پہلےسماج کو مذہب کی تعلیم دیجئے
پاکستان میں بہت بڑی تعداد دین کی اساسیات سے ناواقف ہے اور دین سے دور زندگی گزارتی ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی ایسا موقع ملے جس سے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرلیں اور آخرت میں سرخرو ہو جائیں
آج مجھے شام کے بچوں پر گرائے گئے زہریلے بم حملے پر کچھ لکھنا ہے نہ ہی مجھے پڑوس میں سب سے بڑے بم گرائے جانے پر کچھ کہنا ہے۔ میرا احساس تو آج اس مشال خان کی وجہ سے زخمی ہے جسے بدترین سفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔ عقل حیران ہے کہ کیا پڑھا لکھا سماج بھی درندگی کی اس حد تک جاسکتا ہے؟ کیا اس پورے ریوڑ میں (جانوروں کا ریوڑ بھی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتا اس لیے مجھے ریوڑ کا لفظ لکھتے ہوئے بھی جانوروں سے حیا آ رہی ہے) کوئی بھی ایسا نہ تھا جو اس ظلم کو لگا م دیتا؟ اور پھر ظلم کی انتہا یہ کہ اس ساری بربریت پر اللہ اکبر کی صدائیں؟ وہ اللہ جو کہتا ہے کہ جس نے کسی ایک انسان کی جان لی گویا وہ پوری انسانیت کے قتل کا مرتکب ہوا۔اور اس رسول کے نام پر جو مسلمان کی نشانی ہی یہ بتاتا ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں۔
بات یہاں بھی رکی نہیں،بلکہ ظلم در ظلم کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہا اور ایک بڑا طبقہ اس سفاکیت کی حمایت میں سامنے آ گیا اور روایتی انداز سے چونکہ چنانچہ،اگر مگر میں بحث کو الجھا دیا۔اسی اثناء وہ طبقہ بھی پیچھے نہیں رہا جس نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر مذہب کو لتاڑنا شروع کر دیا،یہ وہی طبقہ ہے جو اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب اسے موقع ملے زبان کھولنے کا اور دین بیزاری کی مہم چلانے کا۔حالانکہ اس طرح کے تمام واقعات کے پیچھے دین بیزاری کارفرما ہوتی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ دین اسلام تو کیا،کسی بھی مذہب میں اس طرح کی سفاکیت روا نہیں ہے تو پھر یہ کیسے فرض کر لیتے ہیں کہ ایسا دین کی وجہ سے ہوا؟ جس ناجائز فعل کا ارتکاب ہوا اس سے تو اسلام اور مذہب بری ہے پھر ایسے مجرمین کو مذہب کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے؟ کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش تو کیجئے کہ ہمارے ہاں کتنے فیصد لوگ دین سیکھتے ہیں؟یہاں پر بات دینی مدارس کی نہیں ہو رہی،کیونکہ اس طرح کا ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا جس میں مدارس کے لوگ ملوث ہوں۔جو بھی لوگ اس طرح کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں کبھی ان کی دینی سرگرمیوں کا جائزہ لیجئے، اکثر وہی ہوں گے جن کی دینی سرگرمی ہفتے بعد جمعہ کی نماز پڑھنے تک محدود ہوگی،پہلے لوگ عربی خطبہ کے وقت مسجد میں جایا کرتے تھے اب تو بات اس سے بھی آگے نکل گئی ہے اور عین اس وقت مسجد میں پہنچتے ہیں جب جمعہ کی نماز کھڑی ہو چکی ہوتی ہے۔
اس لیے پاکستان میں بہت بڑی تعداد دین کی اساسیات سے ناواقف ہے اور دین سے دور زندگی گزارتی ہے،یہی وجہ ہے کہ وہ یہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ کوئی ایسا موقع ملے جس سے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرلیں اور آخرت میں سرخرو ہو جائیں۔اس لیے ضرورت ہے دین کی طرف آنے کی، پوری زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنے کی۔
اپنے بچوں کو دینی مدارس میں بھیجنے والے کچھ والدین بھی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر بچوں کو مدرسہ بھیجتے ہیں تاکہ بچہ قرآن مجید حفظ کر کے اپنے والدین کا سفارشی بنے، پھر یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ صرف قرآن مجید کا حفظ کر لینا اگرچہ بڑا فضیلت والا کام ہے لیکن اس سے یہ سمجھ لینا کہ جس نے قرآن حفظ کر لیا اسے دین کی بھی سمجھ حاصل ہو گئی بہت بڑی غلطی ہے۔ دین کا فہم تو تب حاصل ہو گا جب عرب زبان سیکھ کر یا اپنی زبان میں دینی احکام کی تعلیم حاصل کی جائے، اس طرح دینی مدارس سے پڑھ کر نکلنے والی ایک بڑی تعداد بھی دین سے ناواقف ہی رہتی ہے چہ جائکہ وہ جنہوں نے کبھی سکول و مدرسہ کا کبھی منہ بھی نہ دیکھا ہو۔
پہلے سماج کو مذہب کی تعلیم تو دیجئے،اگر اسی طرح مذہب بیداری کی مہم چلتی رہی اور لوگ دین سے دور ہوتے رہے تو ظاہری امر ہے کہ دین کا فہم نہ ہونے کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات کم نہیں ہوں گے بلکہ ان میں اضافہ ہی ہو گا۔ اور ہم یونہی نوحے لکھتے رہیں گے۔
فیس بک پر تبصرے