از طرف مدیر |
سماجی مساوات ایک ایسی اخلاقی سیاسی قدر ہے جس کی اساس پر معاشرتی، اقتصادی اور ثقافتی استحکام کا دارومدار ہوتا ہے۔اگر کسی ملک میں یہ قدر کمزور ہو تو اس کی وجہ سے جنم لینے والے مسائل انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متأثر کرتے ہیں۔ سماجی مساوات جس طرح تمام شہریوں میں حقوق کی برابر فراہمی کا ذریعہ ہوتا ہے اور ریاست کے وسائل سے سب کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے، اسی طرح ملک وقوم کی ترقی وفلاح کو یقینی بنانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا دوطرفہ عمل ہے جو شہریوں کے مابین تعلق کو پرامن ا ورخوشگوار بنیادیں فراہم کرتا اور ریاست کے ساتھ ان کے ربط کو صحت مند اورپیداواری بناتا ہے۔
|
شناخت اور بحران |
شفیق منصور
شناخت کا سوال بظاہر بہت سادہ ہے۔ میں کون ہوں،یا ہم کون ہیں؟ کا جواب اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے لیے کچھ لوگ مل بیٹھیں اور سوچ بچار کی ضرورت محسوس کریں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تویہ سوال اس قدرمتنوع جہتیں اور تہہ در تہہ پرتیں رکھتا ہے کہ تشخص کاتعین ایک پہیلی بن جاتا ہے۔خصوصاً ایسے عہد میں کہ جب فرد، سماج اور قوم کی تعریف ہر لمحہ بدل رہی رہو، اقدار کے پیمانے لگے بندھے نہ ہوں اور جدیدیت اور مستقبل کوئی ایک چہرہ نہ رکھتے ہوں۔
|
محمد عامر رانا
معروف فلسفی، مورخ اور ماہرِ سماجیات فرانسس فوکویاما کی کتاب Identity: The demand for Dignity and Politics of Resentment شناخت سے جڑے کئی اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ مغربی و مشرقی معاشروں میں عوامیت پسند سیاست کی علمبردار قوتوں کی کامیابی نے لبرل طرزِ سیاست اور جمہوری نظامِ ریاست کا مستقبل غیر یقینی بنا دیا ہے۔ حقوق کے عنوان سے گروہی شناختوں پر اصراراور مخصوص شناختوں کی بنیاد پر شرف و توقیر کی خواہش پر مبنی رجحانات پوری دنیا پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس عالمی پسِ منظر کے ساتھ لکھی گئی فرانسس فوکویاما کی کتاب ’شناخت‘عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مقامی تناظر اور حقوق کی متعدد تازہ آوازوں کی تفہیم کے پیشِ نظر انتہائی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ اسی کتاب پر تبصرے کے طور پر لکھا گیا ’تجزیات‘ کے بانی مدیر محمد عامر رانا کا درج ذیل مضمون پاکستانی انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں شائع ہوا، جس کا اردو ترجمہ موضوع کی اہمیت اورقارئینِ تجزیات کی دلچسپی کے لیے شاملِ اشاعت کیا جارہا ہے۔
|
کاس مڈی، کرسٹوبل روویراکالتوسر
