پاکستانی جامعات میں دم توڑتی طلبہ سوسائٹیز
پاکستان کی جامعات میں 80 کی دہائی میں طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد صحت مند غیرنصابی سرگرمیاں ختم ہوگئیں اور رفتہ رفتہ اس کی جگہ فرقہ ورانہ، قوم پرست اور مذہبی تقسیموں نے لے لی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، بلکہ یہ تفریق ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ملک کی بڑی جامعات میں مذہبی اور فرقہ ورانہ فسادات میں کئی طلبہ کی جانیں بھی ضائع ہوچکی ہیں۔ طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد طلبہ سوسائٹیز کے ذریعے صحت مند غیرنصابی سرگرمیوں کو تھوڑا بہت فعال رکھنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ یہ سوسائٹیز ڈیپارٹمنٹ سطح پر بھی تھیں اور یونیورسٹی لیول پر بھی۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث یہ بھی کوئی بڑا کردار ادا نہ کرسکیں۔
ملک بھر میں منظور شدہ جامعات کی تعداد 206 ہے جن میں سے 124 سرکاری ہیں اور ان کے ذیلی کیمپسز کی تعداد 79 ہے- جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں جامعات کی تعداد 82 ہے۔ کم و بیش ہر یونیورسٹی میں کیمپس کی سطح پر طلبہ سوسائٹیز موجود ہوتی ہیں جن میں ڈرامہ، میوزک، میڈیا، آرٹس، شاعری سمیت ہر فن و صلاحیت کی پذیرائی کی کوشش کی جاتی ہے، مگر یہ سوسائٹیز اس طرح سے فعال نہیں ہیں جس کی ضرورت تھی۔ بیرون ملک دنیا کی بہترین جامعات میں طلبہ سوسائٹیز کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ ان میں کام کرنے والے طلبہ کو معاوضہ اور وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سوسائٹیز میں کام کرنے والے طلبہ کو بھگوڑے، نکمے یا ایسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے جس سے اُن طلبہ کو پڑھائی سے بھاگنے والا ثابت کیا جائے۔
سوسائٹیز جامعات کا روشن چہرہ ہوتی ہیں جو کیمپس میں مثبت اور غیر نصابی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے کیمپس کے تمام طلبہ کو جوڑے رکھتی ہیں۔ دراصل سوسائٹیز ہی کسی جامعہ کی بہترین ترجمان ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اول تو ان میں کام کرنے والے طلبہ کو حقارت اور بے عزتی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دوئم کیمپس کی سطح پر سوسائٹیز کو درپیش فنڈنگ کے مسائل اور سیاسی و مذبی پُشت پناہی کے حامل طلبہ گروپ کی طرف سے پیدا کردہ مشکلات اُن کے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
دراصل سوسائٹیز میں کام کرنے والے طلبہ اپنے اپنے فن کو بہترین طریقے سے پیش کرتے ہیں، جہاں وہ کیمپس سے باہر ہونے والے مقابلہ جات میں اپنی جامعہ کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں۔ وہیں پر ان کی پروفیشنل ٹریننگ بھی ہورہی ہوتی ہے۔ فراغت کے بعد ایسے طلبہ تھیٹر پلے، سنگیت کی دنیا، فن تقریر اور بڑی NGOs میں ملک و ملت کی خدمت کرتے ہیں۔ ان میں کام کرنے والے طلبہ باقیوں سے زیادہ منظم اور منفرد ہوتے ہیں۔ وہ بہترین انسان دوست ہوتے ہیں۔
