مذہبی جماعتیں اور شناخت کی سیاست

693

مسلم دنیا کی مذہبی سیاسی جماعتوں کے اندر ماضی قریب سے ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ہے کہ وہ اب اپنے عوامی بیانیوں میں پہلے کی طرح نفاذشریعت کا مطالبہ نہیں کرتیں، کم ازکم اس اسلوب میں نہیں جیسے کچھ عرصہ پہلے تک کرتی آئی ہیں۔ سیاسی اسلام کی ایک مخصوص زبان جس کا محور حاکمیت، جاہلیت جدیدہ، امربالمعروف ونہی عن المنکر، ارتداد، حدود، استعمار وغیرہ جیسی اصطلاحات تھیں، اب ان کا استعما ل کم ہوگیا ہے۔ اس رجحان کے تشکیلی جائزے کے دو عنوان ہیں۔

یہ مابعد سیاسی اسلام کا مرحلہ ہے۔

اور محترم خورشیدندیم کے الفاظ میں فرقہ واریت کی تشکیل جدید ہو رہی ہے۔

مابعد سیاسی اسلام کی چونکہ ایک تعریف اور شکل متعین نہیں ہے اس لیے فرقہ واریت کی تشکیل جدید کو اس کی ایک تعبیر شمار کیا جاسکتا ہے۔خورشیدندیم صاحب کے مطابق فرقہ واریت کی تشکیل جدید کا مطلب اسلام کے اندر کی گروہی کشمکش سے نکل کر مذہبی طبقہ بمقابلہ سیکولرزم یالبرل ازم کی لڑائی کا شروع ہونا ہے۔

یہ ایک جامع تصور ہے۔ ویسے تو اب بھی مذہبی بمقابلہ سیکولرزم کشمکش کے ذیل  میں سیاسی اسلام کی مخصوص زبان اور اس کی اصطلاحات ذہن میں آتی ہیں اور مذہبی سیاسی لٹریچر بشمول قدیم وجدید،اسی پر دلات کرتا ہے، لیکن ان جماعتوں کا عملی پیرایہ اور طرزعمل مختلف صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کو یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ فریقین کے ایک ہونے کے باوجود کشمکش کی نوعیت اور طرزواردات میں تبدیلی آئی ہے۔

یہ تبدیلی کیا ہے؟ اس کے لیے کوئی دوٹوک عنوان قائم کرنا تو شاید مشکل ہو لیکن یہ تقریباََ وہی مظہر ہے جس کا ذکر اولیور رائے نے یورپ کے دائیں بازو کے پاپولسٹوں کے تناظر میں کیا ہے۔ کہ یورپ میں مذہب کی واپسی تشریعی اور مسیحی احکامات کے ضمن میں نہیں ہے بلکہ یہ سیاسی اور شناخت کی حد تک ہے۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال اسلامی جماعتوں، بلکہ تمام مذاہب کی ہوگئی ہے۔ مسلم دینی جماعتوں کے تناظر میں اسباب وہ نہیں ہیں جو یورپین معاشرے کے ہیں۔ ہمارے ہاں اسباب کچھ داخلی ہیں اور کچھ خارجی جن میں تاریخی جبر قدرمشترک ہے جس نے جماعتوں کو اس طرف دھکیلا ہے۔

مذہب وسیاست کے تعلق کی فکر جس طرح بنیادی طور پر نفاذشریعت کا احاطہ کرتی ہے بالکل اسی طرح شناخت وتشخص کے تحفظ کی یقین دہانی کے خیال کو بھی اپنے دائرے میں لاتی ہے۔ مذہب وسیاست کے تعلق کے فکر اب بھی باقی ہے لیکن اپنی پہلی جہت کو نظرانداز کرنے کے ساتھ دوسرے پہلو کو نیا جامہ پہناتی ہے۔

یہ تشخص بیک وقت جمہوری ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہے، اور اثرات کے اعتبار سے پاپولسٹ بھی ہے اور فرقہ وارانہ بھی

پچھلے ایک سوسال تک مسلم شناخت کی حیثیت مزاحمتی (resistince identity) رہی ہے۔ سیاسی اسلام کا سارا معاشرت وریاست کا بیانیہ استعمار کے ردعمل میں تشکیل دیاگیاتھا۔ اب جس طرح مغرب (استعمار) کا زاویہ نظر مسلم دنیا کے بارے میں تبدیل ہورہا ہے اسی طرح مسلم دنیا میں بھی عوامی سطح پر “غیر” کے تصور کا روایتی بُت ٹوٹ رہا ہے جس کا اثر مذہبی جماعتوں پر بھی پڑا ہے۔

مغرب اور مسلم دنیا کاتعلق اب بھی مصالحت یا برابری کا تو نہیں ہے لیکن فریقین کے مابین کشمکش کے اسباب میں سے روایتی ’تاریخیت‘ کا عنصر مضمحل ہوتا جا رہا ہے۔ اب مذہبی،سماجی اور معاشی حوالوں سے اس کشمکش کی ٹھوس بنیادوں کے مظاہر تقریباََ جدید ہیں، جونوے کی دہائی کے بعد کے ہیں۔

لہذا شناخت کا مسلم تصور، مغربی تصورِانسان کی اقداروعناصر کوروایتی اساسات پر رد تو نہیں کرتا البتہ انفرادیت کو ظاہر کرنا ضروری خیال کرتا ہے جس سے ایک طرح کی نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے، کیونکہ اس انفرادیت کا مظاہرہ مادی دائرے کی طرف نہیں بڑھتا۔(جیسے چین یا ایسی دیگر انفرادیت پسند اقوام کی مثالیں)۔

