working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

مطالعہ پاکستان

داعش کی جانب سے آن لائن بھرتی کی حکمت عملی

جے۔ایم۔برجر

جے ایم برجر امریکی تھنک ٹینک Brookingsسے وابستہ ہیں جہاں وہ امریکہ کے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ماہر مانے جاتے ہیں ۔دولت اسلامیہ پر ان کی کتاب "ISIS: The State of Terror" حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔وہ انتہاپسندی جیسے موضوعات پر ’’فارن پالیسی ‘‘ میگزین میں بھی لکھتے ہیں ۔ ان کا زیر نظر مضمون دولت اسلامیہ کی آن لائین سرگرمیوں کے حوالے سے ہے ۔یہ موضوع گزشتہ دنوں اس وقت بھی زیر بحث رہا جب کیلی فورنیا میں ایک مسلمان جوڑے نے دہشت گردی کی واردات کی ۔ تاشفین ملک کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے داعش کے امیر سے انٹر نیٹ پر بیت کی تھی ۔ داعش یا دولت اسلامیہ انٹر نیٹ کو کس طرح استعمال کرتی ہے تاکہ وہ لوگوں کو اپنے پراپیگنڈے سے متاثر کر سکے ۔ اس مضمون میں اسی نکتے کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے ۔(مدیر)

داعش نے آن لائن بھرتی کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے اہم اور مختلف ذرائع مختص کیے ہیں جن میں تنظیمی پیغامات کیلئے سماجی نیٹ ورک پر محتاط انداز میں تعارف شامل ہیں جو کہ کسی بھی عملی اقدام کا پیش خیمہ تصور ہوتا ہے یہ حکمت عملی ان بے شمار لوگوں کے ذریعے ہوتی ہے جو زیادہ وقت آن لائن پر صرف کرتے ہیں جن میں انہیں رضا کار بننے کی افادیت، اور ان مقاصد کیلئے اکسانے کی جذباتی ترغیب،داعش کے مقبوضہ خطے کی جانب ہجرت یا دہشت گرد حملوں کیلئے احکام شامل ہوتے ہیں۔

اس آواز پر مغرب سے آنے والے بے شمار جنگجوؤں اور غیر لڑاکا مہاجرین نے لبیک کہتے ہوئے داعش کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور وہ مغربی حمایتی جو کسی وجہ سے سفر نہیں کرسکتے انہیں یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے مادر وطن میں حملے کرکے اسے نقصان پہنچائیں اسی تناظر میں ابھی تک صرف امریکہ سے60 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جو کہ داعش کی حمایت میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے۔

تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان تمام افراد کی انتہا پسندانہ بنیاد پر تربیت اور بھرتی میں سماجی میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا داعش کے زیر اہتمامTwitter کا2015 میں جو ریکارڈ شائع ہوا اس کے مطابق اکتوبر2014 میں داعش کی حمایت میں زیر استعمال کم از کم46,000 ٹویٹر اکاؤنٹ کا کھوج لگایا گیا۔مذکورہ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد داعش کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ٹویٹر اکاؤنٹ معطل کردیئے گئے لیکن بہت سے صارفین نئے اکاؤنٹس کے ساتھ دوبارہ مصروف عمل ہوگئے۔نگرانی کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ اب بھی تقریباً40,000 کے قریب اکاؤنٹس داعش کیلئے تخریبی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جن میں سے شاید2000 ٹویٹنگ صرف برطانیہ میں ہیں۔

مشاہدہ کرنے والے داعش کی تشہیری مہم کے عوامل کی کامیابی کا شمار کرنے اور قابلیت جانچنے کیلئے ان پر متواتر نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن غیر فعال وسائل کی وجہ سے ابھی تک مخصوص قسم کی بنیاد پرستی کو ہی جانچا جاسکا ہے جبکہ یہ تنظیم وسیع پیمانے پر آن لائن مداخلت کرکے اپنے اہداف حاصل کرنے میں مشغول ہے۔

بعض اوقات کارکردگی کو تربیتی حوالے سے نتیجہ خیز بنانے کیلئے مختلف ثمر آور سماجی میڈیا سے بھی مدد لی جاتی ہے اس طرح رضا کاروں پر بھرپور توجہ دے کر ان کے دنیاوی نظریات کی تشکیل نو اور داعش کی خاطر براہ راست کام کرنے کی حمایت حاصل کی جاتی ہے جس میں’’ تنہا بھیڑیے ‘‘کی مانند دہشتگردانہ حملے سے لے کر داعش کے خطے کی جانب ہجرت کرنا شامل ہوتا ہے کچھ مخل کار اس تنظیم سے پختہ انداز میں جڑے ہوئے ہیں جبکہ باقی ماندہ غیر رسمی رضا کار ہیں۔

جن ممالک میں سماجی ماحول آن لائن مداخلت کیلئے سازگار ہے وہاں ایسے مواقع میسر آسکتے ہیں کہ آمنے سامنے بیٹھ کر داعش کے مفاد کے حوالے سے بات کی جاسکے۔ایسے ماحول میں یہ دیکھا گیا ہے کہ آن لائن کی بجائے حقیقی دنیا میں ملنے سے سرگرمیاں تیزی سے تشکیلی عمل سے گزرتی ہیں۔اس مداخلت میں کئی عناصر کا واضح کردار ہوتا ہے جس سے رضا کاروں کا حقیقی انتخاب کرنے اور ان کی کانٹ چھانٹ کیلئے معیار جانچنے کا موقع ملتا ہے ان میں سب سے اہم یہ نکات ہیں:

