جمعیت علمائےاسلام (ف)کی دوہری مشکل

899

جب جے یو آئی کے رہنما عسکریت پسندوں سے کہیں گے کہ وہ ان کی جماعت میں شامل ہوں تاکہ وہ اپنی منزل پرُ امن اور سیاسی جدو جہد کے ذریعے حاصل کر سکیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ اختلاف صرف حکمت عملی کا ہے جبکہ مشترکہ مقصد ایک ہی ہے ۔

جمعیت علمائے اسلام کا شمار برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین مذہبی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے۔اس جماعت نے اس پورے علاقے میں مذہبی اور سیاسی روایت پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ بر صغیر پاک و ہند میں عصر حاضر کی موجودہ مسلم شناخت  کی تشکیل میں بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔

پاکستان میں مولا نا فضل الرحمٰن کی قیادت میں  جمعیت علمائے اسلام کے دھڑے کو دیو بندی مکتب ِ فکر  اور جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی وراثت کا نگہبان تصور کیا جاتا ہے ۔یہ جماعت ہجری کیلنڈر کی مناسبت سے پشاور کے قریب  اپنے قیام کا صد سالہ جشن منا رہی ہے ۔ان سو سالوں کے دوران یہ جماعت کئی نشیب و فراز سے گزری ۔ متعددسیاسی اور مذہبی مزاحمتی تحریکوں میں شمولیت کے ساتھ ساتھ یہ جماعت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حصہ بھی رہی ہے۔

پاکستانی جمعیت علمائے اسلام نے اپنے ساتھی بھارتی دھڑے کے مقابلے میں مقامی حالات اور ماحول کے مطابق سیاسی میدان میں اپنی جگہ بنا لی ہے ۔تاہم اندرونی اختلافات  اورتقسیم کے باوجود یہ جماعت اپنی ساکھ اور روایت کو برقرار رکھنے میں  کامیاب رہی ہے ۔

عصرِ حاضر میں یہ جماعت نئے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ۔کئی لوگ اس سے توقع کرتے ہیں کہ ماضی میں اس نے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مل کر جو روایتی مذہبی مئوقف اور بیانیہ اختیار کیا اب اس پر نظر ثانی کرے ۔جمعیت علمائے اسلام اپنا صد سالہ جشن ،امن ،انسداد انتہا پسندی اور انسداد دہشت گردی کے پیغامات کے ساتھ منا رہی ہے ۔جماعت کے کارکنوں اور بہی خواہوں  کو توقع ہے کہ اس جشن میں عوام کے جم غفیر کی شرکت سے ملک کے مذہبی منظر نامے کی حرکیات بدل کر رہ جائیں گی ۔تاہم سوال یہ ہے کہ ایک جماعت کیسے اپنےتشخص اور ماضی سے  مکمل طور پر بری الذمہ ہو سکتی ہے ۔کسی کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں کہ جمعیت علمائے اسلام اس صد سالہ جشن کی تقریبات  کے ذریعے اگلے سال کے عام انتخابات کی مہم شروع کر رہی ہے ۔جماعت نے اپنی آخری انتخابی مہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے  مئوقف کی حمایت میں لڑی تھی ۔اس کے اپنے مخصوص حلقے اور حماتیوں کے علاقے ہیں جنہیں مدارس کے نیٹ ورک سے بھی مدد ملتی ہے ۔اس لئے جے یو آئی ف کےاشرافیہ کے خلاف مئوقف کو عوامی پزرائی نہیں ملتی لیکن یہ اپنے مذہبی ووٹ بنک کی ہمدردیاں ضرور حاصل کر لیتی ہے جو ریاست کی افغان ،داخلی سلامتی اور سیاسی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہے ۔

یہ ماحول سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد خاصا تبدیل ہوا ہے ۔دہشت گرد حملوں سے مذہبی حلقوں پر دباؤ بڑھا ہے جس میں نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن رد الفساد نے مزید اضافہ کیا ہے ۔تشدد اور انتہا پسندی کے خلاف آوازوں کی معاشرے میں حمایت بڑھی ہے ۔