عوامیت پسندی (Populism) کی ویسے تو مختلف تعریفات کی جاتی ہیں لیکن مجموعی طور پر اسے ایک ایسی لہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو استحکام کو متأثر اور موجود جمہوری نظم کو اتھل پتھل کرتی ہے۔یہ اگرچہ ایک حیثیت میں عوامی لہر بھی کہلاتی ہے لیکن اس کی محرک شعوری وفکری جدوجہد نہیں ہوتی، بلکہ اس کا پس منظر غصہ اور بے چینی ہوتے ہیں جس کا استعمال کرکے کچھ لوگ اقتدار حاصل کرتے ہیں۔ پاپولسٹ افراداشرافیہ مخالف اور بعض لبرل جمہوری اقدار کے ناقد ہوتے ہیں۔ ماضی میں کئی پاپولسٹ حکومتیں قائم رہی ہیں۔ اس وقت ایک نئی لہر اٹھی ہے جس کے نتیجے میں امریکا سمیت کئی ممالک میں ان نظریات کی حامل حکومتیں سامنے آئی ہیں۔ڈچ ماہرِ سیاسیات کاس مڈی اورڈیگو پورٹالیس یونیورسٹی چلی کے ا سکول آفپولیٹیکل سائنس میں تعینات پروفیسرکرسٹوبل رووتراکالتوسر کی مشترکہ کتابPopulsim: A Very Short Introductionسے ماخوذ زیر نظر مضمون میں پاپولزم کی اصطلاح کی علاقائی پسِ منظر کے لحاظ سے وضاحت کی گئی ہے اور بتایاگیا ہے کہ عوامیت پسند راہنما کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں اور وہ سماج میں کیسے اپنی جگہ بناتے ہیں۔
|
میڈیلین البرائٹ
میڈیلین البرائٹ امریکی سیاستدان اور سفارتکار ہیں۔ وہ پہلی خاتون امریکی سیکرٹری کے عہدے پر متمکن رہیں۔ان کی کتاب Fascism: A Warningسے تلخیص شدہ اس مضمون میں دنیا کے مختلف خطوں میں فسطائی علامات کی حامل حکومتوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ پاپولسٹ سیاسی جمہوریتوں اور فسطائی حکومتوں کے مابین بہت باریک فرق ہوتا ہے۔ ان دونوں نظاموں کے مابین قربت آسان ہوتی ہے۔ فسطائی حکومت کا قیام مشکل بھی ہوسکتا ہے اور یہ کسی ایک برے واقعے یا بحران کے نتیجے میں ایک دم بھی وجود میں آسکتی ہے۔ وہ واقعاتی حوالوں کی بنا پر دو ایسے ممالک کی نشاندہی کرتی ہیں جو فسطائی نظمِ ریاست سے قریب تر ہیں۔ وہ اسی ضمن میں امریکی حکومت کا بھی جائزہ لیتی ہیں کہ آیا موجودہ امریکی حکومت فسطائی نفسیات کی حاملہے یانہیں؟ وہ دنیا کو محتاط رہنے کی نصیحت کرتی ہیں کہ کہیں بھی اگر جمہوریت کو چیلنج کیا جائے تو ہمیں اس کا تحفظ کرنا چاہیے۔
|
شناخت کے مختلف تناظر |
ثاقب اکبر
مسئلہ شناخت دراصل اپنی ذات کی شناخت کا مسئلہ ہے۔ جو لوگ شناخت کے بحران کا عنوان قائم کرتے ہیں وہ پہلے مرحلے میں فرد کی ازخود بیگانگی اور دوسرے مرحلے میں سماجی بیگانگی کی حکایت کرتے ہیں۔ سماج سے انسان اُس وقت تک بیگانہ رہے گا جب تک اسے ادراک ذات حاصل نہ ہو جائے۔ گذشتہ صدی میں یورپ میں مذہبی عمرانیات (Sociology of Religion) کے نام سے ایک نیا علم معرض وجود میںآیا۔ اس علم کی بنیاد اس مفروضے پر رکھی گئی کہ مذہب دراصل ازخود بیگانگی(Self Alienation) کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا دعوے دار جرمن فلسفی فویرباخ (Feuer Bach)ہے جسے مارکس کے استاد کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف فلسفہ الٰہیات کے ماہرین گذشتہ کئی صدیوں سے یہ بات کہتے چلے آرہے ہیں کہ انسان اپنے نفس کو نہ پہچاننے کی وجہ سے فکری طور پر بھٹکتا پھرتا ہے۔ لہٰذا کہا جاتا ہے کہ خدا شناسی کے لیے بھی اپنی ذات کی شناخت ضروری ہے۔ |
سعدیہ بخاری