پہلا رابطہ:

داعش اپنے ہدف پر نظر رکھتی ہے۔

بھرتی کرنے والے ہدف کو جانچتے ہیں جو کہ داعش کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں یا جھکاؤ رکھتے ہیں۔

چھوٹے گروہ کی تشکیل:

مسلسل رابطہ رکھا جاتا ہے۔

ہدف کے بیرونی حلقہ اثر سے علیحدگی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

اطلاعات کی فراہمی:

داعش کی مناسب ہدف کیلئے کارکردگی کی پہچان اور حوصلہ افزائی

سماجی میڈیا کی مستعدی

داعش کے خطے کی جانب سفر

دہشت گردی کی کارروائیاں

داعش کے درجنوں معاون ان چالوں کو امریکیوں کو نشانہ بنانے کیلئے رضا کاروں سے تخریبی کام لیتے ہیں اسی طرح کی مزید سرگرمیاں فرانس،برطانیہ،بیلجیئم اور دوسرے یورپی ممالک میں بھی جاری ہیں۔باقی دنیا میں بھی ایسا ہورہا ہے لیکن وہاں مختلف علاقوں میں مسائل کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہونے کی وجہ سے وسیع گنجائش موجود ہے ،ہر اکھاڑے کی تکنیک قطعاً مختلف ہوتی ہے بعض اوقات ان کا پھیلاؤ غیر معمولی صورت اختیار کرلیتا ہے اور بعض ایسے خطے ہیں جو جغرافیائی طور پر دولت اسلامیہ کے قریب ہیں یہ صورتحال بھرتیوں کے معاملات کو آف لائن حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔اس مضمون میں داعش کی جانب سے امریکی اور یورپی لوگوں کی آن لائن بھرتی تک رسائی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

پہلا رابطہ:

داعش ایک متحرک رضا کار کی تربیت سے پہلے ابتدا میں ان سے رابطے کو مضبوط بناتی ہے۔یہ رابطہ بھرتی کاروں یا متحرک رضا کاروں کی وساطت سے کیا جاسکتا ہے۔بھرتی کار ایسے گروہوں کی آن لائن تلاش وہاں جاری رکھتے ہیں جہاں وہ سمجھتے یہ ہیں کہ وصول کنندگان کا ملنا آسان ہے تاہم وہ خود بھی انتہائی متجسس یا متلاشی لوگوں کے لئے خود کو ہر وقت دستیاب رکھتے ہیں۔

داعش کے معاونین،انتہا پرستوں اور مذہبی دھارے میں رہنے والے عام مسلمانوں کی آن لائن نیٹ ورک کے ذریعے تلاش میں رہتے ہیں تاکہ وہ مطلوبہ ہدف ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں۔

جولائی2015ء کے ایک تجزیے کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ داعش کے انگریزی بولنے والے حامیوں کے1600 ٹویٹر اکاؤنٹس ایسے تھے جن کے مسلم سماجی میڈیا کے واسطے سے رابطے تھے یہ لوگ بنیاد پرست ضرور تھے مگر پرتشدد تھے اور نہ ہی کسی انتہا پسندانہ کارروائی سے جڑے تھے۔

ان لوگوں میں سب سے اہم اکاؤنٹس ان لوگوں کے تھے جو برطانیہ کیCAGE نامی تنظیم( جو پہلے پنجرے کے قیدی کہلاتی تھی)کے رکن تھے اس تنظیم کی بنیاد گوانتاناموبے کے سابق قیدی معظم بیگ نے رکھی تھی اور یہ مسلمان قیدیوں کے حقوق کیلئے کام کررہی تھی۔CAGEنے کئی متنازع فیہ نظریات پر استدلال پیش کیے تھے اور اس کے انتہا پسند دہشتگردوں سے رابطے تھے جن میں القاعدہ کی امریکی شخصیت انور العالقی اور داعش کا برطانوی قومیت کا حامل محمد عموازی جو کہ ’’جہادی جان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے شامل ہیں۔اس کے علاوہ ان اشخاص نے سابق’’المہاجرون‘‘ نامی برطانوی نیٹ ورک میں اکاؤنٹس کھول رکھے تھے،ادھر مسلمان قیدیوں کے حوالے سے یہ موضوع انتہا پسندی کے جذبات کو خوب ابھارتا،انتہا پسند تنظیمیں مخصوص علاقائی آمیزش کے ساتھ انگریزی زبان کی ملاوٹ سے اہم تراکیب ترتیب دیتیں جیسا کہAuthentic Tauhead(مستند توحید) جس کی انگریزی بولنے والا مشہور بنیاد پرست ملا عبداللہ فیصل رہنمائی کرتا وہ القاعدہ کی حمایت سے دست بردار ہو کر اب داعش کا معاون بن چکا تھا،جس میں Islamic Thinker Society شامل تھی اس تنظیم کی بنیاد نیو یارک میں رکھی گئی تھی اس کے القاعدہ کے امریکی رضا کاروں سے رابطے تھے،یہ بھی اب داعش سے ہمدردیاں بڑھا رہی تھی، اس کے علاوہIslamic Awakening کے نام سے پیغام رسانی کی مکمل مجلس تھی یہ ایک ایسا فورم یا پلیٹ فارم تھا جس سے کوئی بھی استعمال کنندہ یا صارف وسیع معلومات حاصل کرسکتا تھا جو قدامت پرستی سے لے کر انتہا پسندی کے ہر مرحلے پر محیط تھیں۔

