پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتما م ڈاکٹر خالد مسعود کی کتاب
’’امت مسلمہ دہشت کے گرداب میں ‘‘
کی تقریبِ پزیرائی
ڈاکٹر خالد مسعود اپنی کتاب پاکستان کے سابق وزر خارجہ انعام الحق اور
جرمن سکالر ڈاکٹر ڈیٹرچ کو پیش کر رہے ہیں
پاکستان میں 95فیصد قوانین عین اسلامی ہیں ،صرف پانچ فیصد قوانین ایسے ہیں جن میں اسلامی نظریاتی کونسل نے قرآن و سنت کے مطابق ترامیم پیش کی ہیں ۔لیکن یہاں ایک عام آدمی سے لے کر پڑھا لکھا بھی سمجھتا ہے کہ پاکستان میں اسلامی قانون نہیں ہے یہ ابہام علماء نے پیدا کیا ہے۔ان خیالات کا اظہار ممتاز اسلامی سکالر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئر مین ڈاکٹر خالد مسعود نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز میں اپنی کتاب ’’امت مسلمہ ،دہشت گردی کے گرداب میں ‘‘ کی تقریب اجراء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں سابق وفاقی وزیر خارجہ انعام الحق ،جرمن سکالرڈاکٹر ڈیٹرچ رٹز ،محمد عامر رانا ، وفاقی مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عامر طٰسین ، ڈاکٹر فضل الرحمٰن ، خورشید ندیم ،پروفیسر ہمایوں خان ، شکیل چوہدری ، صفدر سیال اور دیگر نے شرکت کی ۔ڈاکٹر خالد مسعود نے حاضرین کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب برِ صغیر کے مسلمانوں کے پاس انتخاب کا وقت تھا تو انھوں نے سرسید کی بجائے جمال الدین افغانی کی پیروی کی ۔اٹھارویں صدی تک خرابی مسلمانوں کے اندر تھی نو آبادیاتی دور میں انھوں نے محسوس کرنا شروع کر دیا کہ خرابیوں کی وجہ اقتدار کا خاتمہ ہے اس لئے جب تک مسلمانوں کو اقتدار نہیں ملے گا خرابیاں دور نہیں ہو سکتیں ۔جب اقتدار مل گیاتو پھر یہ ابہام پیدا ہو گیا کہ ریاست سیاسی ہو گی یا اسلامی ؟ خود مودودی اسلامی ریاست کا کوئی ڈھانچہ نہیں رکھتے تھے ۔بعد ازاں مودودی نے جو تصور پیش کیا وہ اقبال کے تصور سے یکسر مختلف تھا ۔اقبال بھی مسلم قومیت پرستی کے تصور کو واضح طور پر پیش نہیں کر سکے ۔قائد اعظم اور اقبال خلافت عثمانیہ کے بعد جو سٹرکچر بنا اس کے حامی تھے ۔لیکن ا س مسئلے پر جناح ، اقبال ،مودودی اور علماء کی سوچ الگ الگ تھی ۔جب مسلم شناخت کا مسئلہ پیدا ہوا تو قرار داد مقاصد کے ذریعے اس کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ۔جو قوتیں قیام پاکستان کی مخالف تھیں انھوں نے ابہامات سے فائدہ اٹھایا ۔مذہبی جماعتیں چونکہ اپوزیشن میں تھیں اس لئے انھوں نے ریاست کے مذہبی تصور کو زیادہ سخت انداز میں پیش کیا ۔جس سے عام آدمی نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ اسلامی ریاست ہو گی تو ان کے مسائل حل ہوں گے ۔حالانکہ پاکستان میں 95فیصد قوانین عین اسلامی ہیں ۔جو لوگ اسلامی تحریکیں اٹھا رہے وہ خود عالم نہیں ہیں مگر انھیں علماء کی مدد حاصل ہے ۔یہ سرا سر سیاست ہے ۔چنانچہ جب اسلامی ریاست کی تحریکیں شروع ہو گئیں تو انھیں نان سٹیٹ ایکٹرز نے ہائی جیک کر لیا ۔ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ نائن الیون کے بعد اسلامی تحریکیں جنگی حکمت عملی پر کاربند ہیں ۔پیرس حملوں کے بعد مغرب اور دولت اسلامیہ کے ابو بکر ناجی کی سوچ ایک جیسی ہے دونوں سلطنتوں کی جنگ لڑ رہے ہیں ،دونوں جانب سے جذبات غالب ہیں ۔دونوں انتہا پسند ہیں ۔محمد عامر رانا نے کہا کہ علماء اصلاح نہیں اقتدار چاہتے ہیں ۔