موجودہ زمانے میں جب سماج مختلف طرز کی تقسیمات کا شکار ہے، مارچ 2019ء میں خواتین کے حقوق کے لیے کوشاں’ ہم عورتیں‘ نامی اتحاد کا خواتین کے عالمی دن پر ملک بھر میں ایک متحد ہ مارچ یکجہتی کا بہت خوبصورت اظہار تھا۔ عورتیں، مرد، ٹرانس جینڈرز غرضیکہ سبھی لوگ ہاتھوں میں ہاتھ دیے اپنی طبقاتی، مسلکی اور مذہبی تفریق کو پس پشت ڈال کر انسانیت کے رشتے میں جڑے ہوئے گیت گاتے اور نعرے لگاتے جارہے تھے۔ اگرچہ اس آہنگ کی عمر تھوڑی تھی۔ کیونکہ اگلے چند روز ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سندھ اسمبلی میں ایسی عرضیاں جمع کر دی گئی تھیں جس میں اس عورت مارچ کو ہماری اخلاقیات کے منافی قرار دیے جانے کی سفارشارت موجود تھیں۔ اس روش نے نوجوان نسل کو بہت دھچکا دیا۔ |
ذیشان ہاشم
معاشی ترقی ایک اہم مضمون ہے۔ وہ عوامل جو معاشی ترقی کا سبب بنتے ہیں، معیشت دانوں کی تحقیق کا بنیادی موضوع ہیں۔ سرمایہ، محنت اور ٹیکنالوجی یہ تین بنیادی عوامل ہیں معاشی ترقی کے ضمن میں جن کی اہمیت پر تقریباً تمام معیشت دان متفق ہیں۔ یہ تین بنیادی عوامل جب پوری توانائی اور بھرپور صلاحیت کے ساتھ کام کرتے ہیں تو معاشی ترقی ممکن ہو پاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ اتنا سادہ ہے؟ اگر ہے تو پھر کچھ ممالک اتنے امیر کیوں ہیں اور کچھ غریب کیوں؟ اس کا جواب معیشت دان یہ دیتے ہیں کہ وہ ممالک جو امیر ہیں ان میں یہ تینوں بنیادی عناصر (سرمایہ، محنت اور ٹیکنالوجی ) اپنی پوری توانائی اور کارکردگی (Efficiency ) کے ساتھ پھل پھول رہے ہیں اور مثبت نتائج (ترقی ) دے رہے ہیں جبکہ غریب ممالک میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ |
علی بابا تاج
جب سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے اورجب سے وہ اپنے وجود سمیت تمام خارجی وجودات سے رُوبرو ہوا ہے تب سے اسے مختلف سوالات نے گھیر رکھا ہے۔مختلف النوع سوالات کے اس گھمن گھیر سے نکلنے کے لیے اس کی بے پایاں شعوری کوششوں میں سے ایک کوشش اشیا و مظاہر کو سمجھنے اور ان کی شناخت کرنے کی رہی ہے۔یہ بات مسلمہ ہے کہ انسان چشمِ بصیرت کھولتے ہی اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہے، خود کو ٹٹولتا ہے ،اپنا سایہ دیکھتا ہے اور آئینے سے روبرو ہو کر حیرانی کا اظہار کرتا ہے۔پہلے پہل یقینا یہ ایک جبلی عمل ہوتا ہے لیکن وقت اور حالات کے ساتھ اپنے آپ کو پہچاننے کے لیے اس جہدِ مسلسل کی جہات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔انسان کا اکیلا رہنا ناممکنات میں سے ہے، لہٰذاانسان جب کبھی جہاں کہیں بھی رہتا ہے اس کی بنیادی داخلی و خارجی ضرورت کا تقاضہ ہوتا ہے کہ وہ جن کے ساتھ رہے ان کے بارے میں جانے اوردوسروں میں بھی اس کی اتنی ہی پہچان پائی جائے۔
|
گہرام اسلم بلوچ
