ٹریفک حادثے اور ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے
گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان کی فضا اِن دنوں سوگوار ہے۔ سکردو سے راولپنڈی جانے والی مسافر بس کو بابوسر کے علاقے گِٹی داس میں پیش آنے والے حادثے میں چھبیس قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ جاں بحق ہونے والے مسافروں میں خواتین، بچوں کے ساتھ ساتھ علما اور پاک فوج کے جوان بھی شامل تھے۔ جائے حادثہ سے نزدیک ترین ہسپتال چلاس میں ڈی ایچ کیو تھا جو ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حادثے کے بعد چالیس منٹ سے ایک گھنٹے بیشتر زخمی زندہ تھے۔ موقع پر پہنچنے والی ایک کوسٹر کے مسافروں نے بڑی مشکل سے چند زخمی مسافروں کوبس سے نکالا اور انہیں سڑک پر لٹا کر امداد کے منتظر رہے۔ بعد ازاں چلاس سے امدادی ٹیمیں جائے حادثہ پہنچیں۔ ریسکیو کے عمل میں تب تیزی آئی جب فورس کمانڈر میجر جنرل احسان محمود خان کی قیادت میں آرمی کی امدادی ٹیم جائے حادثہ پہنچی اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے زخمیوں کی منتقلی کا عمل شروع ہوا۔
بس حادثے کی وجوہات کی نشاندہی صحیح معنوں میں تب ہوگی جب معاملے کی تحقیقات کا عمل مکمل ہوگا لیکن کئی سوالات یقینا اٹھتے ہیں کہ کیا بس ٹیکنیکلی صحیح اور قابل سفر تھی؟ کیا ڈرائیور اتنے لمبے سفر کے لیے تیار تھا؟ کیونکہ اکثر مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ڈرائیوروں کو مسلسل سفر کے باعث نیند مکمل کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ جن روٹس پر پوری پوری رات سفر کرنا ہوتا ہے پر اکثر و بیشتر صبح کے وقت حادثات پیش آتے ہیں جب انسان پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آتا رہتا ہے کہ ایک خاص فاصلے تک گاڑی چلانے کے بعد ڈرائیوراسے اپنے ہیلپر کے حوالے کرتا ہے۔ بہرحال تحقیقات کے بعد صورت حال واضح ہوجائے گی۔ ابھی یہ مرحلہ ایسا ہے کہ اس اندوہناک حادثے میں جاں بحق ہونے والے مسافروں کے لواحقین کی اشک شوئی کے اقدامات کیے جائیں تاکہ ان کے بچوں اور فیملی ارکان کے دکھ میں کمی آسکے۔
ااِیسے حادثات کے آئندہ رونما ہونے کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی سے ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے تو حکومتی ادارے متحرک ہوجاتے ہیں اور چند دن گزرنے کے بعد پھر سے روایتی سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حادثے کے فوری بعد وزیر اعلی ٰحفیظ الرحمن دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ زخمیوں کی عبادت کے لیے ہسپتال پہنچے تو انہوں نے ایک بار پھر حکومت کے ِاس عزم کا اعادہ کیا کہ ٹرانسپورٹروں کو پابند بنایا جائے گا کہ وہ گاڑیوں کی فنی بنیادوں پر فٹنس کو یقینی بنائیں۔ ایسا نہ کرنے والے ٹرانسپورٹروں کو سروس چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو ہدایت دی جائے گی کہ وہ مسافروں کے انشورنس کرانے کے عمل کو یقینی بنائیں۔ وزیر اعلیٰ کے یہ عزائم یقینا حوصلہ افزا ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ یہ سب کچھ کرنا قانونی تقاضے نہیں اورکیا یہ قوانین ہمارے ملک میں پہلے سے ہی رائج نہیں ہیں۔ کیا گاڑیوں کی فٹنس اور ڈرائیوروں کے طبی طور پر فٹ ہونے کے عمل کو باقاعدگی سے چیک کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری نہیں؟ کیا یہ ادارے اپنی یہ ذمہ داریاں انجا م دے رہے ہیں؟