ان گروہوں کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے داعش کے معاونین متحرک رضا کاروں کی تلاش جاری رکھتے خاص طور پر مغرب مخالف جذبات کا اظہار کرنے والے افراد چھانٹ لیے جاتے پھر ہر ایک کا بہ نظر عمیق تجزیہ کیا جاتا مثلاً داعش کے معاونین،دولت اسلامیہ کی جانب’’ہجرہ‘‘(ہجرت) کیلئے حامی بھر لینے پر اس جذبے کی مذہبی اہمیت تسلسل سے اجاگر کرتے،دوسرے معاملات میں وہ ہدف کی جانب سے پوسٹ کیے گئے سوالوں کے جوابات بھی دیتے رہتے جس میں پالتو جانوروں،خوراک اور سیاست وغیرہ کے ٹویٹ شامل ہوتے۔

2014 کے پہلے نصف میں یہ ممکن ہوا کہ داعش کے آن لائن پروپیگنڈے سے اتفاقیہ آمنا سامنا ہوگیا اس میں مختلف گروہوں کی جانب سے نشر ہونے والی تکنیک کے وافر استعمال کا ہاتھ نمایاں تھا مثلاًbots(معاملات کا خود کار سافٹ ویئر جو زیادہ مقدار میں ٹویٹ کرے) اورHashtag spamming( دھوکہ دہی کے ٹویٹس کی پہچان اور جوابی ٹویٹس) وغیرہ وغیرہ۔تاہم داعش کے سماجی میڈیا کے اکاؤنٹس فیس بک،یو۔ٹیوب اور حالیہ دنوں میں ٹویٹر کی جانب سے سماجی میڈیا کی معطلی سے ان کی حکمت عملیوں کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔امریکہ میں داعش سے متعلقہ نصف تعداد کو جنوری سے جولائی کے درمیان فیس بک کے استعمال کی بنیاد پر تلاش کرکے گرفتار کیا گیا۔

داعش میں دلچسپی کے عام وجہ اکثر اوقات میڈیا کے عمومی بہاؤ کی بھی مرہون منت رہی ہے تاہم اس میں سماجی میڈیا کے کردار کا تناسب کم ہے۔میڈیا کی جانب سے جون2014 میں موصل پر داعش کے قبضے اور نظام خلافت کے دوبارہ احیاء کے دعوؤں کو خبروں اور شہ سرخیوں کی زینت بنانے سے ڈرامائی انداز میں لوگوں میں دلچسپی ابھری حالانکہ سماجی میڈیا کی معطلی نے داعش کے اشاعتی پروپیگنڈے کو محدود کردیا ہے اور اب بھی یہ نسبتاً آسان ہے کہ ان کے آن لائن معاونین کا کھوج نکالا جائے۔یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب آن لائن ایک بار رابطہ ہو جاتا ہے تو ہدف کی نفسیات کے مطابق اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ داعش کے حامی بشمول غیر ملکی جنگجو عموماً دوستانہ لہجے میں سوالات پوچھتے ہیں تاہم نو آموز افراد سے تعلقات گہرے بنانے کیلئے صبر آزماانتظار کیا جاتا ہے۔

داعش کے معاونین اور بھرتی کار مختلف افراد سے غیر محسوس طریقے سے رابطے میں رہتے ہیں چاہے یہ گفتگو ٹویٹ کے ذریعے ہو یا سماجی میڈیا کے دیگر ذرائع سے اور پھر باعث نزاع انگیز واقعات کے متعلق موافق آگاہی دیتے ہیں مثلاً ان دنوں فرگوسن،میسوری اور بالٹی مور،میری لینڈ میں بدامنی و بے چینی پائی جاتی تھی یا نسلی بنیادوں پر چیلسٹن، جنوبی کیرولینا میں دہشتگرد حملے ہورہے تھے جبکہ داعش نے ان واقعات کی ملمع سازی کرکے انہیں اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا لیکن اس کے نہایت قلیل شواہد ملے ہیں کہ وہ ان سے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہوں۔

چھوٹے گروہ کی تشکیل:

جب پہلا رابطہ مضبوط ہو جاتا تو پھر داعش کے بھرتی کار اور معاونین ایک چھوٹے گروپ یا گروہ کی مدد سے فوراً ہی ہدف کے گرد گھیرا تنگ کردیتے ہیں بھرتی کار اپنے داؤ آزمانے کیلئے موجود ہوتے ہیں اور وہ کبھی کبھی50سے60 کی حد تک ٹویٹ شائع کرتے ہیں اور مطلوبہ زرخیز مواد کا ڈھیر لگا دیتے ہیں اور دوسرے لوگ سماجی میڈیا میں بیٹھنے والے دیگر عادی افراد کو ٹویٹ کرکے دلچسپ خبریں،تصاویر اور دلچسپ ویڈیوزبھیجتے رہتے ہیں اس طرح وہ اپنی موجودگی برقرار رکھتے ہیں اور پھل پکنے کا انتظار کرتے ہیں۔