سیاست، ادب اور تاریخ کے مطالعے، خاص طور پرملکی اور بلوچ قوم پرستانہ سیاست پر گہری نظر رکھنے کے حوالے سے ہمارے خطے میں اکثر بلوچ نوجوانو ں کی مثال دی جاتی ہے۔ ماضی میں جب بائیں بازو کی سیاست اور اشتراکی نظریہ کی جدوجہد اپنے عروج پر تھی تو بلوچ نوجوانوں کا ایک گروپ طبقاتی تقسیم، معاشی استحصال اور اجارہ دارانہ نفسیات کے خلاف اٹھنے والی جدوجہد سے بہت متأثر تھا۔ سرمایہ داری نظام کے استحصالی رویے کا شکار تمام مظلوم و محکوم اقوام کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں بلوچ نوجوان بھی اپنے بقا کی جنگ لڑنے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم و بربریت سے نجات کے لیے ایک اْمید لے کر سویت یونین سے توقع رکھتے تھے کہ شاید ان کے درد کا مداوا ہو۔ وہ دور آئیڈیل ازم کا دور تھا، اس وقت کے ترقی پسندانہ نعروں کو محکوم اقوام اپنی آواز اور ترجمانی سمجھتے تھے۔ خاص طور پر مزدور طبقہ سوویت یونین کو اپنی جنت تصور کرتا تھا۔سوویت یونین سے لوگوں کی اس قدر گہری وابستگی تھی کہ دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھنے والا مزدور بلا تفریق رنگ، نسل، مذہب اور ثقافت یہ سمجھتا تھا کہ ہم ان میں سے ہیں اور وہ ہم میں سے ہیں۔ |
سہیل سانگی
نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والے ممالک کے سیاسی عمل میں قومی یکجہتی اہمیت کا حامل سوال رہا ہے۔ سوشلسٹ ممالک کی ناکامی کے بعد یہ سوال باقی نہیں رہاکہ کوئی ملک صرف نظریاتی طور پر متحد رہ سکتاہے۔دراصل کسی بھی قوم یا ملک میں ذیلی قومیتی وفاداریاں، نسل، زبان، مذہب اور علاقہ لازمی عنصر ہوتے ہیں۔اور ان سے جڑے مسائل کو ٹھیک طرح سے حل کیے بغیر قومی یکجہتی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ پاکستان بھی مختلف ثقافتی اور سماجی گروہوں کی مجموعی جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیاجن میں بلوچستان اورسرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے سرداروں سے لے کر سندھ اور پنجاب کے جاگیردار اوربنگال کے متوسط طبقات شامل تھے۔ان علاقوں کے سماجی کلچر کے علاوہ سیاسی کلچر بھی مختلف تھا۔ بنگال میں نسبتاً جمہوری کلچر تھا۔ تحریک پاکستان کی قیادت ہندوستان کے اقلیتی صوبوں نے کی تھی۔ کیونکہ وہی لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے تھے۔ لہٰذ جو علاقے پاکستان کہلائے وہاں مسلم لیگ کی گراس روٹ سطح پر مقبولیت نہیں تھی۔ |
ڈاکٹر مزمل حسین
پوری اسلامی دنیا کا بالعموم اور برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کا بالخصوص یہ مخمصہ بن چکا ہے کہ یہ آج کے معروضی حالات، زمینی حقائق یا روح عصر سے سبق حاصل کر نے کی معمولی سی کاوش بھی نہیں کرتے۔ اس مخمصے کے عقب میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک بہت سے اسلامی ممالک میں بسنے والوں کی قومی سطح پر کوئی شناخت ہی نہیں ہے۔ اس تناظر میں جب ہم برصغیر کی تاریخ، تمدن اور تہذیب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اسے چار ادوار میں منقسم کر کے ہی بات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ |
اسلم اعوان
