کرم ایجنسی اور فرقہ وارانہ شدت پسندی

1,194

کرم ایجنسی کے حالات محض اس علاقے تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے باعث دو قریبی شہر ہنگو اور کوہاٹ بھی مسلسل حملوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔ کرم کے دو بڑے قصبے یعنی صدہ اور پاراچنار میں اب تک 30 سے زائد بار دھماکے کرائے گئے ہیں جن میں متعدد خودکش بھی تھے۔

31 مارچ کو کرم ایجنسی کے صدرمقام پارہ چنارمیں خواتین کی امام بارگاہ کے باہرایک دھماکے میں تقریبا 22 افراد جاں بحق اوردرجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ دوماہ قبل پارہ چنارکی سبزی منڈی کی عیدگاہ مارکیٹ میں ہونے والے ایک دھماکے میں کم از کم 24 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہو گئے تھے۔
کرم پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک ایجنسی ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے صوبے خوست ،ننگرہار اورپکتیاکے ساتھ ساتھ پاکستانی قبائلی علاقے خیبر، اورکزئی اورشمالی وزیرستان سے ملتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں میں کرم ایجنسی وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ ورانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتداء ہوئی اور فاٹا کی یہ واحد قبائلی ایجنسی ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میںآبادہے۔ اعدادوشمارکے مطابق کرم ایجنسی میں شیعہ آبادی 40فیصدرہتی ہے اوراپرکرم میںآباد پختون توری قبائل مجموعی طورپرشیعہ مسلک سے تعلق رہتی ہے۔ خطے میں امن وامان کی صورت حال پرنظررکھنے والے ماہرین کے مطابق کرم ایجنسی کی سرحدیں افغانستان کے جن صوبوں سے ملتی ہے ، وہ علاقے 80 کی دہائی سے لے کر اب تک جہادی تنظیموں کے اہم اور مستقل مراکز رہے ہیں اور یہ صوبے القاعدہ اور اس کے دوسرے اتحادیوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ چونکہ کُرم کی دوسری طرف کی سرحدیں وزیرستان، اورکزئی اور خیبر کی قبائلی ایجنسیوں کے ساتھ ملتی ہیں اس لیے اس ایجنسی کو جغرافیائی طور پر مختلف ریاستی اور غیر ریاستی متحارب قوتوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر انتہائی اہمیت حاصل رہی ہے۔ اسی اہمیت کا نتیجہ ہے کہ یہ علاقہ 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک کبھی بھی پرامن نہیں رہا۔
پیرس میں مقیم محقق مریم ابوزہب پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی پرنظررکھتی ہے۔ اپنے مکالوں میں وہ لکھتی ہے کہ خیبرپختونخواہ کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو اورکوہاٹ اورقبائلی ایجنسیوں کرم اوراورکزئی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی دراصل خطے میں طالبان شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثرونفوس اورپنجاب کے فرقہ وارانہ گروپوں کی آمدکی نتیجے میں پھیلی ہے۔کرم ایجنسی میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حوالے سے شائع رپورٹوں میں شائع اعدادوشمارکے مطابق گزشتہ ایک دھائی کے دوران اس ایجنسی میں فریقین کے چار ہزار سے پانچ ہزار افراد آپس کی لڑائیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اگر ان ہلاکتوں کا تجزیہ اور موازنہ کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں شیعہ اور سنی آبادی کی سب سے زیادہ ہلاکتیں کرم ایجنسی ہی میں ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ متعدد معاہدوں کے باوجود تاحال جاری ہے۔ا ن جھڑپوں میں ایک رپورٹ کے مطابق 50 سے زائد گاؤں اور سینکڑوں گھروں کو مارٹر گولوں کے ذریعے تباہ یا مسمار کر دیا گیا ہے جبکہ مختلف اوقات میں لشکر کشی کے باعث درجنوں گاؤں نذر آتش بھی کیے جا چکے ہیں۔