جوں جوں یہ تعلقات مضبوط ہوتے جاتے ہیں تو داعش کے سبک خرام معاونین دن رات ایک کرکے اپنے اہداف کے تعاقب میں ان کے فارغ اوقات کا تعین کرکے گفتگو کے گرداب میں لے آتے ہیں ۔

داعش کے معاونین ابتدائی رابطے کے بعد ضروری نکات پر اپنے ہدف کو پرانے دوستوں کے گروہ سے علیحدہ کرتے ہیں اور اس کیلئے انہیں پر اثر گفتگو کے زور پر قائل کیا جاتا ہے کہ وہ غیر مسلموں سے دوستی نہ رکھیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ لوگ ناقابل بھروسہ ہیں۔بھرتی کار اس مقصد کیلئے بعض اوقات مذہبی قانون’’الولاء ولبداء‘‘(یعنی مسلمان سے وفاداری اور غیر مسلموں سے قطع تعلق) کا استعمال کرتے ہیں۔ایک ٹویٹر صارف نے قدامت پسند مسلمان ہدف سے کسی مسئلے کے جواب میں اس سے پوچھا’’آپ کا’الولاء ولبداء‘ کہاں ہے‘‘۔ایک دوسری ٹویٹ میں ملا کی وساطت سے پوچھا گیا’’اے شیخ!تم عقیدہ کے متعلق تو بات کرنا چاہتے ہو لیکن الولاء والبداء کو نظر انداز کررہے ہو‘‘۔

سماجی میڈیا پر مسلمان مخالف سرگرمیوں پر بھرتی کاروں کی جانب سے خود کو تنہائی کی جانب راغب کرنے کے متحرک پیغامات پر حوصلہ افزا رد عمل کا اظہار کیا جاتا ہے اس طرح د اعش میں دلچسپی رکھنے والے ایسے ٹویٹ کے استعمال کنندگان خود بخود ہی تنظیم کی جانب کچھ چلے آتے ہیں۔اس سلسلے میں مئی2015ء میں گارلینڈ،ٹیکساس میں پیش آنے والے واقعے کی مثال پیش کی جاسکتی ہے جہاں Draw Mohammad کے عنوان سے ایک مقابلہ ہوا اور حملے سے چند روز پہلے Elton Simpson کے اکاؤنٹ پر جذباتی ٹویٹس کے ذریعے ہدایات دی گئی تھیں وہ دو بندوق برداروں میں سے ایک تھا اور اس نے مذکورہ مقابلے کے انعقاد پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

داعش کے معاونین کی جانب سے ممکنہ رضا کاروں کو تمام مسلمانوں پر بھی بھروسہ نہ کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے جو کہ عام عقائد کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے نظریے کے دلیل میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ گمراہ ہیں اور کفر کے درجے تک پہنچ چکے ہیں ۔انگریزی سمجھنے والے صارفین میں عام دھارے کے یہ مسلمان ناریل(Coconuts) کے نام سے جانے جاتے ہیں نسلی حوالے سے اس اصطلاح کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ ان کی باہر کی سطح بھوری ہے اور اندر سے سفید ہیں، ان اہداف کو مساجد کا رخ نہیں کرنے دیا جاتا کہ کہیں یہ اپنے تاثرات کی وجہ سے ظاہر نہ ہو جائیں۔

آخر کار ان اہداف کوجو کہ داعش کی معاونت اختیار کرلیتے ہیں ان کو پرانے ساتھیوں سے علیحدہ کرنے کی حکمت عملی پر تیزی سے عمل درآمد کو ممکن بنایا جاتا ہے۔سماجی میڈیا کے یہ استعمال کنندگان پہلے آف لائن ہونے کے بعد نئے اکاؤنٹس کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور اکثر پہلے کی نسبت کم اکاؤنٹس استعمال کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثریت ایسے اکاؤنٹس بند کردیتی ہے جن کا داعش سے ربط نہ ہو۔ایک سال قبل جب سے معطلی میں شدت کا عمل شروع ہوا ہے تب سے داعش کے مخالفین کی نسبت اس کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔

اطلاعات کی فراہمی:

جب ایک مرتبہ تعلقات بننا شروع ہو جائیں تو باہمی عامل دوست ذاتی مواصلاتی رابطوں سے جڑ جاتے ہیں اس طرح عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل دہشتگردانہ حملوں کیلئے بھرتی کا مقصد اور ترغیب کا عمل آسانی سے شروع کیا جاسکتا ہے۔

اس طرح سوشل میڈیا کے دیگر دستیاب شدہ وسائل یعنی ٹویٹر اور فیس بک کی وساطت سے نجی طور پر پیغامات کے ذریعے باہمی گفتگو کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔

داعش کے بھرتی کار اکثر پیغامات کی رسائی کیلئے متبادل ذرائع کو ترجیح دیتے ہیںChat کے ان سافٹ ویئر زمین وٹس ایپ(whatsapp)،کک(kik)،شور سپاٹ(surespot) اور ٹیلی گرام شامل ہیں۔داعش کے کچھ معاونین اپنے استعمال کی فہرست میں شامل معلومات کو ٹویٹر میں ہی محفوظ رکھتے ہیں جبکہ کئی افراد حفاظتی نقطہ نظر سے ایسا نہیں کرتے۔معلومات پیغامات کا محفوظ طریقے پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کرنے کیلئے ٹویٹ اور نجی گفتگو کا سہارا ہی لیا جاتا ہے۔