سہ ماہی تجزیات کے گذشتہ شمارہ میں شفیق منصور کا شناخت کے موضوع پر طویل تحقیقی مقالہ،ہم کون ہیں؟ہماری شناخت کیا ہے؟نظر سے گزرا،جس میں فاضل مضمون نگار نے شناخت کے بحران کو زیادہ گہرائی میں جا کے دیکھنے اوراسے انسان کا ایسا اساسی مسئلہ ثابت کرنے کی کوشش کی،جیسے اسی سے پورے نظام زندگی اور انسانیت کی بقاء وابستہ ہو۔مقالہ نگار کہتے ہیں’’چونکہ آزادی مقدم ہے، اس لیے شناخت کے تعین سے قبل ایسی ذہنی آزادی کا موجود ہونا لازمی ہے جس میں انسان شعوری طور پہ اپنی شناخت کا تعین خودکر سکے،موجودہ شناختیں مخصوص اداروں اور جماعتوں کی عطا کردہ ہیں،جن میں سے ہر ایک کے پس منظر میں مخصوص تحریکی،متنازعہ تاریخی اور سیاسی عوامل کار فرما ہیں،یعنی انسان نے اپنی شناخت کا تعین خود نہیں کیا بلکہ اسے خاص مراحل اور عوامل کی اساس پہ تشکیل دی جانے والی شناختوں کا اسیر بنایا گیا،سماج جب تک اداروں اور گروہوں سے بالاتر ہو کے ازخود شعور و آگہی کے ساتھ اپنی شناخت کا تعین نہیں کرتا،اس وقت تک انسان تعمیر وترقی کا مفہوم،عملی طریقہ اور میکنزم طے نہیں کر پائے گا،شناخت کے تعین سے قبل اجتماعی شعوری آزادی کا ہونا لازمی ہے‘‘۔
|
فکرونظر |
پروفیسر فرانسس روبن سن
پروفیسرفرانسس کرسٹوفر رولینڈ روبن سن ماہرِ سماجیات اور تاریخ دان ہیں۔ وہ رائل ہالوے یونی ورسٹی آف لندن، برطانیہ کے شعبہ تاریخ سے وابستہ ہیں۔ وہ اسلام اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی تحقیقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا زیرِ نظر مضمون پاکستان سے تعلق رکھنے والے ماہرِ لسانیات ڈاکٹر طارق رحمان کی کتاب ’’جنوبی ایشیا میں جہادکی تعبیرات کی علمیاتی تاریخ‘‘ پرتنقیدی تبصرے کے طور پر لکھا گیا ہے جو لندن میں قائم ایک تحقیقی ادارے Bloomsbury Pakistanنے انگریزی زبان میں شائع کیا جس میں پروفیسر فرانسس روبن سن ان کے نقطہِ نظر اور ان کی علمی کاوش کی تائید وتحسین کرتے ہوئے کچھ تاریخی حقائق کی تصحیح کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔ |
ہنا آرنٹ
اہنا آرنٹ جرمن نژاد امریکی فلسفی اور ماہرِ سیاسیات ہیں۔ زیرِ نظر مضمون ان کی کتابThe Origins of Totalitarianismکا خلاصہ ہے جس میں وہ مطلق العنانیت کی تعریف، اساسی خصوصیات اور تاریخی پس منظر کو زیربحث لاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مطلق العنانیت آزادفکری وآزاد سماج کی مخالف ہوتی ہے، جب جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور وہ عوامی مطالبات اور تقاضوں کو صحیح معنوں میں پورا نہیں کرتی تو اس کے نتیجے میں مطلق العنانیت کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ماضی میں مقتدر قوت کے طور پر کئی بار ظہور کرچکی ہے اور وہ متعدد مثالوں کی بنا پر یہ مقدمہ قائم کرتی ہیں کہ جدید تاریخ میں بھی ایسی مطلق العنان ریاستیں موجود رہی ہیں۔ |
کولن وارڈ
