بلتستان میں مذہبی سیاحت کے مواقع

1,384

قدرت نے بلتستان کو جہاں دیگر بے پناہ خوب صورت مناظر سے نوازا ہے اور وہاں موجود بلند و بالا چوٹیوں کے باعث یہ خطہ دنیا بھر کے سیاحوں، کوہ پیمائوں اور مہم جوؤں میں مقبول ہے۔ اس کے ساتھ خطے میں مذہبی سیاحت کے بھی بڑے مواقع موجود ہیں۔ یہ سر زمین مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کی حامل قومیتوں اور مذاہب کے پیروکاروں کا مرکز رہی ہے۔ بلتستان میں اسلام کی آمد سے قبل چودھویں صدی عیسوی تک بدھ مت کے پیرورکا ر بستے تھے۔ بدھ مت ثقافت لگ بھگ ساتویں صدی کے آخر میں یہاں پہنچی جو چودھویں صدی میں اشاعت اسلام تک یہاں رائج رہی۔ ہندو ازم اور سکھ مذہب  کے آثار یہاں جابجا پھیلے ہوئے ہیں جن میں کئی اہم آثار آج بھی  بلتستان کے کئی مقامات پر موجود ہیں۔

بون ازم کے آثار

بلتستان میں بدھ مت سے پہلے صدیوں تک بون مذہب رائج رہا جس کے آثار آج بھی بلتستان میں جا بجا موجود ہیں۔ بون مذہب کی زیادہ تر حکایات سینہ بہ سینہ روایات کی صورت میں موجود ہیں، یہاں کی رسومات پر بون ثقافت کے گہرے اثرات ہیں۔ اس مذہب کے روحانی پیشوا ہلافو کیسر کی کہانی یہاں کی سب سے طویل اور مقبول رزمیہ کہانی ہے۔ بلتستان کے چاروں اضلاع کے پہاڑوں پر جابجا انسانوں اور جانوروں کی اشکال بنی ہوئی ہیں جو بون مذہب کی تہذیب و تمدن کی عکاسی کرتی ہیں۔ بلتستان میں مختلف مقامات پر بون مذہب کے آثار پہاڑوں پر بھی مختلف نقش و نگار کی صورت میں موجود ہیں۔ اس کے لیے مہدی آباد، کھرفق گانچھے، نر، دم سم اور سلینگ کے علاقے قابلِ ذکر ہیں۔

بون ازم کے آثار

منٹھل راک

سکردو منٹھل میں واقع بدھ مت کے موجود آثار بدھ ازم کی نادر اور نایاب باقیات میں سے ایک ہیں۔ یہ پتھر سکردو سے جنوب کی جانب تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بدھا راک سے موسوم اس بڑ ے پتھر پر مکمل دربار کی صورت میں بیٹھے کئی بدھا کی تصاویر کندہ ہیں۔ بڑا بدھا درمیان میں بیٹھا ہے جس کے دائیں بائیں دو بدھا کھڑئے دکھائے گئے ہیں جبکہ اطراف میں مزید 20 بدھا دربار کی صورت میں بیٹھے ہیں۔ چاروں طرف بیٹھے بدھا کنول کے پھول پرآلتی پالتی مارے بیٹھے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔ اس دربار میں مرکزی تصویر گوتم بدھ کی ہے۔ بدھا راک اس حوالے سے منفرد ہے کہ اس طرح مکمل دربار کی صورت میں موجود اس نوعیت کا پتھر کہیں اور موجود نہیں ہے۔ اس طرح کے دربار کو منڈلہ کہا جاتا ہے جو ان کے عقیدے کے مطابق کائنات کا علامتی نمونہ ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ1000عیسوی سے پہلے کا ہے اور بدھ مت عقیدے کے مطابق یہ بدھ کے مختلف جنموں کی تصویریں ہیں۔ تصویروں کے ساتھ قدیم تبتی زبان میں عبارات بھی کندہ ہیں۔ اس مقام کی زیارت کے لئے دنیا کے مختلف حصوں سے عقیدت مند صدیوں سے آتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

منٹھل راک

بدھ راک لمسہ شگر

شگر وادی کے ابتدائی گاؤں لمسہ میں بھی ایک بڑی چٹان موجود ہے۔ اس میں ایک بڑا بدھا اور اس کے دائیں بائیں دو قدرے چھوٹے سائز کے بدھا  دکھائے گئے ہیں۔