مصنف کی جانب سے کچھ سالوں قبل خطے میں کی گئی تحقیق میں یہ معلوم ہواکہ سال 2007ء کے دوران جب بیت اللہ محسود کی سربراہی میں تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو اس گروہ نے وزیرستان کی دونوں ایجنسیوں کے بعد جس علاقے پر انتہائی حد تک توجہ دئیے رکھی وہ کرم ایجنسی ہی تھی۔ یہاں تک کہ یہ ایجنسی تنظیمی طور پر قاری حسین، حکیم اللہ محسود اور طارق آفریدی جیسے انتہائی اہم طالبان کمانڈروں کی زیر قیادت رہی۔ ٹی ٹی پی سے قبل یہاں کی سنی آبادی کو حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی حاصل رہی اور اب بھی اس نیٹ ورک کو اس علاقے کے بعض سنی گروپوں کی معاونت حاصل ہے۔ مقامی صحافتی ذرائع کے مطابق ان شدت پسندگروپوں کے ساتھ ساتھ درہ آدم خیل سے طارق آفریدی، اورکزئی ایجنسی سے ملانورجمال (المعروف ملاطوفان) اورخیبرایجنسی سے منگل باغ اورحاجی محبوب کے گروپوں نے بھی کرم ایجنسی میں سینکڑوں شیعہ اورسنی قبائلی ہلاک کئے۔
بعض مستندذرائع کے مطابق کرم ایجنسی میں شیعہ قبائلیوں نے بھی اپنے دفاع کے لئے مسلح تنظیمیں قائم کر رکھی ہیں جن کے نام مہدی ملیشیا، حیدری طالبان اور کرم حزب اللہ ہیں ۔
کرم ایجنسی کے حالات محض اس علاقے تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے باعث دو قریبی شہر ہنگو اور کوہاٹ بھی مسلسل حملوں کا نشانہ بنے رہتے ہیں۔ کرم کے دو بڑے قصبے یعنی صدہ اور پاراچنار میں اب تک 30 سے زائد بار دھماکے کرائے گئے ہیں جن میں متعدد خودکش بھی تھے۔ پانچ بار بس سٹینڈز کو جبکہ چھ بار جرگوں اور اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا۔ ہو بہو اسی صورتحال کا ہنگو اور کوہاٹ کو بھی سال 2008 کے بعد سامنا کرنا پڑا۔ ان دو شہروں کو پشاور کے بعد سب سے زیادہ بار ہم دھماکوں اور خودکش حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا جبکہ دوسو سے زائد اہم علماء، عمائدین اور افسران کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ واضح رہے کہ فریقین مسلح افراد یا مدعیان کے علاوہ عام لوگوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں برتتے۔ درجنوں افراد کو گاڑیوں سے نکال کر لوگوں کے سامنے گولیوں سے چھلنی کرنے اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کے بے شمار واقعات ہو چکے ہیں۔ خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی متعدد مواقع پر انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا جاتا رہا۔ متعدد کو اغواء کیا گیا تو متعدد کو نشانہ بنانے کے علاوہ نذر آتش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا جبکہ سڑکوں، پلوں، ہسپتالوں اور سکولوں کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا۔ پشاور پارا چنار روڈ صرف سال 2007-8 کے دوران اٹھارہ بار بند کر دی گئی تھی جس کے باعث آمد و رفت کا پورا نظام ہی ٹھپ ہو کر رہ گیا اور لوگ مجبوری کے ہاتھوں افغانستان کا ایک پیچیدہ اور خطر ناک راستہ استعمال کر کے پشاور اور دوسرے علاقوں کا سفر کرتے رہے۔شیعہ عمائدین کاکہناہے کہ توری شیعہ قبائل کوصرف اس لئے طالبان شدت پسندنشانہ بنارہے ہیں کیونکہ وہ انہیں افغانستان آنے جانے کے لئے راستہ دینے کے لئے تیارنہیں ہے۔
حالیہ حملوں کے تناظر میں کرم ایجنسی سے منتخب ایم این اے ساجد حسین طوری نے ’بی بی سی اردو‘ کوبتایاتھا کہ کرم ایجنسی کے ساتھ افغانستان کا علاقہ ننگر ہار لگتا ہے، جہاں سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی طرف سے دھمکیاں موصول ہو رہی ہیں۔ اسے قبل تحریک طالبان پاکستان چھوڑکر’ تحریک طالبان اسلامی‘ کے نام سے اپناشدت پسندگروہ تشکیل دینے والے کرم ایجنسی کے مقامی طالبان کمانڈرفضل سعیدحقانی زیادہ ترحملوں میں ملوث تھے۔ اخباری رپورٹس کے مطابق فضل سعید حقانی 2016ء میں اپنے ہی گارڈکی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے تھے۔
مصنف ایک صحافی اورتجزیہ کارہے جوسیکیورٹی کے معاملات پرلکھتے ہیں۔ ای میل: zeea.rehman@gmail.com

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...