روایتی مذہبی تفہیم کا متبادل پہلو ایک ایسا ممکن الوجود امر ہے جس کی علامات یورپ میں، بالخصوص جرمنی میں ظاہر ہورہی ہیں۔ جرمنی جہاں پانچ ملین مسلمان بستے ہیں وہاں مسلمان باشندوں و مہاجرین نے ایک ایسی دینی تفہیم کی عملی بنیاد رکھی ہے جو شدت پسندی اور شناخت کے مسئلے سے نمٹتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ برلن کے مغربی علاقے میں واقع ایک چرچ ہے اور آج جمعہ کا دن ہے۔ دو لوگ چرچ کے اندر داخل ہوتے ہیں، دیوار کے ساتھ ایستادہ بڑی سی صلیب کے آگے دبیز پردہ کھڑا کرتے ہیں اور سکون کے ساتھ اس کے داخلی صحن میں سبز قالین بچھاتے ہیں، پھر آگے ایک جائے نماز رکھ کر قالین پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی قالین پر مردوں کے پیچھے خواتین کی قطار ہے، ان میں سے بعض کے سر پر دوپٹہ ہے جبکہ بعض نے اس کی ضرورت خیال نہیں کی۔ یہ چرچ کچھ دیر کے لیے مسجد بن گیا ہے۔ یہاں جعہ کی نماز ادا کی جائے گی۔
اس جمعہ کا خطبہ ادریس الجائی نے دیا۔ وہ مقامی زبان میں کہہ رہے تھے ’’ہم جرمنی میں رہتے ہیں، ہم پر لازم ہے کہ مذہب کی غیرشدت پسند مختلف تصویر کو سامنے لائیں۔ اسلام جمود کا مذہب نہیں ہے۔ ماضی گزر چکا۔ مستقبل کے لیے غورو فکر کریں۔‘‘ یہ ان اُن مساجد میں سے ایک ہے جہاں وہ مسلم آتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنی ہے۔ اس مسجد کی تاسیس ایک سابق سلفی عالم نے رکھی جو اب سب سلفیت چھوڑ چکے ہیں۔
جرمنی میں پانچ ملین مسلمان ہر روز اپنے گھروں میں دسترخوان پر جدید ماحول اور مذہب کے مابین مطابقت، شدت پسندی کے اثرات اور اپنی شناخت کے تعین پر گفتگو کرتے ہیں۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی بڑی تعداد عوامی مقامات پر اور یوٹیوب کے ذریعے اپنے اپنے انداز میں متبادل اسلام کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا دین رواداری اور توسع کو پسند کرتا ہے۔ یہ تعلیم یافتہ اور پراعتماد ہیں۔
ہوسکتا ہے اس نئے رجحان کی رفتار سست ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں رہنے والے تمام مسلمانوں کو مکل طور پہ تو متأثر نہ کرسکے لیکن اس کے مظاہر جرمنی کے تمام بڑے شہروں کی سڑکوں پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ گوٹینن یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کی استاد ریم شیلہاوس کہتی ہیں ’’یہاں پرورش پانے والی نئی نسل کی سوچ الگ ہے، انہں نے اس ماحول میں تعلیم حاصل کی اور یہاں کے ڈرامے و فلمیں دیکھتے ہیں۔ بڑی عمر کے افراد اور قدامت پسند اسلامی تنظیموں کے ساتھ ان کی چپقلش بھی ہوجاتی ہے۔ وقت کے ساتھ مذہب کی نمائندگی ان کے ہاتھ میں آجائے گی، تب بہت کچھ بدلا ہوا ملے گا‘‘۔