حکام کی غفلت، سستی اور مصلحت پسندی اپنی جگہ لیکن ان حادثات کے ذمہ دار خود عوام بھی ہیں کہ وہ ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کے عادی نہیں
اس الم ناک حادثے کے رونما ہونے کے بعد ذمہ دار اداروں سے منسوب یہ موقف میڈیا میں سامنے آر ہا ہے کہ کچھ عرصہ قبل معائنے کے دوران بعض کمپنیوں کی گاڑیوں کو فنی بنیادوں پر ان فٹ قرار دیتے ہوئے اُن کی سروس روک دی گئی مگر سیاسی دباؤ کے نتیجے میں اُن گاڑیوں کو پھر سے سڑکوں پر چلانے کی اجازت دے دی گئی۔ ایسی صورت حال میں مسافر گاڑیوں کے حادثات کے امکانات کوکم سے کم کرنے کا معاملہ صرف ایک معصومانہ خواہش ہی بن کر رہ جائے گی۔ چونکہ یہ بہت بڑا حادثہ تھا لہذا گلگت بلتستان محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور ڈپٹی کمشنر سکردو نے اپنے علیحیدہ علیحیدہ احکامات کے ذریعے تمام ٹرانسپورٹ کمپنیوں کو اپنی گاڑیوں کی ہر چھ ماہ بعد فٹنس اور پنڈی روٹ پر چلنے والی مسافرگاڑیوں کے لئے متبادل ڈرائیور کو لازمی قرار دیاہے۔ ڈپٹی کمشنر سکردو نے سکردو میں مشہ بروم ٹرانسپورٹ کمپنی کے دفتر کو سیل کرنے کے ساتھ اُسے اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے اور زخمی مسافروں کو معاوضوں کی ادائیگی کے احکامات دئے ہیں۔
حادثات کے امکانات کو کم کرنے کے لیے کئی اور بھی اقدامات ہوسکتے ہیں جن کا متعلقہ حکام ادراک رکھتے ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ عمل درآمد کے مرحلے پر وہ مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان حکام کی غفلت، سستی اور مصلحت پسندی اپنی جگہ لیکن ان حادثات کے ذمہ دار خود عوام کے رویے بھی ہیں کہ وہ ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کے عادی نہیں۔ اس وقت سکردو شہر پورے گلگت بلتستان میں ایسا شہر بن چکا ہے جہاں ٹریفک نظام بہت زیادہ گھمبیر ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ شہر میں گاڑی اور موٹر سائکل چلانے والوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ شہر میں کوئی سڑک ایسی نہیں ملے گی جس کے دونوں اطراف لوگوں نے گاڑیاں کھڑی نہ کر رکھی ہوں۔ چاہے گنجائش بھی ہو تب بھی سڑک پر اس پوزیشن پر گاڑی کھڑی کی جاتی ہے کہ اس سے دن بھر ٹریفک میں رکاوٹ پڑتی رہتی ہے۔ گاڑیاں چلاتے وقت ڈرائیورز بالخصوص موٹر سائکل چلانے والے کبھی بھی ٹریفک رولز کو فالو نہیں کرتے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا ٹریفک نظام کو رواں رکھنے کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ خود اپنی قیمتی جان کی حفاظت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
حکومت، انتظامیہ، ٹریفک پولیس اور میونسپل کارپوریشن شہر میں ٹیکسی سٹینڈ فراہم کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں جس پر ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب سکردو ایسا شہر بنا ہوا ہے جہاں جس شخص کا جب اور جیسے دل چاہے سڑک کو توڑ کر پانی کنکشن لگا لیتا ہے اور سڑک پر سپیڈ بریکر بنالیے جاتے ہیں۔ سپیڈ بریکر کے لیے متعلقہ اداروں سے اجازت لینے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ سپیڈ بریکر کے نام پر سڑک میں اونچی رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ جس کو عبور کرنا چھوٹی گاڑیوں کے لیے ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے۔ یہ جابجا بریکر ٹریفک میں رکاوٹ، گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ٹریفک حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ ان معاملات کا نوٹس لے۔
فیس بک پر تبصرے