وزیر اعظم جن کے بارے میں عمومی رائے یہی ہے کہ وہ دائیں بازو کی جماعت کی قیادت کرتے ہیں جس میں انتہائی دائیں بازو کے رجحانات بھی پائے جاتے ہیں انہوں نے بھی حال ہی میں مذہبی انتہا پسندی اور اس کے حمایتیوں کے خلاف دوٹوک یانات دیئے ہیں ۔مولانا فضل الرحمٰن نے  اپنی سیاسی حکمت عملی میں کچھ تبدیلی کی ہے ۔انہوں نے اپنی جماعت کے اندر غیر مسلموں کو بھی نمائندگی دی ہے۔ انہوں نے یورپی سفیروں سے اپنے خطاب میں بین المذاہب ہم آہنگی اور شدت پسندی کے خلاف خدشات کا اظہار کیا ۔انسداد دہشت گردی ، بین المذاہب اور فرقہ وارانہ  ہم آہنگی  کے حق میں اور  انتہا پسندی کے خلاف  وفاقی دارالحکومت کی شاہراہوں پر بینر آویزاں کئے گئے ہیں ۔جس سے یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جے یو آئی ف خود کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھال رہی ہے ۔

تاہم اس نئے مئوقف کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں جب تک یہ جماعت مذہب کی جبری تبدیلی ،برابر کے شہری حقوق(اقلیتوں سمیت )،عسکری بیانیہ سے مکمل علیحدگی اور دوسرے حساس مذہبی مسائل پر اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتی ۔

گزشتہ عام انتخابات سے قبل جے یو آئی ف نے دو انتخابی منشور جاری کئے تھے ۔انگریزی کا منشور جو غیر ملکی میڈیا اور سفیروں کو دیا گیا وہ  اپنی ہیئت میں مکمل جدید لگتا ہے ۔جبکہ اردو والا  منشور جوکہ عوام کے لئے ہے اس  میں  جہاد کی فرضیت اور تربیت کے ساتھ عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق سے متعلق  قدامت پسند خیالات کی عکاسی کی گئی ہے ۔یہ بات بھی لوگوں کو یاد ہو گی کہ 1999 میں مولانا فضل الرحمٰن نے امریکہ کے خلاف اور طالبان کے حق میں ایک بھر پور مہم چلائی تھی  جس کی وجہ سے انہیں ‘‘پاکستان کا بن لادن ’’کہا گیا جس پر وہ کبھی معترض نہیں ہوئے ۔

اب جے یو آئی ف کہتی پھرتی ہے کہ عسکریت پسندی کے اسباب ریاست نے مہیا کئے تھے ۔لیکن جماعت اس سے انکار نہیں کر سکتی کہ وہ ابھی تک بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ریاست کے‘‘ جہاد پراجیکٹ’’ سے فائدہ حاصل کر رہی ہے ۔ بلواسطہ اس لئے کیونکہ جہاد پراجیکٹ نے ملک میں مذہبی اداروں کے لئے ساز گار ماحول فراہم کیا اور  بلاواسطہ اس لئے کہ جماعت کو طالبان پراجیکٹ میں موئثر  پارٹنر شپ ملی  ۔

ایک عملی سیاستدان  کے نزدیک رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوتا ہے ۔جے یو آئی بھی آخر ایک سیاسی جماعت ہے اور وہ سیاست کی  نزاکتوں سے بخوبی واقف ہے ۔جے یو آئی کے رہنما کو کسی بھی دوسرے رہنما کے مقابلے پر  ملک کا سب سے زیرک سیاستدان مانا جاتا ہے جس نے اپنی جماعت کے لئے ہمیشہ زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کی ہیں ۔