داعش کیلئے کام کرنے والے اپنے اہداف کو دولت اسلامیہ خطے کی جانب ہجرت کے متعلق استفسارات کیلئے مختلف ذرائع اور کوڈ کو استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔اس تبدیلی کوFBI کے ڈائریکٹرJames Comey نے’’going dark‘‘ کے نام سے نشاندہی کی ہے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کی جانے والی مسلسل نگرانی سے یہ باتیں سامنے آئی ہیں۔

بیرونی ذرائع سے اگر کوئی ارسال شدہ اشاعت ڈھونڈ لی جائے تو اس ہدایت کو انتہا پسندی کی بڑھتے ہوئے تناظر کے پس منظر میں پڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کچھ بھرتی کار آواز اور وڈیو کے ذریعے گفتگو کیلئے سکائپ(skype) کا استعمال کرتے ہیں تاہم یہ معاملات باقاعدگی سے پہلے پبلک ٹویٹ پر زیر بحث لائے جاچکے ہوتے ہیں صرف ایک موقع پر ایسا ہوا کہ بھرتی کار نے ڈاک کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔

امریکہ میں آن لائن بھرتی میں کمی دیکھی گئی ہے اور پرانے زمانے کے طریقہ کار کی طرح موقع پر ہی بھرتی کی سرگرمیوں کی اطلاعات ملی ہیں اور یورپ میں بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے۔عمومی طور پر آف لائن بھرتی کا معاملہ نہایت واضح ہے کیونکہ اس طرح داعش کے علاقے میں پہنچنے کی حکمت عملی آسان ہو جاتی ہے۔

عملی حوصلہ افزائی:

یہ فیصلہ داعش کے بھرتی کار یا معاون کے ذمے ہے کہ وہ رضا کار کے ساتھ تعلقات کی بنا پر بتائے کہ وہ ہدف کو کس کارروائی کیلئے موزوں خیال کرتا ہے اور پھر اس مقصد کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

اس طریقہ کار کے تحت یہ کام پہلے بھی ہوسکتا ہے اور بعد میں بھی لیکن اس کا انحصار ہدف کی تیاری پر ہوتا ہے۔کچھ اہداف نسبتاً نئے اکاؤنٹس کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور فوراً ہی داعش کے معاون یا بھرتی کار سے رابطے کی درخواست کردیتے ہیں اس طرح اکثر شکوک و شبہات بھی جنم لیتے ہیں حالات کی روشنی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی بھرتی کار کو ہدف کی دیانتداری پر شک ہو جائے تو پھر اس خاتون یا مرد کیلئے یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ تنہا اکیلے بھیڑیے کی طرح جا کر حملہ کردے اس طرح داعش کا معاونی نیٹ ورک کسی خطرے سے دوچار نہیں ہوتا۔

داعش کی سائٹس استعمال کرنے والے صارف بنیادی سطح پر سماجی میڈیا کے توسط سے ہی ہدف بنتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ داعش کے ساتھ ان کے روابط میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔اگر ہدف کو بے حد مشغول و مصروف کردیا جائے کہ اس کا اپنا اکاؤنٹ معطل ہو جائے تو اس طرح وہ مرد یا عورت داعش کے معاونین کی جانب سے مہیا کردہ tools کے ذریعے نیا اکاؤنٹ کھول سکتا ہے۔انگریزی سمجھنے والے داعش کے حامیوں کو اکھٹا رکھنے والا ایک اہم اکاؤنٹbaqiya shoutout کے نام سے ٹویٹر پر موجود ہے۔یہ ان انگریزی جاننے والوں کے اکاؤنٹس کا ریکارڈ رکھتا ہے جو معطل ہونے کے بعد واپس آتے ہیں اور اس کے علاوہ تجاویز کی فہرست بھی اسی میں ترتیب دی جاتی ہے اور ان اکاؤنٹس کی معمول کے مطابق معطلی اور پھر انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جانا بھی شامل ہے۔سماجی میڈیا کی سرگرمیوں کے علاوہ بھی صارف یا استعمال کنندہ کئی دوسرے ٹھوس طریقوں سے داعش کیلئے کام کر سکتا ہے جس میں سب سے اہم قدم دولت اسلامیہ کی جانب مراجعت اور دہشتگردی کارروائیاں ہیں۔

بھرتی کار اپنے اہداف کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی قسم کی کارروائی کو ترجیح دیتا ہے تاہم ہجرت کیلئے تلقین مقدم ہوتی ہے۔دولت اسلامیہ اپنے آپ کو نئی ریاست کی تعمیر کیلئے ایک پراجیکٹ کے روپ میں دیکھتی ہے جس کیلئے نہ صرف جنگجوؤں کی ضرورت ہے بلکہ پیشہ ور اور ہنر مند بھی چاہئیں یہ لوگ چاہے خاندان کی شکل میں ہجرت کرکے آئیںیا اکیلا ہونے کے باعث دولت اسلامیہ میں آکر رنگا رنگ تقریب میں شادی رچالیں۔یہ ایک ایسا ہزار سالہ منصوبہ ہے جس کے لئے داعش اپنے پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے مثالی جنت کا تصور پیش کرتی ہے اور یہی ا س کی اہمیت اور قدر و قیمت کا باعث ہے۔