کولن وارڈ معروف برطانوی انارکسٹ لکھاری ہیں۔ انہیں سماجیاتی تاریخ کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ زیرِ نظر مضمون ان کی کتاب Anarchism: A very Short Introductionکی تلخیص ہے جس میں انارکی کی درست تفہیم پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ واضح کیاگیا ہے کہ ایک انارکسٹ سماج کیسے قائم ہوسکتا ہے۔ دنیا میں انارکی کی اصطلاح کو زیادہ تر منفی مفہوم کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا مطلب انتشار، خانہ جنگی یا فساد ہے۔ لیکن یہ اس کا حقیقی مطلب نہیں ہے۔ اس کا اصل استعمال ریاستوں کے استحصالی جبر کے خلاف کیا جاتا ہے۔ دنیا میں انارکسٹ نظریات کے حامل فلسفی اور گروہ ایک منظم فکر رکھتے ہیں۔ یہ انسانی آزادی پرعائد حدبندیوں اور درجہ بندیوں کو مسترد کرتے ہیں۔ |
ادب |
نجود علی، ڈولفن میڈوئے
نجود علی یمن سے تعلق رکھنے والی ایک بچی ہے جس کی شادی اس کے بچپن میں کسی ادھیڑ عمر شخص سے کردی جاتی ہے جو بجائے خود ایک ظلم ہے مگر اس پر مستزاد یہ کہ اس پر شوہر کی جانب سے کام کاج اور دیگر امورِ خانہ داری سے ساسس سسر کی خدمت تک کی سبھی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ مزید یکہ اس پر ظلم و زیادتی اور تشدد کو بھی روا رکھا جاتا ہے۔ اس ظلم وجبر سے نجات کے لیے گھر سے نکلنے اور طلاق لینے میں کامیابی تک کے مراحل کو آپ بیتی کی صورت میں ایرانی نژاد فرانسیسی صحافی اور مصنفہ ڈلفن مینوئے (Delphine Minoui)نے”I’m Nujood: Age 10 and Divorced” کے نام سے تحریر کیا ہے۔ نجود علی جبری اورکم عمری کی شادی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہیں اوران کی آپ بیتی کااب تک تیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔اردو میں اس کتاب کا ابھی تک کوئی ترجمہ سامنے نہیں آیا۔ ہمارے سماج میں بھی جبری و کم عمری کی شادی اور گھریلو تشددایک المیے کی صورت موجود ہے۔ ایک باہمت کم عمر لڑکی کی آپ بیتی یقیناً ہمارے ذہنوں کو ضرور جھنجھوڑے گی۔ سہ ماہی تجزیات اس کتاب کا اردو ترجمہ قسط وار شائع کررہاہے۔ اس سلسلے کی تیسری قسط آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ (مدیر) |
تبصرہ کتب |
مترجم : سعید نقوی تبصرہ نگار:شوذب عسکری
یووال نوح ہریری کی کتاب بندہ بشر جب میں نے پہلی بار دیکھی تو یہ مجھے نصاب کی ایک کتاب کی مانند محسوس ہوئی۔ یہ باب در باب معلومات سے بھری ہوئی ایک ضخیم کتاب تھی۔ خوش قسمتی سے جب میں نے اس کا مطالعہ شروع کیاتو یہ نصاب کی کتاب کے برعکس ایک دلچسپ ناول کی طرح پڑھی جانے لگی۔ یہ قاری کو پہلے ہی صفحے سے جکڑ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ میں ورق ورق اس کے دلچسپ انداز میں گم ہوتا چلا گیا کیونکہ معلومات ایک تسلسل کے ساتھ روانی میں ایک حقیقت سے دوسری حقیقت تک جڑی ہوئی تھیں۔ یہ کتاب چار حصوں میں منقسم ہے جس میں پہلا حصہ ادراکی انقلاب کے متعلق ہے۔ ہریری کے مقاصد واضح ہیں وہ ہمیں یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ اس کرہ ارض پہ بحیثیت انسان ہمیشہ سے ہم ہی اکیلے نہیں تھے۔ درحقیقت ہماری یکتائی ایک منفرد خصوصیت ہے۔ بشر اپنے قاری کو یہ حوصلہ دلاتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے متعلق معروضی انداز سے جائزہ لے اور انسانیت کے آدرش کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرے۔ یہ کتاب ہمیں اس جانب متوجہ کرتی ہے کہ ہمارا ارتقا ایک جانور کے روپ میں آ ج کے دن تک کیسی تبدیلیوں سے گزرا، ہریری انسانوں کو فطرتاََدیگر انواع سے برتر خیال نہیں کرتے۔ وہ ان تمام نظریات کو گہرائی سے جانچتے ہیں جن کا موضوع نسل انسان کا ارتقا ہے۔ |
تبصرہ نگار: حذیفہ مسعود
ڈاکٹر ساجد جاوید سرگودھا یونی ورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں۔ ان کی تازہ کتاب’’اردو لسانیات اور مستشرقین‘‘ عکس پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی ہے جسے اردو ادبیات میں نمایاں اضافہ کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ساجد جاوید کی یہ کتاب ان کی شبانہ روز کوششوں، اردو زبان سے ان کے لگائو اور تحقیق و مطالعے جیسے مشکل اور کٹھن کام میں ان کی حد درجے دلچسپی کی عکاس ہے۔ ان کی یہ تصنیف قاری کو نہ صرف اردو بلکہ دیگر مقامی زبانوں کے تاریخی پس منظر سے بھی آگاہی فراہم کرتی ہے۔ اپنی تصنیف میں فاضل مصنف تاریخی شواہد کی بنیاد پر اردو کے ابتدائی ادوار، اس کی نمو، لسانی ساختیات اور ایک باقاعدہ زبان کے طور پر اپنے آپ کو منوانے تک کے مراحل کی نہایت عرق ریزی سے تصویر کشی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اردو زبان پر دیگر زبانوں کے اثرات، اس کے لسانی قواعد و ضوابط کی تشکیل، اس کی وسعت اور نشر و اشاعت میں حصہ لینے والے مقامی اور غیر ہندوستانی، بالخصوص مغربی یا برطانوی اہلِ علم کی کوشش و کاوش سے بھی آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
|
تبصرہ نگار:شفیق منصور
زیرنظر تحقیق محمد نعیم ورک کا اردو ادب میں پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے، جو کتابی صورت میں شائع کیا گیاہے۔اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں انہوں نے 1869 سے1947 تک اردو زبان میں لکھے جانے والے ناولوں کا ثقافتی مطالعہ کیا ہے۔یوں تو ناول اور ثقافت کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ کہانی جس زمان ومکان میں جنم لیتی ہے اس کی کی ریت روایات اور ثقافتی مظاہر کو بھی اپنے جذب کرلیتی ہے جس کی جھلک کہانی کی بْنت اور روح میں واضح نظر آتی ہے۔لیکن ناول نگاری کی صنف چونکہ مغرب سے آئی ہے اور اس پر جو نقد لکھا گیا اس کا منہج بھی عموما وہی ہوتا ہے جو مغرب سے وارد ہوا، اس لیے جب اردو ناولوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو اس میں ایک گونہ اجنبیت اور روکھاپن باقی رہتا ہے اور مقامی ثقافتی پہلو کسی حد تک نظرانداز ہوجاتے ہیں۔ محمد نعیم ورک نے اس روایت کو بدلنے کی کوشش کی ہے اور اردو ناول نگاری کا اعتماد کے ساتھ ثقافتی مطالعہ کیا ہے۔ |
الہلال پبلیکیشنز، شعبہ تعلقاتِ عامہ افواجِ پاکستان تبصرہ نگار: حذیفہ مسعود
