ٹرک اورکارکایورپ میں بطوردہشت گردحکمت عملی میں بڑھتاہواکردار
ایک عام خیال یہ ہےکہ باروداوراسلحہ کے ذریعے حملوں کوروکناممکن ہے لیکن خاص کرٹرانسپورٹ کے ذرائع جیسے ٹرک، بس اورکارسے حملوں کوروکنا انہتائی دشوارہے۔
جدید تاریخ میں موٹرکارکوبم دھماکوں میں اس قدرزیادہ استعمال کیا گیاکہ امریکی مورخ مائیک ڈیوس نے اس پر Buda s Wagon: A Brief History of the Car Bomb کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ موٹرکاراوربارودی بم یہ دونوں ہی جدید زمانے کی پیداوارہیں۔ تقریبا 97سال قبل 1920میں اٹلی کے ایک انارکسٹ ماریوبوڈا(Mario Buda) نے اپنی ایک گوڑھاگاڑی (ویگن) کو ڈائمانامیٹ اورلوہے کے تیز دہاروالےٹکڑوں(اسکریپ) سے بھرا اورنیویارک کے وال اسٹریٹ میں دھماکہ سے اڑا ڈالاجس میں 40افرادلقمہ اجل بنے۔ تب سے یہ دہشت پسندوں کاایک پسندیدہ طریقہ ٹہرا۔
دہشت کے خلاف جنگ میں حکومتوں نے ہتھیاروں اوربارود کی نقل وحمل کوناممکن نہیں تومشکل ترضروربنادیاہے۔ یوں بارود کاحصول، کاراورخودکش حملے، پاکستان جیسے ملک کے برعکس مغربی ممالک میں کرنا کوئِی آسان عمل نہیں رہے۔ ناول نگار جارج ارول کا بگ برادر کی نگاہ ہروقت اورہردم آپکی نگرانی کررہی ہوتی ہے۔ نائن الیون کے بعد سے خاص کرغیریورپیافراد اورمسلمانوں کی نگرانی میں بہت اضافہ ہوا۔
ان حالات میں حالیہ برسوں میں بارود کے بغیر بڑے ٹرکوں اوریہاں تک کہ کار کے بطوردہشت گردی کے استمعال میں خاطرخواہ اضافہ ہواہے۔ ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے تیزی رفتارٹرک سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کی زدمیں روندا جائے اوریوں دہشت پھیلایاجائے۔
ٹرک اورکار کا یورپ میں بطوردہشت گردی کا ایک بڑھتاہوا رحجان بن گیاہے۔ اس کی ایک اہم وجہ تویہ ہے کہ ان کا حصول اوراستعمال دونوں ہی بہت آسان ہے۔ سات اپریل 2017کا اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیش آنے والا حالیہ واقعہ اس میں نیا اضافہ ہے، جب ایک ٹرک کے زریعے سےکم ازکم تین افراد کوکچل کرہلاک کردیا۔ حملہ کے لئے شہرکے ایک معروف بازارکوچناگیا۔ سہہ پہر تین بجے کوین اسٹریٹ پرپیدل چلنے والوں کو ٹرک سے کچل ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
ٹرک عموما نچلے درجے کے ملازمین چلاتے ہیں یوں انمیں زیادہ ترتارکین وطن کا ملوث ہوسکتے ہیں یاپھراس کواغواء اورچھیناجاسکتاہے۔ اسٹاک ہوم والے اس حالیہ واردات میں ایک ایسے ٹرک کواستعمال کیاگیاجوسامان تقسیم کرنے کے لئے صبح نکلاتھا۔ اس کوچوری کرکے اس واقعہ میں استعمال کیاگیا۔
گزشتہ ماہ مارچ کے آخری عشرے میں لندن میں پارلیمان کے باہرویسٹ منسٹرپل پرایک کارکے ذریعے سے راہگیروں کومارنے کی کوشش میں ایک عورت کوہلاک اورمتعدد کوزخمی کرنے کے ساتھ چاقوسے پولیس والوں پرحملہ ہوا۔ یہی نہیں حملہ آورایک پولیس والے کوچاقو سے نشانہ بنانے کی کوشش کی تودوسرے سپاہی کی گولی سے ہلاک ہوگیا۔
لیکن ٹرک کے ذریعے حملہ کا سب سے بڑا واقعہ فرانس کے شہر نیس میں 15جولائی 2016کوپیش آیا جس میں کئی بچوں سمیت86افرادہلاک ہوئے تھے۔ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شہرمیں قومی دن کی تقریبات منائی جارہی تھیں۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میںٹرک سے آتش بازی کامظاہرہ دیکھنے والوں کوکچلنے کوشش کی گئی۔ ہزاروں کی تعدادمیں لوگ رات گیارہ بجے کے قریب جب جشن منارہے تھے تو درجنوں افراد اس ناگہانی ٹرک حملے کی زد میں آئے۔
اس واقعہ کے بعد 19دسمبر2016کو جرمنی میں قصیرولیہم مموریل چرچ کے قریب واقع کرسمس مارکیٹ پرٹرک سے حملہ گیا جس میں 12افراد ہلاک اور56زخمی ہوئے تھے۔ حملہ آورتیونسی باشندہ انس آمری تھا۔ تیونس اورمصرجوفرانس کے قبضہ میں رہے، سے تعلق رکھنے والے بڑی تعدادمِیں فرانس میں رہتے ہیں۔ اس حملہ کی ذمہ داری داعشن نے قبول کی تھی۔