یہ بات خوش کن ہے کہ جے یو آئی ف کی قیادت انتہا پسندی کے خلاف موجودہ سیاسی اور نظریاتی حالات کو اپنے لئے ایک موقع کے طور پر دیکھتی ہے ۔جس سے فائدہ اٹھا کر وہ عوام اور عالمی برادری میں اپنی ساکھ بنانا چاہتی ہے  اور اس کے ذریعے  اسے جے یو آئی ف سے وابستہ مذہبی اداروں کے خلاف ریاستی اقدامات میں بھی  چھوٹ مل سکتی ہے ۔

یہ خواہش غیر  حقیقی بھی نہیں ہے  اس سے  ان عسکریت پسندوں کی حوصلہ شکنی ہو گی جو اس طرف  راغب ہیں  لیکن وہ لوگ جو پہلے ہی شدت پسند ہیں وہ شاید یہ ترک کر کے جے یو آئی ف کاحصہ بننے پر آمادہ نہ ہوں۔جو لوگ تباہی کا راستہ منتخب کر چکے ہیں اور وہ مختلف  پُر تشدد نظریات کے پیرو کار بن چکے ہیں وہ ایسے  پیغامات کو خاطر میں نہیں لا ئیں گے ۔ ابھی یہ جائزہ لینا باقی ہے کہ اس طرح کے اقدامات عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جوابی بیانئے کے لئے کتنے سازگار ہو سکتے ہیں ۔

بھرپور فکری مدد کے بغیر اس قسم کی سیاسی پیش رفت سے کسی تبدیلی کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے ۔کیونکہ یہ بات عام ہے کہ دیوبندی مفکرین کی اکثریت بدلتے  ہوئے  سیاسی منظر نامے سے خوش نہیں ہے جو بڑی تیزی سے انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ہو  رہا ہے ۔وہ اپنے خیالات میں قدامت پسند واقع ہوئے ہیں اور وہ ان چیلنجوں سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتے جو انتہا پسندی اور دہشت گردی نے پید اکئے ہیں۔انتہا پسندانہ فکر  کے حوالے سے سب سے بڑا چیلنج  دہشت گردوں کے پُر تشدد اقدامات کی حمایت ہے ۔یہ فکر دور جدید کی قومیت پر مبنی شہریت کی نفی کرتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر ایک ملت ِ اسلامیہ کا تصور دیتی ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ یہ مذہبی جماعتیں ہی تھیں جنہوں نے محدود عالمی ویژن اور فرقہ وارانہ بنیادوں پرانتہا پسند تنظیموں کی بنیاد رکھی ۔ اس لئے جب جے یو آئی کے رہنما عسکریت پسندوں سے کہیں گے کہ وہ ان کی جماعت میں شامل ہوں تاکہ وہ اپنی منزل پرُ امن اور سیاسی جدو جہد کے ذریعے حاصل کر سکیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ اختلاف صرف حکمت عملی کا ہے  جبکہ مشترکہ مقصد ایک ہی ہے ۔

جے یو آئی ف ایک مخصوص  مکتب فکر کی جماعت ہے اس لئے اس کی انتخابی کامیابی کے امکانات بھی محدود ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فرقہ کئی شعبوں اور میدانوں میں بہت متحرک ہے تاکہ وہ ایک سماجی اور مذہبی معاشرہ قائم کر سکے ۔تاہم اس پیشکش کے فائدوں کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں ۔دیوبند کے بڑھتے ہوئے اثر رو رسوخ  سے جے یو آئی ف کے سیاسی دائرے  میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ جماعت کو  فرقے کی بنیاد پر قدامت پرستی اور شدت پسدندانہ حرکیات کا بار بھی اٹھانا ہو گا ۔ان حالات میں وہ یہ کیسے دعوی ٰکر سکتی ہے کہ وہ ترقی پسند اور جدت پسند جماعت ہے ؟

(بشکریہ ڈان ، ترجمہ : سجاد اظہر )

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...