بدھ راک لمسہ شگر

سکھ گردوارہ

1840 میں میں ریاست بلتستان کی قومی حکومت کے خاتمے کے بعد سکردو میں بڑی تعداد میں سکھ اور ہندو مذہب کے پیروکار کشمیر سے بغرض کاروبار و ملازمت کے بلتستان میں مقیم ہوئے۔ سکردو میں مقیم سکھ مذہب کے پیروکاروں نے شہر کے وسط میں گنگوپی نہر کے ساتھ ایک گردوارہ تعمیر کیا۔ یہ گردوارہ دو منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ 1947-48 کی کامیاب جنگ آزادی کے نتیجے میں یہاں سے ڈوگرہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ گردوارہ اب استعمال میں نہیں اور حوادث زمانہ کے باعث اب یہ عمارت بہت ہی خستہ ہو چکی ہے بلکہ اب اس عمارت کے صرف آثار باقی ہیں۔ اسی طرح سکھ دور کے کچھ آثار بلتستان میوزیم میں بھی محفوظ ہیں جن میں گور مکھی اور شاہ مکھی رسم الخط میں تحریر پر مبنی سنگ ِ مرمر کی لوح موجود ہے جو 1886 میں سکھ گردوارہ سکردو میں نصب تھی۔ سکردو شہر میں واقع چھاؤنی کے ساتھ ماضی میں موجود ہندو مندر کی باقیات بھی بلتی میوزیم سکردو میں محفوظ ہیں۔ یوسف حسین آبادی کی بلتی میوزم میں بدھ ازم کے دور کی بہت ہی نایاب اور نادر شے پتھر کی ایک مورتی کی صورت میں موجود ہے۔ پتھر کے ایک طرف کالی ماتا کی تصویر کندہ ہے تو دوسری طرف ایک خنجر کی شکل کے ساتھ براہمی زبان میں ”ادے” کندہ ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مورتی پانچویں یا چھٹی صدی عیسوی کی ہے۔ میوزیم میں پتھر کا بنا دروازے کے فریم کا ایک حصہ بھی ہے جس پر بلتی(اگے) رسم الخط میں عبارت تحریر ہے جس میں اس وقت کے بادشاہ جس نے اس گومپا کی تعمیر میں تعاون کیا تھا، کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ میوزیم میں پیتل کی بنی ایک گھنٹی بھی ہے اس پر بھی ”اگے” میں تحریر کندہ ہے۔ یہ وہ گھنٹی ہے جسے گومپا مخصوص ذکر پڑھتے ہوئے ہلاتے تھے۔

سکھ گردوارہ

خوبانی ، چیری اور بادام کے’متبرک’ پھول

گلگت  بلتستان میں خوبانی ، چیری اور بادام کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ہر سال مارچ اور اپریل کے مہینوں میں ان درختوں پر پھول لگتے ہیں ۔ کیونکہ ان درختوں کے پھول بہت سارے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے بہت ہی متبرک ہیں لہٰذا ہر سال جاپان، ہانگ کانگ اور کوریا سمیت کئی ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح  اسی سیزن میں  بلتستان کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ تا حدِنگاہ لگے درختوں پر لدے پھولوں کا نظارہ اور زیارت کر کے روحانی تسکین حاصل کر سکیں۔

موئے مبارک

کھرمنگ میں پرانے انٹھوک کھر کے قریب واقع  ٹیلے پر محلہ سادات والوں کی مسجد میں ایک خاص صندوق میں موئے مبارک موجود ہے۔ 1653سے 1685 تک کھرمنگ پر شیر شاہ کی حکمرانی تھی۔ اس دور میں کشمیر سے ایک بزرگ فقیر کھرمنگ میں وارد ہوئے۔ وہ اپنے ساتھ یہ موئے مبارک لائے تھے۔ موئے مبارک ایک چھوٹی سی چاندی کی ڈبیا میں موجود ہے۔ یہ ڈبی لکڑی کے دو سے تین صندوقوں کے اندر موجود ہے اور یہ صندوق کئی تہوں پر مشتمل کپڑے کے غلاف میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ یہ موئے مبارک جب سے یہاں پہنچا ہے کبھی بھی اسے زیارت کے لئے نہیں کھولا گیا ہے۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ جب ایک بار ان صندوقچوں کو کھولنے کی کوشش کی تو بہت زیادہ طوفانی ہوائیں چلیں تو اسے کھولنے کا ارادہ ترک کردیا۔ اس موئے مبارک والی مسجد میں دور دراز سے لوگ اپنی حاجتیں لے کر آتے ہیں اور اس مسجد اور موئے مبارک کے متولی سادات یہاں مجلس عزا بپا کرکے دعا مانگتے ہیں اور لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں۔