کچھ اہداف یہ سمجھتے ہیں کہ ہجرت ہی ایک حل نہیں۔گورنمنٹ بھی راستہ روک سکتی ہے یا معاشی مسائل بھی درپیش ہوسکتے ہیں۔ان حالات میں داعش کے بھرتی کار اور معاونین اپنے ہی گھر اور ملک میں دہشت گرد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس قسم کی سب سے اہم مثال بالواسطہ ٹویٹ کی صورت میں سامنے آیا جس میں اس طرح کے حملے کی دھمکی تھی مثلاً ’’اوکے!وہ لوگ7/7 کے متعلق بہت باتیں کررہے ہیں۔بدھ نیلا ہم انہیں ہر روزنشانہ بنانا جاری رکھیں گے تاکہ یہ واقعات2/2،1/1 وغیرہ کی طرح یاد رکھے جائیں،#sevenseven اور’’ان کے نام جو اپنے اندر ہی ہجرت نہیں کرسکتے وہ اگلا قدم کیسے اٹھائیں گے۔ایک بم پھوڑیں،ایک بندوق اٹھائیں،ایک چاقو استعمال کریں ایک کار یا بڑی چٹان بھی ہوسکتی ہے#دولت اسلامیہ‘‘(ٹویٹس کا انداز یہی تھا)۔

بعض اوقات خاص قسم کی ہدایت و رہنمائی بھی مہیا کی جاتی ہے گارلینڈ میں فائرنگ میں ملوثElton simpson والے واقعے میں متعدد براہ راست احکام ڈھونڈ نکالے گئے حالانکہ وہ ٹؤٹر اکاؤنٹ کے ذریعے دی جانے والی ہدایت کے بدولت تھا اس اکاؤنٹ کو حملے سے پہلے معطل کردیا گیا تھا تاکہ حملے سے متعلق ان ٹویٹس کو مدنظر رکھ کر بچاؤ کیلئے کوئی احتیاطی تدابیر نہ کی جاسکیں لیکن یہ ٹویٹ جس اکاؤنٹ میں براہ راست بھیجی گئی تھی حملے کے بعد بھی وہاں موجود رہی۔

میڈیا کی اطلاعات کی بنیاد پر برطانوی ہیکر جنید حسین کے کردار کو مشکوک انداز میں پیش کیا گیا ہے، جس نے2013ء کے اردگرد کہیں داعش میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور وہ سماجی میڈیا پر بھی بہت سرگرم رہا،حکومت کے نامعلوم ذرائع سے پتا چلا ہے کہ جنید حسین کا بطور بھرتی کار اور حملوں کے فعال محرک کے طور پر کردار اہمیت کا حامل تھا، لیکن جب اس کی سمپسن کے ساتھ بات چیت ہوئی تو ایسا ہوسکتا ہے کہ یہ نجی سطح کا رابطہ ہو لیکن داعش کے بے شمار معاونین میں سے وہ واحد شخص تھا جس نے ایسا کیا تھا ان میں الرقہ میں سرگرم برطانوی جنگجو طارق ہمایوں بھی شامل تھا جو جنید حسین کا ساتھی اور اکا ابو مسلم البریطانی کے نام سے مشہور تھا اس کے زیر استعمال ٹویٹر کی پہچان’’@muslim_sniper-D‘‘ تھی۔

سمپسن کے سماجی نیٹ ورک پر دوسرے استعمال کنندگان،گارلینڈ کے واقعے کے متعلق حملے سے بھی ہفتوں پہلے ٹویٹ کررہے تھے اور بہت سے لوگوں نے تو وقت اور مقام کے متعلق رابطے بھی دستیاب کردیئے تھے مثلاً ایک ٹویٹ یوں تھی’’بھائیو اور بہنو!کفار ہمارے پیغمبرؐ کی تصاویر بنا کر نفرت بھری تقریریں کرتے پھر رہے ہیں‘‘ اور مزید معلومات کیلئے لنک کی سہولت بھی موجود تھی۔26 اپریل2015ء کو حملے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل داعش کے ایک معاون نے سمپسن کی ٹویٹ کا یوں جواب دیا’’تمہیں اب کچھ کر گزرنا چاہیے‘‘حملے سے دو دن پہلے بھی یعنی یکم مئی کو ایک استعمال کنندہ کی ٹویٹ دیکھی گئی’’کفار پاگل ہو چکے ہیں وہ حضورؐ کی تصویریں بنا رہے ہیں‘‘ایک اور ٹویٹ اس طرح تھی’’ ٹیکساس میں موجود بھائیو اپنے ہتھیاروں،بموں اور چاقوؤں کے ساتھ وہاں جاؤ اور اپنے نبیؐ کی ناموس کی حفاظت کرو تمہارے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے‘‘۔(دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ استعمال کنندہ جس نے آخری ٹویٹ پوسٹ کی تھی ایک امریکن دھوکہ بازتھا جس نے جان بوجھ کر اپنے آپ کو داعش کا معاون ظاہر کیا تھا اسے انہی دنوں میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

