ویسلی دریان نے  اپنے قطر کے دورہ کے موقع پر خلیج بحران کے حل کے لیے اپنے ملک کی جانب سے کویت کی مصالحانہ کوششوں کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہییں۔انھوں نے کہا کہ وہ  قطر اور چار عرب ممالک کے درمیان جاری بحران کے خاتمے کے لیے کویت کی ثالثی کی کوششوں میں معاونت کرنا چاہتے ہیں۔

فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا  کہ ’’فرانس کو قطر اور اس کے ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں اچانک بگاڑ پر گہری تشویش ہے اور اب فرانس ان تمام ممالک سے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کررہا ہے اور اب خاص طور پر وہ دہشت گردی کے لیے رقوم کی منتقلی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے گا۔

اس موقع پر ان کے قطری ہم منصب شیخ محمد بن عبدالرحمان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے اور اس کا تمام وزن کسی ایک ریاست کے کاندھوں پر نہیں ڈالا جاسکتا۔

لی دریان نے قطر اور سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے خلیج کے دورے کے پہلے مرحلے میں ہفتے کے روز دوحہ کا دورہ کیا ہے۔ انھوں نے امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے بھی ملاقات کی ہے اور اس کے بعد وہ سعودی عرب روانہ ہوگئے۔

ان سے قبل امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے کویت ،قطر اور سعودی عرب کا چار روزہ دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے دوحہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کی پشت پناہی اور مالی امداد بند کرتے ہوئے پڑوسی مملکوں کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے قیام کے لیے اقدامات کرے۔ انھوں نے بحران کے حل کے سلسلے میں متعلقہ ممالک کے عہدہ داروں سے بات چیت کی تھی لیکن ان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

 دوسری جانب حال ہی میں امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن کےخلیجی عرب ممالک کے دورہ سے واپسی پر سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قطر اور دوسرے عرب ممالک کے مابین جاری سفارتی تنازع پر تبادلۂ خیال کیا ہے جس میں اس مسئلے کے حل کے مختلف آپشنز زیرِ بحث آئے ہیں۔ دونوں رہ نماؤں نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور اس میں امریکا اور سعودی عرب کے کردار پربھی بات چیت کی۔

شاہ سلمان نے کہا کہ سعودی عرب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے اس کے مالی سوتوں کو خشک کرنا ضروری ہے۔

سعودی عرب کا موقف ہے کہ قطر دہشتگرد تنظیموں کو فنڈنگ کر رہا ہے،اور شاہ سلمان کا یہ بیان کے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اس کے مالی سوتوں کو خشک کرنا ضروری ہے قطر کے لیے جنگ کا واضح پیغام ہے۔کیا ابھی تک ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ جنگیں تباہی کی طرف ہی لے جاتی ہیں؟کیا موصل کے کھنڈرات اس بات کی گواہی کے لیے کافی نہیں ہیں؟ایسے کھنڈرات پر جشن منانے والے محب وطن نہیں کرائے کے فوجی ہوا کرتے ہیں۔

ہم نےماضی کی تاریخ سے تو کبھی سبق نہیں سیکھا،کیا آنکھوں کے سامنے لکھی جانے والی تاریخ بھی ہم فراموش کر دیں گے؟

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...