عورتوں کو مسجد جانے سے کیوں روکا جاتا ہے؟

971

جب دین کو ایک انسانی تہذیب کے طور پر نہ دیکھا جائے تو پھر مذہبی کتابوں میں موجود عبارات میں سے انفرادی طور پر احکام و مسائل کے استنباط اور استخراج کا طریقہ رواج پا جاتا ہے۔ ہر شخص مختلف عبارتوں سے اپنے ذوق اور انداز فکر کے مطابق مفاہیم اخذ کرتا ہے۔ اپنی پسندیدہ شخصیات یا جن کی عظمت کا تصور ذہن پر چھایا ہوتا ہے ان کے نقطۂ نظرکی روشنی میں مسائل کے بیان کا طریقہ رواج پا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں اس وقت یہی طریقہ کار رائج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اسلام کو ایک عالمی تہذیب کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔

جب اسلام کو ’’تہذیب‘‘ کے عنوان سے دیکھا اور سمجھا ہی نہیں جاتا تو پیش کیسے کیا جائے گا؟ جب اسے ایک ایسی عالم گیر انسانی تہذیب کے طور پر سمجھا جائے گا جو عصری فہم اور سماجی پیش رفت کے تقاضوں کے مطابق انسانی سماج کو الٰہی و روحانی کائناتی اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی صلاحیت بلکہ داعیہ رکھتی ہے تو اس کے جزوی سماجی مسائل کو ہر دور میں اس کی روح کے مطابق سمجھا جائے گا، ایک پورے نظام کے حصے کے طور پر اسے بیان کیا جائے گا اور اختیار کیا جائے گا۔ احکام و مسائل ہمیشہ معاشرتی سطحِ فہم اور قبولیت کی صلاحیت کے مطابق بیان کیے جانے چاہئیں۔ اسی مقصد کے لیے نو بہ نو اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسوس کہ اجتہاد کا تصور بھی غیر تہذیبی ہو کر رہ گیا ہے۔ ’’حوادث واقعہ‘‘ جدید مسائل اور اجتماعی معاملات کے لیے اجتہادی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور بروئے کار لانے کا تو رواج ہی پیدا نہیں ہو سکا۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خواب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج

یہ مقدماتی گفتگو ہمیں مسجد میں عورتوں کے جانے اور نماز ادا کرنے کی تازہ بحث کے پس منظر میں کرنا پڑی جو اس وقت بھارت میں جاری ہے۔ یہ مسئلہ بھارتی عدالت میں جا پہنچا ہے۔ خواتین کے حقوق کے آئینی اور رائج تصور کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ پہلے ہی بھارت کی عدالت ایک نشست میں دی گئی تین طلاقوں کے طلاقِ بائن قرار دیے جانے کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔ ہمیں کوئی شک نہیں کہ زیر بحث مسئلے میں بھی اسی سے ملتا جلتا فیصلہ آئے گا۔ جب ’’مذہبی فکر‘‘ جمود کا شکار رہے گی، ماضی کے رائج فتووں پر فتوے دیتی رہے گی تو پھر پانی تو پلوں کے نیچے سے گزرتا رہے گا اور اپنا راستہ بناتا رہے گا۔ پانی کو اپنی مرضی کے راستے پر ڈالنے کے لیے فتویٰ درکار نہیں ہوتا ’’بہائو کا راستہ‘‘ درکار ہوتا ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کے معاشرتی مقام کی بحث بہت آگے بڑھ چکی ہے

جہاں تک عورت کے مسجد میں جانے، نماز پڑھنے اور باجماعت نماز میں شرکت کا معاملہ ہے تو دینی متون کی طرف رجوع کرنے سے اس کی اباحت اور مباح ہونے پر کوئی شک باقی نہیں رہتا لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ’’فتنے کے خوف‘‘ کے سبب اس پر پابندی عائد کردی گئی اور پھر امت کا ایک بڑا حصہ مخصوص دور میں کیے گئے فیصلے کا اسیر ہو کر رہ گیا اور صدیوں سے ’’فتنے‘‘ کا تدارک نہ کر سکا اور واپس پیغمبر اکرمؐ  کے طرز عمل کی طرف نہ جاسکا۔ ہم اس فیصلے کی نوعیت پر بات نہیں کرتے کیونکہ کسی خاص دور میں اجتماعی مقاصد کے لیے عارضی طور پر’’ حکم اولی‘‘ کو ترک کرکے’’ حکم ثانوی‘‘ اختیار کیا جاسکتا ہے لیکن حکم ثانوی ہمیشہ اضطراری اور وقتی ہوتا ہے اور حکم اولی ہی دائمی ہوتا ہے۔ اس کی مثال حرمت شراب کی ہے جو حکم اولی ہے لیکن اضطراری حالت میں اس کے پینے کی خاص شرائط کی اجازت حکم ثانوی ہے۔ سوال یہ ہے کہ امت کب تک ’’اضطراری‘‘ احکام کی پابند رہے گی۔

عورت کے معاشرتی مقام کی بحث بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ عورت کا سماجی کردار چودہ صدیاں پہلے کی نسبت بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ عورتیں اب حکومت، تجارت، کھیل، عدالت، طب، سائنس غرض زندگی کے ہر شعبے میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ مغربی معاشروں میں ہی نہیں مسلمان ملکوں میں بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں عورت کا کردار بہت بڑھ چکا ہے۔ بازاروں میں خریداری کا شاید زیادہ حصہ گھریلوعورتوں کے ذمے آگیا ہے۔ یہ دراصل مرد کی دیگر مصروفیات کی وجہ سے گھریلو امور میں اس کے ساتھ تعاون پر مبنی ہے۔ جو عورتیں اسلامی تصورِ حجاب یا پردے کے سماجی تصور کی پابند ہیں، وہ بازاروں میں بھی پابند رہتی ہیں اورجو ’’فتنہ گر‘‘  ہیں وہ ہر جگہ فتنہ گرہیں۔ مرد بھی جو اندر سے پاکباز ہیں، بازار میں بھی پاکباز ہیں۔ ’’فتنہ جُو‘‘ مرد ہر جگہ فتنہ جُو ہیں۔ مرد و زن کے یہ مسائل مشرق و مغرب میں ایک جیسے ہیں۔

انسانی معاشرے کو پاکبازی کی دعوت دینے والوں اور تزکیہ نفس کے داعیوں کو بہرحال اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔

دوسری طرف یہ امر بھی غور طلب ہے کہ بازار میں عورت کے جانے کے خلاف تو علما کے فتوے دکھائی نہیں دیتے لیکن مسجد کے حوالے سے بعض علما کے فتوے ہنوز پورے شد و مد سے باقی ہیں لہٰذا پاکستان جیسے ممالک کی مسجدیں خواتین سے خالی ہیں۔

علاوہ ازیں یہی خواتین مساجد سے باہر علما کے وعظ کی محفلوں میں شریک ہوتی ہیں، جن میں مرد حضرات بھی موجود ہوتے ہیں البتہ عموماً پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ میلوں اور عرسوں میں بھی عورتیں کثیر تعداد میں شرکت کرتی ہیں۔ پیروں اور سجادہ نشینوں کی خدمت میں بھی خواتین حاضر ہوتی ہیں، ایسے میں صرف مسجدوں میں ان کے آنے پر پابندی بہت حیرت ناک ہے۔

یہ آرٹیکلز بھی پڑھیں مصنف کے دیگر مضامین

فیس بک پر تبصرے

Loading...