دھوکہ دہی کے دیگر پہلو اس سے بھی مضبوط اور چالاک بنیادوں پر استوار ہوسکتے ہیں جیسا کہ سمپسن کے حوالے سے اطلاعات ملیں کہ اس نے خواب میں ایک نقاب پوش لڑکی کو دیکھا جو اسے سڑک کے کنارے کھڑی دیکھ رہی تھی اس کے آن لائن دوستوں کی وساطت سے پتا چلا کہ اس کے خیال میں اسے شہادت نصب ہونے والی تھی۔ حملے سے پہلے سمپسن نے داعش کے معاون سے رابطہ کیا تھا جو کہ ٹویٹر پر’’End of time Dreams‘‘ کے نام سے پہچانا گیا جس میں تسلیم کیا گیا کہ اس نے انگلش سمجھنے والے استعمال کنندہ کے خواب کی تعبیر کا عربی زبان کے ماہر سے تذکرہ کیا تھا حملے کے بعد پوسٹ کی گئی معلومات سے پتا چلا کہ سمپسن نے دوسرا خواب بھی دیکھا تھا جس میں ایک مرد نظر آیا تھا اور ایک تلوار بھی دکھائی دی تھی،سمپسن نے’’End of time Dreams‘‘ کا ذکر28 اپریل کے اردگرد کیا تھا۔

تاہم اس قسم کی مداخلت نسبتاً خال خال ہی دیکھی گئی ہے اور اس بات کی تصدیق آزاد ذرائع اور عدالتی دستاویزات سے بھی ہو چکی ہے۔

اختتامیہ:

داعش کی جانب سے بنایا ہوا سماجی میڈیا کا ماحولیاتی نظام انتہا پسندانہ کارروائیوں کیلئے ایک ایسی سڑک ہے جس پر گروپ کی جانب سے ٹھوس اقدامات کیلئے جگہ جگہ احتیاطی اقدامات اور مداخلتی اشتہارات لگے ہوئے ہیں اور پروگرام کے مطابق مسائل سے نمٹنے کیلئے بہت سی عملی رکاوٹیں ہیں اور سماجی میڈیا میں داعش کی حمایت میں پوسٹ کیے جانے والے بہت سے پیغامات ایسے بھی ہیں جن پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوسکا اور اس پر بھی کوئی اتفاق نہیں کہ متشدد کارروائی کیلئے کب اشارہ ملے اور کسی مخصوص وقت میں بروقت مداخلت کی جائے یا کس قسم کی مداخلت نہایت موزوں ہے۔

فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آتا ہے جب ترسیل کا نجی چینلز کی جانب بہاؤ ہوتا ہے جب یہ تبدیلی عمل میں آجاتی ہے تو پھر چینلز کی جانب سے مہیا کردہ خفیہ سروس(Privacy)یا جملوں کو اشاروں کی ایسی خفیہ تحریر میں تبدیل کردیا جاتا ہے جو کہ دوسروں کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے اس طرح پیغامات محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن تمام صارفین جو اس نجی یا ذاتی تعلق میں شامل ہو جاتے ہیں ضروری نہیں کہ کام کے اہل بھی ہوں گے لیکن دولت اسلامیہ کے بہت سے معاونین ایسے بھی ہیں جن کے عملی کام سے یہ تسلسل جاری و ساری رہے گا۔

مزید براں اس مضمون میں جتنی معلومات کا تجزیہ کیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے صارفین جنہیں انتہائی ہدایات خواب کی تعبیر ، روشنی میں یا مالی مدد کے ذریعے ملتی ہے وہ دوسرے متحرک رضا کاروں کی نسبت عملی قدم اٹھانے کے زیادہ اہل ثابت ہوسکتے ہیں۔

کسی حد تک انتہا پسندی کے ترتیب شدہ واضح معاملات کا رخ تبدیل کرنا ممکن ہے خاص طور پر جب کسی متشدد کارروائی کا احتمال ہو یا پھر ہجرت کا معاملہ ہو اس کے علاوہ کلیدی بھرتی کار اور محرک بھی بے نقاب ہوسکتے ہیں پہلے سے موجود آن لائن نگرانی کرکے بھرتی کے ایسے ذرائع اور نیٹ ورکس کو تلاش کیا جاسکتا ہے جہاں سے ہدایات ملتی ہیں یا جہاں سے ہدف کو کام مکمل کرنے کے احکام ملتے ہیں۔

اشارہ جات:

(a) داعش کی جانب سے آن لائن بھرتیوں کی کامیابی کے باوجود اس میں کئی مسائل ہیں۔ان کے معاون کاروں کی تعداد ٹویٹر استعمال کرنے والے صارفین کا محض ایک فیصد کا بھی کچھ جزو ہے اور فعال طریقے سے کسی بھی علاقے میں انتہا پسندی کی کارروائی کرنے والے صارفین کی تعداد تواس سے بھی کم ہے۔ان مسائل پر حکمت عملی بنانے والوں اور محققین کو بہت توجہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے اور مسائل کو حقائق کے تناظر میں رکھنا پڑے گا۔

(b) اس مضمون میں1600 اکاؤنٹس کی بنیاد پر حقائق اخذ کیے گئے جن میں دولت اسلامیہ کے معاونین،بھرتی کار اور مخالفین بھی شامل تھے جو ٹویٹر پر ساتھی تھے اور باہمی طور پر پیغامات سے جڑے تھے۔جولائی2015 میں نگرانی سے پتہ چلا کہ یہ کام اگست میں500،اکاؤنٹس کی معطلی اور پھر بہت سے صارفین کے نئے اکاؤنٹس بنانے کے عمل پر مشتمل تھا۔