چقچن مسجد

ضلع گانچھے کے مرکزی قصبہ خپلو میں چودہویں صدی عیسوی میں تشریف لانے والے اسلام کے اولین مبلغ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے ہاتھوں  بنائی گئی تاریخی مسجد چقچن اب بھی اصل حالت میں موجود ہے۔ گمبہ سکردو خانقاہ معلی کے بارے میں بھی یہ مشہور ہے کہ اس خانقاہ کی بنیاد بھی امیر کبیر سید علی ہمدانی نے رکھی ہے۔ شگر میں مسجد امبوڑک اور مسجد چھہ برنجی بھی امیر کبیر سید علی ہمدانی کے دور میں ان کے ہمراہ آئے ہوئے ایرانی معماروں نے تعمیرکی اور یہ انہی کے آثار میں سے ہیں ۔ مسجد امبوڑک کو اس کی شاندار طرز تعمیر کی بنیا د پر قومی ورثہ کا درجہ حاصل ہے اور یونیسکو نے سال 2005میں اس مسجد کو منفرد ہونے کے باعث ایوارڈ سے نوزا۔

مقبرے
بلتستان میں کئی بزرگوں کے مقبرے بھی تاریخی اعتبار سے بہت ہی مشہور ہیں۔ لگ بھگ ساڑھے چار سو سال قبل تین سادات براداران دینی تبلیغ کے لئے تشریف لائے، ان میں سے ایک بھائی سید علی طوسی کا آستانہ کواردو میں موجود ہے جو گیارویں صدی ہجری میں بغرض دینی تبلیغ  بلتستان تشریف لائے اور پوری عمر یہاں گزاری اور 1081ھ میں یہاں فوت ہوئے اور کواردو میں مدفون ہیں۔ ان کے ایک بھائی سید محمود کا آستانہ کشو باغ سکردو شہر میں جبکہ سید حیدر علی کا آستانہ قمراہ میں موجود ہے۔ تھگس ضلع گانچھے میں ایک تاریخی مسجد ہے جو 1603عیسوی میں سید علی و سید ناصر طوسی نے تعمیر کروائی تھی۔ میر عارف کی تعمیر کردہ خانقاہ بھی تھگس میں ہے۔ میر مختار کی تعمیر کردہ خانقاہ معلی کریس میں اب بھی کافی اچھی حالت میں ہے۔ میر مختار 1132ھ میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے ان کا مقبرہ کریس میں ہی ہے۔ یہ تمام عمارتیں مخصوص طرز تعمیر کے باعث دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔

اسد مجالس

سکردو میں صدیوں سے محرم الحرام کے علاوہ شمسی کلینڈر کے اعتبار سے ماہ اسد کی یکم سے لے کر دس تاریخ تک شہدائے کربلا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے مجالس عزا منعقد کی جاتیں ہیں۔ جو عیسوئی کیلنڈر کے اعتبار سے23 جولائی سے یکم اگست کی تاریخ بنتی ہے۔ یہ مجالس محرم کی طرح اسی ترتیب سے منائی جاتی ہیں۔ محرم میں دنیا بھر میں مجالس عزا منعقد ہوتی ہیں۔ البتہ ماہِ اسد میں صرف  بلتستان میں ان مجالس کا انعقاد کیا جایاتا ہے جس میں شرکت کے لئے نہ صرف گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع بلکہ ملک کے اور شہروں سے بھی بڑی تعداد میں لوگ حاضر ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور آمد و رفت کے ذرائع میں سہولتوں اوراضافے کے ساتھ  بلتستان میں اسد عاشورہ کے دوران ملک اور بیرون ملک سے شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

دیگر آثار

میوزیم میں بلتستان کے پہلے اسلامی مبلغ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے زیر استعمال رہنے والا عصا موجود ہے جبکہ امیر کبیر کے استعمال میں رہنے والے دو عصائے مبارک فرانو گانچھے میں، جبکہ ان کا ذاتی کٹورا بھی خپلو میں ایک شخص کے پاس موجود ہے۔
سکردو میں 1800کے لگ بھگ تعمیر ہونے والی امام بارگاہ جو امام بارگاہ کلاںکے نام سے مشہور ہے، شہر کے وسط میں قائم ہے۔ یہ قدیم امام بارگاہوں میں سے ایک ہے جس میں  بلتستان کے آخری تاجدار احمد شاہ مقپون مجلس عزا میں شریک ہوتے رہے۔
سکردو میں بغرض تبلیغ تشریف لانے والے نامور مبلغ سید طوسی کا عصا اور مبلغ اعظم کا خطاب پانے والے آغا سید شاہ عباس کا ذاتی آفتابہ بھی بلتی میوزیم کی زینت ہیں۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...