ایک عام خیال یہ ہےکہ باروداوراسلحہ کے ذریعے حملوں کوروکناممکن ہے لیکن خاص کرٹرانسپورٹ کے ذرائع جیسے ٹرک، بس اورکارسے حملوں کوروکنا انہتائی دشوارہے۔ ایک طریقہ توٹرانسپورٹ کوعوامی احتماعات سے دوررکھناہے۔ دیگرمیں رفتارکم کرنے اوررکاوٹوں سے روکنے یا رفتارکم کرنےکی تجاویزہیں۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ عمل خاص مواقع اورتقریبات میں توزیادہ موثرثابت ہوسکتاہے لیکن سال بھرکے تمام عرصہ کے لئے اسے روکناشائد ممکن نہ رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسکول اورمارکیٹوں کونشانہ بنانا ازحد آسان عمل ہے۔ اگرسیکورٹی اہلکارکوگاڑیوں پرنگاہ رکھنے پرمامورکیاجائے توسب سے زیادہ خدشہ یہ پیدا ہوتاہے کہ ان پرہی حملے ہوں گے۔
یہ توواضح ہے کہ ٹرانسپورٹ کے ذرائع کا بطوردہشت گردی کے استعمال دراصل ریاستوں کی طرف سے انٹرنیٹ کے مواد کی بڑھتی ہوئی نگرانی بھی ہے جس کے ذریعے سے بم بنانے کے طریقے حاصل کئے جاتے تھے۔ دوسرااہم وجہ دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود، بیرنگ اورلوہے کے تیزدہاروالے ٹکڑوں کاحصول ہے۔ ان مشکلات پردوسرے طریقے سے قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یوں اب نہتے افرادکی طرف سے محض ایک معمولی کوشش کے ذریعے سے ٹرک، بس یا کارکاحصول ہے ۔اوراس میں سب سے معاون وہ صورتحال ہوگی جس میں سب ایک ہی ڈرائیورسے سابقہ پڑتاہوجس پرپہلے حملہ پرآمادہ دہشت گردکے لئے قابوپانے میں مشکلات بھی کم پیش آتی ہیں۔ اب تک جتنے بھی ٹرک یا کارسے حملے ہوئے ہیں ان میں عموماایک ہی حملہ آورپایاگیا۔ یوں یہ خودکش حملوں سے یوں ملتاجلتاعمل ہے کہ اس میں ایک ہی فرد عمل کرتانظرآتاہے۔ مگراس کے لئے پہلے سے کوئی بہت بڑی تیاری بھی نہیں کرنی پڑتی۔ خودکش حملوں میں استعمال ہونے جیکٹ اورا سکی تیاری کے لئے خاص درجے کی مہارت، سامان کے علاوہ حملے کے مقام تک پہنچنے کے لئے سہولت کاروں کی معاونت بھی ضروری ہے۔ لیکن ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع کوبروئے کارلاکراس کے ذریعے سے حملوں میں، بارود کے استعمال ہونے حملے کی بہ نسبت بہت سارے عوامل کی ضرورت نہیں پڑتی۔اس لئے ایسے حملوں میں کوئی زیادہ کورآدنیشن کی بھی زیادہ ضرورت بھی محسوس کی نہیں کی جاتی۔ اورسب سے اہم یہ ہے کہ یہ اب تک شائد دہشت گردی کی وارداتوں میں سب سے سستا ذریعہ بھی ہے۔ اس پربمشکل سے کوئِی زیادہ خرچ نہیں ماسوائے اس کے کہ کسی طرح ڈرائیورپرقابوکی حکمت عملی کامیاب ہو یا گاڑی کوکامیابی سے آغواء کرکے کسی ہجوم کونشانہ بنانے کی کوشش کی جائے۔۔ اوریہی نہیں اس کے ذریعے کئی درجن افراد کی ہلاکت بھی ممکن ہے،جیساکہ نیس، فرانس کے واقعہ میں 86افراد ہلاک ہوئے۔ یوں پورپ میں ایسے واقعات میں اضافہ کارحجان دیکھنے میں آرہاہے۔ ٹرانسپورٹیشن سے دہشت گردی کی واردات کاربم جسے غریب آدمی کی ائیرفورس” کہاگیاسے بھی سستا ترین دہشت گردی کا ہتھیارہے۔ لیکن شائد جس طرح کی بربادی اورنقصان بارود سے بھرے ہوئے کاریا ٹرک سے ہوسکتاہے وہ ایک خالی ٹرک سے ہونے والے حملہ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ ظاہرہے بارود،چھروں اورلوہے کے ٹکڑوں کے استعمال سے ہونے والے حملوں سے زیادہ نقصانات کے امکانات کہیں بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن کسی جشن اورمارکیٹ میں شاپنگ میں مصروف بے خبرچلنے والوں کوتیزرفتارسے ٹرک سے کچلنے سے کافی جانی نقصان ہوسکتاہے۔ اس کاانحصاراس پرہے کہ سیکورٹی کے ادارے کس قدرتیزی سے ٹرک ڈرائیورکوروکنے یا نشانہ میں کامیاب ہوتے ہیں، یاحواس باختہ دہشت گردی کسی عمارت سے کتنی مہارت سے گاڑی بچانے میں کامیاب ہوتاہے۔ اس میں سب سے اہم گاڑی چلانے والے دہشت گردکااپنے حواس اورگاڑی اوراس کی رفتارپرقابو اورسیکورٹی کے اداروں کے ممکنہ ردعمل کے دوران پائی جانے والے امورپربھی ہے۔ ان سے جانی ومالی نقصانات میں کمی زیادتی پراثرپڑتاہے۔
ٹرک، بس اورکارکے ذریعے کہیں بھی بازار،اسکول اوریہاں تک کہ بس کے انتظارمیں کھڑے افراد کونشانہ بنانا چنداں مشکل نہیں۔ اس لئے ایسے حملوں کی روک تھام سیکورٹی اداروں کے لئے ایک بہت ہی بڑاچیلنج بن گیاہے۔
فیس بک پر تبصرے