مذہبی طبقے کی گروہ بندی اور طاقت کے مظاہرے کارجحان
مجموعی طور پہ مذہبی حلقے کی ادارہ جاتی حیثیت اسے امتیازی مقام عطا کرکے علامتی سیاسی بالادستی کا حامل بناتی ہے۔ یہ ادارہ جاتی حیثیت دو طرح سے متشکل ہوتی اور کردار ادا کرتی ہے۔ ایک تو دعوتی حیثیت میں کہ وہ مثالیت پسند دین کی تبلیغ کرتی ہے، وعظ ونصیحت کے دائرے میں رہتی ہے۔ اس نوع کی فعالیت مسابقتی نہ ہونے یا براہ راست سیاسی نہ ہونے کے باوجود بھی اس کی علامتی سیاسی بالاستی کو قائم رکھتی ہے اور اسے مقتدرہ نفسیات کا حامل بنائے رکھتی ہے۔ جیساکہ ماضی میں غالب صورت یہی نظر آتی ہے۔ ادارہ جاتی شکل کی دوسری نوع کی فعالیت ”گرہ بندی“ کے کردار میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر مسابقتی ہوتی ہے۔ یہ فرقہ وارانہ بھی ہے اور براہ راست سیاسی بھی۔ اس میں ادارے کے اندر سے مختلف جماعتیں اور تحریکیں بنتی ہیں، ان میں سے ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ صحیح فکر اس کے پاس ہے اور وہ اس کو سماج میں ترویج دینا چاہتی ہے۔
گروہ بندی کا اپنا ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ چونکہ اِس گروہ بندی میں عوامیت کا عنصر نہیں ہوتا اور یہ شہریت پر ایمان نہیں رکھتی اس پر مستزاد یہ مسابقتی بھی ہے اس لیے اس میں ’طاقت کا مظاہرہ‘ بہت اہم ہوتا ہے۔
عوامی دین گروہ بندی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا نہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ یہ انفرادی آزادی کو راہ دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ لائے۔ اُمت کی اصطلاح کی رُوح بھی حقیقت میں عوامیت پر قائم ہے، نہ کہ ادارہ جاتی شکل یا گروہ بندی پر۔ لیکن اب ہمارے ہاں مذہبی طبقے کی ادارہ جاتی حیثیت تو مسلمہ ہے ہی، اس کے ساتھ گروہ بندی بھی ایک حقیقت بن گئی ہے۔ ہم جماعتی یا تحریکی انتساب کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مذہب وجماعتیں ایک مترادف کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ جو فرد خود کو کسی گرہ سے منسوب نہ کرے اسے ناقابل اعتبار نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
اِس گروہ بندی کا میلان اگر سیاسی نہ بھی ہو، پھر بھی تمام جماعتوں میں طاقت کے مظاہرے کی نفسیات بدرجہ اتم موجود ہے۔ یہ اصلاح و دعوت سے بھرتی تک کا سفر ہے۔ تمام جماعتیں ممبران کی رجسٹریشن کرتی ہیں، زیادہ سے زیادہ بندے جمع کرنے کے لیے حربے استعمال کرتی ہیں، خواتین کے لیے بھی الگ ونگ قائم ہیں،ایک جماعت دوسری جماعت کے بندے کے ساتھ تعاون نہیں کرتی۔ باہمی مسابقت کا رجحان رکھتی ہیں، جس کے پاس زیادہ بندے ہوں وہ زیادہ بااثر ہوتی ہے۔ مذہبی رہنما یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنے لوگ ہیں۔ ان کا رفاہی کام بھی اسی غرض کے لیے ہوتا ہے۔ ادارہ ایک ہونے کے باوجود گروہ بندی مزاج رکھنے کے باعث ایک دوسرے کو کھاتی بھی ہیں، فرقہ وارانہ ہیئت میں بھی اور سیاسی دائرے میں بھی۔ یہ مذہب کی سچی رُوح نہیں تھی۔
ان جماعتوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بظاہر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ناہمواریت کو جنم دے سکتی ہیں
چونکہ ان کی فکر مثالیت پسند و غیرواقعاتی ہوتی ہے اس لیے میدان میں ان کی بقا کا جواز دو طرح سے ممکن ہوتا ہے۔ ایک تو ریاست وسماج کے درمیان عدم اعتماد اور کمزور رشتہ ان کے لیے سودمند ہوتا ہے۔ اور دوسرا ان کا ایجنڈا ممکن العمل نہیں ہوتا اس لیے اس کی کامیابی سے زیادہ دوسروں کی ناکامی سے فائدہ اُٹھاتی ہیں۔ جتنی زیادہ بحرانی کیفیت اتنے زیادہ مواقع۔
ان جماعتوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بظاہر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ناہمواریت کو جنم دے سکتی ہیں۔ یہ کردار ان کی زبان (لغت)ادا کرتی ہے جسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں ایک مصنوعی تقدیس ہے جو بالادست ہے۔ مثال کے طور پر امربالمعروف ونہی عن المنکر کی اصطلاح کی تاویلاتی حدود کا تعین موجود نہیں، لہذا اس کا کئی طرح سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ مخصوص زبان ایسے کئی راستے کھولتی ہے۔
جدید اجتماعی نظم پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتیں شہریت وآزادی کی اساسات پر قائم ہوتی ہیں اس لیے ان میں طاقت کے عنصر کی جگہ نہیں ہوتی۔ جبکہ مذہبی گروہ بند جماعتیں اگر قومی دھارے میں شرک ہوبھی جائیں تو یہ ویسا کردار ادا نہیں کرسکتیں جیسا کہ ایک جدید نظم اجتماعی تقاضا کرتا ہے۔ ایسی گرہ بندی جو اپنے مزاج میں عوامیت کے ساتھ انسلاک نہ رکھتی ہو اور ایک ایسے ادارہ جاتی مرکز سے پھوٹتی ہو جس میں طاقت کا عنصر اساسی ہو نہ کہ مساوات کا، شوگر کے مرض کی طرح اس کے اثرات کم یا زیادہ تو ہوسکتے ہیں لیکن اس کا مزاج تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یوں اگر کسی وقت میں ان کے اثرات سخت گیر ومنفی نہ بھی ہوں تو یہ تعمیری بہرحال نہیں ہوسکتی۔ بلکہ گروہ بندی اپنے آپ میں ایک بوجھ بھی ہوتی ہے۔ اس کے اندر زبردست تناؤ ہوتا ہے جو زیادہ عرصے تک دبایا نہیں جاسکتا۔ اس کے پہلے متأثرین گروہ بند ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ دیر تک یہ معتدل نہیں رہ سکتے۔ ایسا تناؤ جو تعمیری کردار ادا نہ کرسکتا ہو اس کی نکاسی کے لیے بحرانی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔
مذہبی گرہ بندی کے خلاف طاقت کا استعمال خاص کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے لیے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ریاست وسماج کے درمیان اعتماد کا اور مضبوط رشتہ قائم ہو۔ اور عوام میں سیاسی عمرانی شعور پختہ کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں۔ محض ریاستی دباؤ گروہ بندی کو اور طاقتور بناتا ہے۔ جتنی زیادہ قربانیاں اتنے زیادہ مواقع۔ استحصالی مظلومیت ظالم سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، جو اپنے لیے زیادہ جگہ پیدا کرسکتی ہے۔
فیس بک پر تبصرے