سوسائٹیز کا غیر فعال ہوجانا جامعات میں نسل پرستی، جھگڑوں، اور فرقہ روانہ فسادات کو جنم دیتا ہے جبکہ سرگرم سوسائٹیز ایسے تمام واقعات کے سامنے اس لیے دیوار بن سکتی ہیں کیونکہ وہ کیمپس کے اندر اور باہر طلبہ کو اینگیج رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو سوسائٹیز کی ماں تصور کیا جاتا ہے جس میں ایسی بےشمار سوسائٹیز موجود ہیں جو طلبہ کی ذہنی، فکری، علمی اور عملی پرورش کرتی ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے شاعر، ادیب ، لکھاری، سیاست دان، مقرر اور دانشور اسی گورنمنٹ کالج کی سوسائٹیز سے گزرے ہیں۔
ادب کی پرورش، امن کے فروغ اور طلبہ میں سماجی کاموں کی دلچسپی پیدا کرنے کے ساتھ طلبہ سوسائٹیز ہی وہ واحد پیلٹ فارم ہیں جہاں کوئی بھی طالب علم اپنے مطلب کی سوسائٹی کو چُن کر اپنے فن کا عملی مظاہرہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کی بڑی جامعات میں اب بھی طلبہ سوسائٹیز بہترین طریقے سے اپنے کام کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں مگر جامعات میں انہیں متعدد مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مثلاََ ان سے منسلک طلبہ کو دوران امتحانات اس لیے فیل کردیا جاتا ہے کیونکہ وہ سوسائٹیز کے سرگرم کارکن تھے۔ تاہم اس کے برعکس مذہبی، سیاسی یا قوم پرست جماعتوں سے منسلک اور تفرقہ وبدامنی پھیلانے میں کردار ادا کرنے والے طلبہ کو کوئی فیل نہیں کرسکتا۔ انتظامی سطح پر ایسے طلبہ سے ڈرتے ہوئے ان کو امتحانات اور کلاس کی حاضری میں ریلیف مل جانا جب کہ جامعات کی ترجمانی کرنے والی، طلبہ کے ٹیلنٹ کو ظاہر کرنے والی اور غیرنصابی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے والی سوسائٹیز کے طلبہ کو کلاس حاضری کم ہونے پر کمرہ امتحان سے نکال دینا جامعات میں درپیش امن عامہ کے مسائل کی بڑی وجہ ہیں۔
ہمارے ہاں اول تو صحت مند غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے طلبہ کو حقارت اور بے عزتی کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ دوئم کیمپس کی سطح پر سوسائٹیز کو درپیش فنڈنگ کے مسائل اور سیاسی و مذہبی پُشت پناہی کے حامل طلبہ گروپ کی طرف سے پیدا کردہ مشکلات اُن کے راستے کی رکاوٹ بن جاتے ہیں
صحت مند معاشروں میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ سوسائٹیز کے لیے ایک مخصوص فنڈنگ رکھی جاتی ہے جس کے بعد طلبہ اپنی مدد آپ کے تحت ایونٹس کا انعقاد کرتے ہیں۔ فنڈنگ کے مسائل کی وجہ سے بہت سی سوسائٹیز اپنے ایونٹس سے دستربردار ہوجاتی ہیں ان ایونٹس میں کھیل کے پروگرامز، تقاریری مقابلے، شاعری کے مقابلے، تھیٹر ڈرامہ سمیت سیمنارز اور کانفرنسز کا انعقاد بھی شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں سوسائٹیز میں کام کرنے والے طلبہ و طالبات کو ہر طرح کے مسائل سے لڑنا پڑتا ہے جس سے ان کی پڑھائی کا حرج بھی ہوتا ہے اور ان کے گریڈز بہت کم آتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی سطح پر طلبہ سوسائٹیز اور ان کے ممبران کو کسی گنتی میں نہیں رکھا جاتا۔
