سانحہ گھوٹکی: مداوا یا مزید نفرت؟
ملک میں اقلیتیں مسائل کا شکار ہیں، یہ حقیقت ہے۔ موقع پا کر ان کی جان مال آبرو پر حملے کرنے والے فسادی افراد بھی سماج میں موجود ہیں، یہ بھی سچ ہے۔ لیکن ان کے دکھ اور ان کے خوف کی وجہ سے ان سے ہمدردی رکھنے والے بھی اسی سماج میں موجود ہیں، یہ بھی ایک حقیقت ہے اور یہ بھی کہ ان ہمدردوں کی تعداد ایسے فسادیوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے بھی انکا نہیں کیا جاسکتا کہ ہر سماج میں مثبت اور منفی رویے رکھنے والوں کے درمیان تناسب یہی ہوتا ہے۔ مثبت فکر اور رویےرکھنے والے بڑی اکثریت میں ہوتے ہیں جب کہ منفی رویے رکھنے والے نفرت کے نمائندے ایک قلیل اقلیت ہوتے ہیں۔ مگر حادثے برپا کرنے میں فسادی اس لیے کامیاب ہوتے ہیں کہ وہ منظم ہو جاتے اور گروہی اقدامات سے اپنا اثر نمایاں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ مثبت فکر اور رویے رکھنے والی اکثریت کوئی منظم گروہ نہیں ہوتے، پورے سماج میں بکھرے ہوتے ہیں۔ وہ اگر اکٹھے ہوں بھی تو حادثے کے بعد ہی ہو پاتے ہیں۔ ان کی تنظیمیں بھی ہوتی ہیں مگر مثبت رویے کے حامل اکثر لوگ عام روٹین کی زندگی بسر کرتے ہیں اور کسی تنظیم کے سرگرم رکن بننے میں عموما اتنے کوشاں نہیں ہوتے۔
سانحہ گھوٹکی کے متاثرین سمیت ملک کی دیگر اقلیتوں کے دکھوں کے مداوے کے دو طریقے تجویز کیے جا سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں کہہ دیا جائے کہ اس ملک سے چلے جائیں جہاں ان کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہیں ہے اور جہاں انہیں انصاف ملنے کی توقع بھی کم ہے۔ یا وہ اپنا علاقہ مخصوص کرالیں جدھر انتظامیہ ان کے اپنے لوگوں کی ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مثبت فکر رکھنے والے ہمدرد لوگ آگے آئیں۔ اپنے ہم مذہب فسادیوں کی مذمت کریں اور غیر مسلم اقلیتوں کا حوصلہ بڑھائیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں۔
پہلے طریقے کو ہم میں سے اکثر لوگ قبول نہیں کریں گے۔ اور یہ درست بھی ہے۔ کوتاہیاں ہیں تو انہیں درست کیا جانا چاہیے۔ اپنی زمین چھوڑ جانا یا اپنے ارد گرد دیواریں کھڑی کر کے محصور ہوجانا کوئی صحت مند حل نہیں۔ یہ دونوں طریقے فسادیوں کی فتح ہے۔
مسائل ہر سماج میں ہوتے ہیں۔ انسانیت کے محسن وہ ہوتے ہیں جو انسانوں کو کے درمیان پیش آجانے والی ان تقسیمات کو رفو کرتے ہیں، ان کے زخموں کے اندمال کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور انسانیت کے قاتل وہ ہوتے ہیں جو جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ان غیر مسلموں میں کو ئی قوم پرست علیحدگی پسندی کا بیج بو دے۔ اس بارے میں ہمارا ردعمل وہی ہونا چاہیے جو ایک قوم کی وحدت برقرار رکھنے والے بالغ نظر لوگوں میں ہوتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل کا حل علیحدگی میں نہیں بلکہ مسائل کو حل کرنے میں ہے۔ جس کے لیے قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے، بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کے اقدامات کرنے ہیں، اور نفرت کے منابع کو تعلیم اور قانون کی طاقت سے بند کرنا ہے۔
ہر دور کے بالغ نظر افراد اور زعما سماج کے مختلف دھڑوں میں در آنے والی ان تقسیمات کو اپنی مثبت فکر اور رویوں سے یوں ہی پاٹتے آئے ہیں اور ہر دور کے تنگ نظر، مفاد پرست سماج کے ان مثبت عناصر کے ساتھ مل کر ان کی کنڑی بیشن کو مضبوط کرنے کی بجائے، نفرت کے بیوپاریوں کی پیدا کردہ ان تقسیمات کو مزید وسیع کرتے اورانہیں خلیج بناتے آئیں ہیں۔ وہ ایسے حادثوں کو مزید حادثوں کو جنم دینے کا سبب بناتے رہے ہیں۔ وہ سماج کے مثبت عناصر کی ہمدردی اور سعی کو نظر انداز کر کے اقلیتی فسادیوں کو مخالف قوم کے مکمل نمائندے بنا کر نفرت کی بھٹیاں بڑھکاتے رہے ہیں۔
مسائل ہر سماج میں ہوتے ہیں۔ انسانیت کے محسن وہ ہوتے ہیں جو انسانوں کو کے درمیان پیش آجانے والی ان تقسیمات کو رفو کرتے ہیں، ان کے زخموں کے اندمال کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور انسانیت کے قاتل وہ ہوتے ہیں جو جلتی پر تیل چھڑکتے ہیں۔ سماج کے مثبت عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، مثبت رویوں کو شکست دیتے ہیں۔ یہ کھڑے تو فسادیوں کے خلاف ہوتے ہیں مگر درحقیقت یہ انہیں کا ایجنڈا پورا کرتے ہیں۔ انہین پہچانیے یہ اکثر قومی ہمدردی اور اس سے حاصل ہونے والے تقدس کے لبادوں میں چھپے ہوتے ہیں۔
فیس بک پر تبصرے