(c) رسمی اور غیر رسمی شریک کاروں کا تناسب واضح نہیں ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سماجی میڈیا پر باہمی ملاپ سے ایک بات سامنے آئی کہ ابتدائی طور پر جب ایک شخص کو داعش کے حق میں رسمی طریقے سے ہموار کیا گیا تو اکثر یہ تعداد4یا5 تک جاپہنچی۔

(d) یہ ڈیٹاJ.M.Berger نے Berger & Morgan کے واضح کردہ میٹرکس کی بنیاد پر تجزیہ کیا۔’’ The ISIS Twitter Census‘‘۔

(e) یہ دعوت(dawah) کے نام سے عام مسلم اکاؤنٹس ہیں جن میں بنیاد پرستی کا کوئی شائبہ نہیں اس میں دین کے حوالے سے الہامی کہانیاں اور فرمان شامل ہوتے ہیں۔

(f) ٹویٹر پر90 فیصد ٹویٹس’’make hijra‘‘ یعنی’’ہجرت کریں‘‘ کے نام سے دریافت ہوئی ہیں اور انہیں دولت اسلامیہ کے معاونین بشمول وہ لوگ جنہیں انتہائی نگرانی کے عمل کے بعد راغب کیا گیا جانب سے استعمال کیا گیا تھا جبکہ بقیہ داعش کے معاونین کیلئے طنز آمیز ٹویٹس تھے چند اہم ٹویٹسbot(خودکار سافٹ ویئر) کی جانب سے دوبارہ بھیجے گئے تھے یکم اگست2015 کو حاصل شدہ ٹویٹ یوں تھی’’اب تمہارے مشاہدے کے مطابق ہجرت کیلئے اور کتنی دیر لگے گی اس سے پہلے کہ تمہیں بھی اپنے جانے کا خیال آجائے؟ اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور جتنا جلدی ہو چھوڑ دو‘‘ اور’’ آپ جتنی بھی صومالیہ کی رہنے والی بہنیں یہاں مغرب میں رہائش پذیر ہو،فوراً ہی اپنے مادر وطن کی جانب ہجرت کرو اور وہاں مجاہدین کے ساتھ شادیاں رچالو،فوراً عمل پیرا ہو جاؤ۔‘‘

(g) یہ تخمینہ49 میں سے25 مجرمانہ شکایتوں کی بنیاد پر اخذ کیا گیا تھا۔

(h) صارف کے جذبات کو اکسانے والی ٹویٹس جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے وہ سمپسن کے سابقہ استعمال میں تھیں اور انہیں معطل کردیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سمپسن کی اس عرصے کی زیادہ تر اصل ٹویٹس بھی دوبارہ حاصل نہ کی جاسکیں تاہم ان میں سے تین صارفین کی جانب سے یہ تین ٹویٹس24 اپریل2015،26 اپریل2015 اور یکم مئی2015 کو پوسٹ کی گئیں’’تمہاری باتیں سن کر افسوس ہوا‘‘ اور’’ شریعہ7 ویں صدی کا اندھیرا ہے۔تمہیں تمہارا شکریہ‘‘ اور’’ ہا ہا ہا۔احمقو!تم لوگ کارٹون بنانے پر غصے میں آجاتے ہو‘‘ اور’’ہم یہ تصویریں بناتے رہیں گے‘‘۔

(i) مثلاً نگرانی شدہ ٹویٹس یہ تھیں’’تم ناریل جیسے لوگوں کو اہم معلومات دیتا ہوں۔ایسی جگہ شرک ہوتا ہو اور صحابہ کرام پر لعن طعن کی جاتی ہو۔مسجد نہیں ہوسکتی‘‘۔

(j) نگرانی شدہ ٹویٹس کی ایک مثال یوں ہے’’لوگ کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘‘۔ ’’نہیں‘‘۔ ’’وہ جھوٹ بولتے ہیں‘‘۔’’انڈونیشیا کے زیادہ تر لوگ ناریل ہیں‘‘ اور’’ ناریلوں نے تو ابھی تک یہی ثابت کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔

(k) یہ نسبت60فیصد تک بڑھی۔

(l) زیر نگرانی ٹویٹ میں یہ مثال بھی تھی’’میں چاہتا ہوں کہukhtis اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرنے کیلئے Chat کے تمام سافٹ ویئر مثلاً kik & surespot اور ٹیلی گرام کا استعمال کریں یہاں مشکل کا اظہار کیا جارہا ہے‘‘۔

(m) ایک اور نگرانی شدہ ٹویٹ یہ تھی’’اسلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ ہجرت کرنے کیلئے کسی مدد کی ضرورت ہے، میراChat کا سافٹ ویئرsurespot ہے(اکاؤنٹ کے متعلق معلومات غائب کردی گئی تھی)‘‘ اور’’ہجرت کے متعلق اپنا ٹویٹ غائب کردو اور دوسرے برادران سے رابطے کیلئےsurespot کو زیر استعمال لاؤ‘‘۔

(n) اگست کے مہینے سے مسلسل کی جانے والی ٹویسٹ سے پتا چلا کہ عراق اور شام کی جانب ہجرت کی حوصلہ شکنی کی جارہی تھی کیونکہ ترکی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے تناظر میں سرحد کو عبور کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا جبکہ کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آئے جس میں لیبیا کو منزل قرار دیتے ہوئے ہجرت کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