مثال کے طور پر مسلم اُمت کی جگہ طارق رمضان کی اصطلاح ’مسلم انسانیت‘ کا استعمال۔ یہ انتقال مغربی تصورانسان سے قریب ہونے کی کوشش بھی ہے اور انفرادیت برقرار رکھنے کا ثبوت بھی۔ دراصل یہ جمود کی اذیت اور اس کی تہمت سے باہر نکلنے کی کوشش ہے۔ مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ سیدقطب اور مولا مودودی کے بیانیے سے علی شریعتی ماڈل کی طرف میلان ہے، اگرچہ تاویلی منہج تو وہ نہیں جو علی شریعتی کا ہے لیکن نتائج کے اعتبار سے انتقالی تحریک کی مماثلت برقرار ہے جو اپنے الگ تشخص کے شعائر وعلامات کی اساس پر قائم ہوتی ہے۔

شناختی تغیر کے اس جدید پیرائے میں تشریعی احکامات کی تنفیذ یا ان پر عمل کی بجائے اپنی شناخت کے زبردست اظہار کی خواہش زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔مثال کے طور پر سیکولر یا غیرمسلم ممالک میں مذہبی مسلمان کئی مرتبہ راستوں پر جائے نماز بچھائے نماز پڑھتے نظر آتے ہیں اور راستہ بھی بند کردیتے ہیں، لیکن مسلم اکثریتی ممالک میں ایسانہیں ہوتا۔ اسی طرح توہین رسالت کے قانون کا جابجا استعمال میں اقلیت کوان کی شناخت کی کمتری کااحساس دلانا مقصود ہوتا ہے۔یہی صورتحال موجودہ ہندو اور بودھ مذاہب کی بھی ہے جن کے ماننے والے نہ خود اپنے ادیان کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہیں نہ اس کی تنفیذ چاہتے ہیں، لیکن مذاہب کی بنیاد پر شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اس صورتحال کے ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ نفاذشرعیت کے مطالبے سے ماورا انفرادیت پسند تشخص کے پنپنے میں حرج کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں؟ اگر اس کی ساخت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ:

یہ تشخص غیر منصوبہ بند ہے اور اس کا حدود اربعہ متعین نہیں۔ مذہبی جماعتوں کے اندر سے اس پر زیادہ لٹریچر میسر نہیں۔

اس کا انتقال مادی دائرے کی طرف نہیں ہوتا۔

اور یہ بیک وقت جمہوری ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہے، اثرات کے اعتبار سے پاپولسٹ بھی ہے اور فرقہ وارانہ بھی۔ جیساکہ جمعیت علمائے اسلام اسٹیبلشمنٹ مخالفت کا بیانیہ بھی اٹھائے ہوئے ہے،حقوق کی بات بھی کرتی ہے، قادیانیت نوازی یا ایسے دیگر نعروں کا استعمال بھی کرتی ہے اور یہ اعلان بھی کررہی ہے کہ ملک میں سیکولرزم نہیں آنے دیں گے۔ اس سے ذرا الگ لیکن مبہم ومتضاد رویے کی ایک مثال طیب ایردوان کی بھی ہے جو تیونس میں کہہ رہے تھے کہ ہم سیکولر ریاست ہیں اور اپنے ملک کے انتخابی جلسے میں ایک طبقے کو مخاطب کرتے کہتے ہیں کہ ہم خلافت عثمانیہ کی واپسی چاہتے ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعتوں کے شناختی بیانیے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ماضی کے تشریعی مرحلے میں خودبھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکا اور ساتھ ہی جدید قومی ریاست کے جمہوری نظم کو  آزاد بھی نہیں ہونے دیا۔گویا ایک مخمصے کو جنم دیا۔اب لگتا ہے کہ نئے مرحلے میں بھی یہ مخمصہ باقی رہے گا۔تشریعی مرحلے میں انہیں کچھ مشکلات کا سامنا تھا۔انہیں اپنے ماحول میں خاص کامیابی نہیں ملی۔ لیکن موجودہ ماحول میں شناخت کے عالمی بحران، اسلاموفوبیا اور پاپولزم کے ظہور نے ان کے لیے صورتحال آئیڈیل بنادی ہے۔ اب اسلامائزیشن کی اعصاب شکن جہد کی وہ مشقت بھی نہیں جیسی پہلے تھی۔

شناخت کا عمومی سیاسی تصور منطقی طور پہ بالادستی اور زبردست اظہار کے داعیے سے علیحدہ نہیں ہوسکتا۔ شریعت کے تنفیذی دائرے کی تحدید بھی ممکن ہے اور اس میں کہیں نہ کہیں ’اخلاقیات‘ وروحانیت کی بات بھی کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کے عملی پہلو سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن شناخت کی انفرادیت کاسیاسی تصور لامرکزیت کا حامل ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہے کہ اس کامقصد بالادستی کے نتیجے کاحصول ہے۔یہ اپنے حلقے میں مسلکی گروہی حوالے سے اور اقلیت کے تناظر میں بھی فعالیت کاجواز رکھتا ہے،سیاسی نظم کو بھی چیلنج کرتا ہے اور عالمی سطح پر بھی اس کو میدان دستیاب ہے۔ اگر یہ مابعدسیاسی اسلام کا مرحلہ ہے تویہ سیاسی اسلام سے کم انہدامی اثرات نہیں رکھتا۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...