ریم ایک مسجد میں مدعو کی گئیں جہاں صحافی ان سے وہاں کے مسلم باشندوں کے بارے میں اس طرح سوالات کر رہے تھے جیسے وہ کسی اور ملک کا حصہ ہوں۔ اس نشست میں شناخت کی طبقاتی تفریق کی خلیج کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا تھا۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہر وقت تازہ ہے۔ ریم کہتی ہیں ’نوجوان جدید اسلامی تعبیر کی ترویج کی کوشش میں ہیں لیکن اس ساتھ مقامی دائیں بازو کی جماعتوں کا نقطہ نظر بھی مقبول ہے جو اسلام دشمنی کا قائل ہے، اس کے مطابق مسلمان ایسا گروہ ہیں جو خود کو حقیقت میں جرمنی کا حصہ نہیں خیال کرتے۔ اس نقطہ نظر کی مقبولیت مسلم نوجوانوں کے لیے چیلنج پیدا کر رہی ہے، بعض مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت مذہبی اساس پر قائم کریں۔ لیکن ہم نہیں چاہیں گے کہ اسلام کی تشریح روایت پسند کریں یا پھر مقامی دائیں بازو کی تنظیمیں۔ یہ تضادات سے بھرپور ایک مرحلہ ہے‘۔
’ہم مغرب یا اسلام میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بارے میں کیوں سوچیں۔ یہ کوئی ضروری شے نہیں۔ دراصل ان کے مابین کوئی تصادم ہے ہی نہیں۔‘
جرمنی میں متبادل اسلام کی سب سے الگ اور مشہور آواز لمیا قدور کی ہے۔ انہوں نے حال ہی میں برلن میں سامیت دشمنی پر ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔ وہ سخت سوالات کے جوابات مسکراتے ہوئے دے رہی تھیں۔ لمیا نے 9 سال قبل لبرل اسلامک ایسوسی ایشن کی قیادت سنبھالی تھی۔ وہ اپنا تعارف کراتے ہوئے کہہ رہی تھیں ’ہم عصرحاضر سے مطابقت رکھنے والے اور منطقی جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔ وہ فقہ سے متعلقہ مسائل جیسے عورت کے حقوق اورغیرمسلموں کے ساتھ نکاح وغیرہ کے حوالے سے مختلف تفہیم پیش کرتی ہیں۔ ان کی تنظیم میں خواتین ائمہ بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں بعض لوگ قدامت پسند کہتے ہیں جبکہ بعض ضرورت سے زیادہ جدت پسند کا طعنہ دیتے ہیں۔ لمیا نے جب لبرل اسلامک ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی تو ان پر بہت تنقید ہوئی، انہیں کہاگیا کہ وہ مسلمانوں کو تقسیم کر رہی ہیں، انہیں قتل کی دھمکیاں بھی ملیں۔ وہ ایک اسکول میں استاد تھیں، اپنے طلبہ کی حفاظت کے پیش نظر انہوں نے پڑھانا ترک کردیا۔
لمیا کے دو بیٹے ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ یہاں کے نوجوان کی شناخت کو اگر اعتماد نہیں دیا گیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔ ان کے سابق طلبہ میں سے پانچ نوجوان شام میں داعش کے ساتھ لڑنے چلے گئے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ دراصل شناخت کے بحران کی وجہ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’جرمن نوجوان دہشت گردوں کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں‘ میں ایک جگہ لکھتی ہیں: نوجوان سمجھتے ہیں اسی ایک راستے سے مسلمانوں کی مدد کی جاسکتی ہے، حالانکہ انہیں یہ علم نہیں کہ شام میں مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ جرمن حکومت کے ساتھ مسلمانوں کے مسائل پر بات چیت کی نمائندگی پہلے روایتی طبقہ کرتا تھا، اب ہم بھی اس کا حصہ ہیں۔
ربیعہ ملر ایک امام ہیں اور کولون میں واقع چرچ سے ملحقہ عمارت میں مسلم کمیونٹی کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے اب تک 250 نکاح بھی پڑھائے ہیں۔ وہ اپنے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام محض نظری افکار کا مجموعہ نہیں بلکہ ممکن العمل اور ہر ماحول کے لیے ہے۔ یہاں مختلف شناختوں کے لوگ بستے ہیں، ہمیں سب کی رعایت رکھنی ہے اور سب کا تحفظ کرنا ہے۔ اسلام کانفرنس سالانہ اجتماع ہے جس میں حکومت اور مسلم کمیونٹی کے مابین مکالمہ ہوتا ہے۔ اس سال پہلی مرتبہ ہم نے بھی حکومت کے ساتھ بات چیت میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔
’اسلام کانفرنس‘ میں اس بار تناؤ بھی دیکھنے کو ملا جب وزیر داخلہ نے خنزیر کے گوشت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ دینِ اسلام کا جرمنی سے کوئی تعلق نہیں۔ لبرل اسلامک ایسوسی ایشن کے نوجوانوں نے اس پر سخت احتجاج کیا جس کی وجہ سے کانفرنس کافی دیر تک تناؤ کا ماحول رہا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں اسلامی تشخص کا مسئلہ انتہائی سنجیدگی اختیار کرگیا ہے۔
Datteltäter ، یہ جرمنی میں مسلم آرٹسٹ نوجوانوں کا سب سے مشہور یوٹیوب پروگرام ہے۔ اس کی ویڈیوز حکومت ٹیلی ویژن پر بھی نشر کرتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ جرمن میڈیا پر مسلمانوں کی نمائندگی نہیں تھی اس لیے ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا۔ یہ نوجوان مسلم کمیونٹی میں بہت مقبول ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مغرب یا اسلام میں سے کسی ایک کے انتخاب کے بارے میں کیوں سوچیں۔ یہ کوئی ضروری شے نہیں۔ دراصل ان کے مابین کوئی تصادم ہے ہی نہیں۔ مسلمان اس طرح نہ سوچیں کہ وہ جرمنی میں نو وارد اور اجنبی ہیں۔‘ یہ نسل پرستی اور حجاب کے مسائل پر بھی پروگرام کرتے ہیں۔ اس کا اسلوب مزاحیہ اور ٹھنڈا ہوتا ہے۔
کرسٹیان اوہان ایک ہم جنس پرست ہیں۔ انہوں نے 2017 میں اسلام قبول کیا تھا۔ یہ ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ علم ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ایک تعداد ان کے پیچھے نماز ادا کرتی ہے۔
طہٰ صبری برلن کی دارالسلام مسجد کے امام ہیں۔ یہ اخوان المسلمون کے ساتھ تعلق کے شبہ میں کافی عرصے تک پولیس کی نگرانی میں رہے تھے۔ اب ان کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد نصوص ہیں۔ ان کی تاویل انسان اپنی فکر سے کرتے ہیں۔ لہذا یورپ میں مذہب کی تعبیر سہولت کے اعتبار سے الگ ہونی چاہیے۔ ڈیڑھ سال قبل اسی مسجد کے داخلی دروازے پر کھڑے ہو کر عبدالحکیم اورغی نے بلند آواز کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ وہ تشدد سے برات اختیار کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ ہماری فکر کے لوگ کتنے ہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ یورپ کے مسلمان شدت پسندوں سے بیزار ہیں۔
جرمنی کی 6 جامعات میں مسلم علما کے اشتراک کے ساتھ دینی تعلیم وتربیت کے پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن میں ائمہ اور مذہبی تعلیم دینے والے اساتذہ کی تربیت کا انتظام ہے۔
یہ منظرنامہ صرف جرمنی کا نہیں ہے بلکہ تمام یورپ میں یہ رجحان تقویت اختیار کر رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے وقت میں مذہب کی تعبیر کی نمائندگی ان نوجوانوں کے پاس ہوگی۔ صحافی زینب مسرار بیان کرتی ہیں کہ بہت سارے لوگ تذبذب کا شکار ہیں، لیکن وہ بہرحال تبدیلی چاہتے ہیں۔
مترجم: شفیق منصور، بشکریہ مجلہ الحیاۃ
فیس بک پر تبصرے