ہائیر ایجوکمیشن پاکستان اور جامعات کے وائس چانسلرز کو چاہیے کہ وہ طلبہ سوسائٹیز کو فعال کرنے میں ہنگامی سفارشات مرتب کریں۔ سوسائٹیز کی فنڈنگز کو بڑھایا جائے اور سوسائٹیز و یونیورسٹی کے لیے بہترین کام کرنے والے طلبہ و طالبات کو یونیورسٹی کے کانووکیشن میں ڈگری کے ساتھ اعزازی رول آف آنر سے بھی نوازا جائے۔ دراصل موجودہ دور میں جامعات اور کیمپس کی سطح پر طلبہ سوسائٹیز کا کردار بہت اہم ہوچکا ہے۔ انہیں مکمل طور پر آزادی سے کام کرنے دیا جائے اور ہر یونیورسٹی میں ڈائریکٹوریٹ آف سٹوڈنٹس افئیرز کے شعبے کو مضبوط کیا جائے۔ پاکستان میں جامعات کی سطح پر طلبہ سوسائٹیز کو مضطوط کرنے کی آواز نہ کسی میڈیا چینل پر سنائی دیتی ہے اور نہ کسی بڑی میٹنگ میں اس کو ڈسکس کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو طلبہ کے مستقبل اور جامعات میں طلبہ سرگرمیوں کا توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس وقت 52 پاکستانی جامعات پر مشتمل انٹر یونیورسٹیز کنسورشیم فار دی پرموشن آف سوشل سائنسز کے پلیٹ فارم سے پاکستان بھر میں جامعات اور کیمپس میں طلبہ سوسائٹیز کو فعال کرنے اور مختلف جامعات کی طلبہ سوسائٹیز کو ایک جگہ پر اکھٹے جمع کرکے اُن کے درمیان غیر نصابی سرگرمیوں کی مقابلہ بازی اور فیس ٹو فیس ڈائیلاگز کروانے کے عمل پر کام شروع ہے اور اس سلسلے میں اب تک دو بین الااقوامی طلبہ کنونشن کا انعقاد بھی کیا جا چکا ہے جبکہ تیسرا بین الااقوامی طلبہ کنونشن 26 سے 29 اکتوبر کو کراچی میں کروانے کی تیاریاں بھی شروع ہیں جہاں ملک بھر کی جامعات کی طلبہ سوسائٹیز کے سرگرم طلبہ شریک ہوں گے۔ جبکہ بین الاقوامی مندوبین اور طلبہ بھی موجود ہوں گے۔ اس موقع پر کئی بڑی جامعات کے وائس چانسلرز کو بھی مدعو کیا گیا ہے جہاں طلبہ سوسائٹیز کو فعال کرنے پر بات چیت عمل میں لائی جائے گی۔
غیرنصابی سرگرمیوں کی فعالیت سے کیمپس میں موجود طلبہ ایک دوسرے سے اینگیج ہوں گے اور جامعات کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ طلبہ سوسائٹیز کسی بھی جامعہ کی پہچان ہوتی ہیں اور ان کا دم توڑنا دراصل جامعات کے دم توڑنے کے مترادف ہے۔ طلبہ اور نوجوانوں کے امور پر کام کرنے والی تنظیموں کو اس بارے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ چئیرمین آل پاکستان وائس چانسلرز کمیٹی و وائس چانسلر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر محمد علی سے جب اس بارے بات چیت کی گئی تو ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ طلبہ سوسائٹیز کو فعال کرنے اور اس عمل میں درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے تمام سفارشات کو جامعات کے وائس چانسلرز کے سامنے رکھوں گا۔ جبکہ طلبہ امور پر کام کرنے والے محمد مرتضیٰ نور، نیشنل کورآڈینٹر IUCPSS اس بارے پر امید ہیں کہ بہت جلد مختلف جامعات کی طلبہ سوسائٹیز کے لیے نیشنل سطح پر ورکشاپ اور کانفرنس کا انعقاد کریں گے جس میں سوسائٹیز کے صدور کو مدعو کرکے طلبہ کی بہتری کے لیے ورکشاپس منعقد کرائی جائیں گی۔ کچھ ایسا ہی ملتا جلتا موقف ڈاکٹر سہیل یوسف، صدر فیڈریشن آف آل پاکستان ایکڈیمیک سٹاف ایسوسی ایشن کا ہے۔ ان سے جب اس بارے بات ہوئی تو ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طلبہ سوسائٹیز کی بہتری کے لیے سفارشات کو پورے پاکستان کی فکیلٹی کے سامنے رکھیں گے۔ ہمیں ایسے ہی جذبے کی ضروررت ہے جو طلبہ کی صلاحیتوں کو مثبت اور تعمیری انداز میں استعمال کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
فیس بک پر تبصرے