’’تحریکِ پاکستان کے اساسی افکار‘‘(Foundational Thoughts of Pakistan Movement) شعبہ تعلقاتِ عامہ افواجِ پاکستان کے اشاعتی ادارے الہلال پبلیکیشنز سے اشاعت پذیر ہوئی ہے جس کا مقدمہ شعبہ تعلقاتِ عامہ افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل آصف غفور باجوہ نے لکھا ہے۔ زیرِ نظر کتاب تحریکِ پاکستان کے قائدین، سر سید احمد خان، علامہ محمد اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مختلف خطبات و مضامین سے لیے گئے اقتباسات، مختلف خطبات اور خطوط پر مشتمل ہے جو قاری کو تحریکِ پاکستان کے پسِ منظر، مختلف تاریخی واقعات اور ان کے جواب میں بانیانِ پاکستان کے موقف اور قیامِ پاکستان کی غرض و غایت سے روشناس کرواتے ہیں۔ |
تبصرہ نگار: شوذب عسکری
برصغیر پاک و ہند کی مشہور شاعرہ مترجم اور مصنفہ فہمیدہ ریاض کی زندگی اور حالات سے متعلق ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو ا ہے۔ جس کے پیش لفظ میں مصنف لکھتے ہیں: ذرا شمار کریں آج کے پاکستان میں کتنے لوگ ہوں گے جنہیں ہم اپنے عوام کا کلچرل ترجمان کہہ سکتے ہیں۔ہاتھوں کی انگلیوں کی جتنے بھی نہ ہوں گے۔ میرا دعوی ٰ ہے کہ ان میں سے ایک نام فہمیدہ ریاض کا بھی ہوگا۔ جالب اور گل خان نصیر کے بعد مزاحمت اور احتجاج کے ادب میں اس سے بڑانام اب کوئی اور نہیں ہے۔ |
تبصرہ نگار: حذیفہ مسعود
ملک اسلم اعوان معروف صحافی اور صاحبِ اسلوب قلمکار ہیں۔ وہ گذشتہ کئی برسوں سے ملک کے متعدد قومی و مقامی اخباروں کے ساتھ صحافیانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس وقت وہ موقر قومی اخبار ’’دنیا‘‘ کے ساتھ وابستہ ہیں اور باقاعدگی سے کالم لکھ رہے ہیں۔ وہ ’تجزیات‘ آن لائن کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کے پسندیدہ موضوعات کون سے ہیں۔ سیاست، ریاست، سماج ومعاشرت، ادب و ثقافت، تاریخ و روایت، بین الاقوامی معاملات اور قومی مسائل، غرض کسی بھی موضوع پر لکھنا جیسے ان کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں۔ غالباً شعرو صحافت کے ساتھ ان کی طویل وابستگی نے انہیں تقریباً تمام موضوعات سے متعلق لکھنا ان کے لیے سہل کردیا ہے۔ ان کے مضامین میں ہمیں خانہ پری کی بجائے حقائق و واقعات نظر آتے ہیں، وہ کبھی کبھی تخیلاتی دنیا میں ضرور جاتے ہیں لیکن اصلاً وہ حقیقت پسند ہیں اور سماجی کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ یہ بات ان کے صاحبِ مطالعہ ہونے، زبان و بیان پر دسترس اور اچھے مشاہدے کی عکاس ہے۔
|
تبصرہ نگار: شفیق منصور
زیر نظر شاعری کا مجموعہ’’اسے تصویر کرنا ہے‘‘ یوسف خالد کا جذبوں، رنگوں اور نغموں سے عبارت ایک ایسا تحفہ ہے جو شعری ادب میں قابل قدر اضافہ ہے۔ یہ شعری مجموعہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں آزاد نظمیں شامل ہیں جبکہ دوسرا حصہ غزلوں پر مشتمل ہے۔دونوں کی اپنی امتیازی خصوصیات ہیں جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں۔
|