working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 سیاسی عمل کو وسعت دیجیے

نقطۂ نظر

جدید معاشرہ اور اہل مذہب کی نفسیات

محمد عمار خان ناصر

عمار خان ناصر کا شمار اہلِ مذہب کی ان نئی اور توانا آوازوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ان فکری موضوعات کو اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے جنھوں نے عصر حاضر کی کوکھ سے جنم لیا ہے ۔ان کا زیر نظر مضمون بھی اسی پیرائے میں اس بات کا جائزہ لیتا ہے کے اہل مذہب کی مروجہ علوم و فکر پر دسترس کیوں ضروری ہے ؟ عمار خان ناصر ماہنامہ الشریعہ کے مدیر ہیں اور گفٹ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے استاد ہیں ۔(مدیر)

اہل دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انبیاء کی نیابت کرتے ہوئے دین کے پیغام کو معاشرے تک پہنچائیں، دین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کو دور کریں اور دینی واخلاقی تربیت کے ذریعے سے معاشرے کو درست نہج پر استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انسانی معاشرے میں یہ کردار ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاً انبیا اور رسولوں کو مبعوث کیا اور انھی کی سیرت وکردار اس سلسلے میں نمونے اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

قرآن مجید میں انبیاء کی دعوت کی جو تاریخ بیان ہوئی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کے پیغام کو موثر اور ان کی محنت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے چند بنیادی باتوں کا خاص اہتمام کیا گیا۔ مثلاً ایک اہتمام یہ کیا گیا کہ پیغمبر کو اسی قوم میں سے مبعوث کیا گیا جو ا س کی دعوت کی مخاطب ہے اور اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں اس تک خدا کا پیغام پہنچایا۔ عام طور پر پیغمبر کو اسی قوم میں اور اسی زبان میں بھیجنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ قوم پیغمبر کے پیغام کو پوری طرح سمجھ سکے اور اسے ایک اجنبی فرد سمجھ کر بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کرے۔ یہ بات درست ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ حکمت بھی ملحوظ ہے کہ داعی اپنے مخاطب کے مزاج ونفسیات سے کماحقہ واقف ہو اور ان کے خیالات ونظریات اور ان کی جڑوں کو گہرے طو رپر سمجھتا ہو تاکہ وہ اپنی دعوت میں ان کی پوری پوری رعایت کر سکے، اس لیے کہ کسی ایک ماحول اور معاشرت میں پروان چڑھنے والا فرد کسی دوسرے معاشرتی ماحول کی باریکیوں اور نزاکتوں سے عام طور پر اتنی گہری واقفیت پیدا نہیں کر سکتا۔

اسی طرح انبیاء کے حوالے سے ایک اور خاص اہتمام یہ کیا گیا کہ ان کا تعلق حسب ونسب کے اعتبار سے اپنے معاشرے کے معزز اور اشرف طبقے سے ہو اور ذہانت، فہم وفراست اور علمی وعقلی صلاحیت کے اعتبار سے ان کا شمار قوم کے ممتاز ترین افراد میں ہوتا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغام کے اثر انگیز اور نتیجہ خیز ہونے میں داعی کی شخصیت اور مخاطب کے ہاں اس کے امیج کا بہت گہرا دخل ہے اور عام طور پر انسان کسی ایسے شخص کی بات پر توجہ دینے اور اس سے راہنمائی قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر آمادہ نہیں ہوتا جسے سماج میں احترام کا مقام حاصل نہ ہو اور جو علم وعقل اور دانش کے اعتبار سے غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل نہ ہو۔ یہ چیز انسانی نفسیات کا حصہ ہے اور اسی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے انبیا کے انتخاب میں ان کی علمی وعقلی صلاحیت اور معاشرتی حیثیت کو خاص طورپر ملحوظ رکھا ہے۔

مذکورہ تمام اہتمامات سے مقصود یہ تھا کہ انبیاء اپنی مخاطب قوموں کے تمام طبقات تک رسائی حاصل کرکے انھیں اپنی بات سمجھا سکیں اور ان کے اور ان مخاطبین کے مابین ماحول میں کوئی نفسیاتی حجاب یا اجنبیت حائل نہ ہو۔ جہاں تک قبول حق کے حوالے سے کسی انسان کی داخلی استعداد اور آمادگی کا تعلق ہے تو وہ ایک الگ مسئلہ ہے اور یہ ممکن ہے کہ ابلاغ حق کی تمام شرائط پوری ہونے کے باوجود کچھ لوگ ضد، عناد اور تکبر کی وجہ سے حق کو قبول نہ کریں، لیکن اس سے ہٹ کر خارجی ماحول میں پائے جانے والے ممکنہ حجابات کو دور کرنے کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ داعی حق اوراس کے مخاطب کے مابین ایسے کسی حجاب یا ذہنی ونفسیاتی بعد کو دور کرنے کی ذمہ داری اصلاً داعی پر ہی عائد ہوتی ہے نہ کہ مخاطبین پر۔

اس تمہید کی روشنی میں اگر ہم اپنے معاشرے میں علماء دین اور مذہبی طبقات کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی نفسیات ابھر کر آتی ہے جس کی تشکیل داعیانہ ہمدردی اور انسانی خیر خواہی کے زیر اثر نہیں، بلکہ طبقاتی مخاصمت اور حریفانہ کشاکش کے اصول کے تحت ہوئی ہے۔ مذہبی ذہن صدیوں سے جس صورت حال کا خوگر اور جس طرز معاشرت سے مانوس رہا ہے، وہ یہ تھی کہ مذہب ایک اعلیٰ روحانی واعتقادی سرچشمے کی حیثیت سے معاشرے میں ایک مسلمہ معیار کی حیثیت رکھتا تھا، معاشرتی واخلاقی قدروں پر عمومی طور پر اس کی گرفت قائم تھی اور مذہبی علم واخلاق کی نمائندگی کرنے والے طبقات یعنی علما اور صوفیا کو نہ صرف عزت واحترام کا مقام حاصل تھا، بلکہ تھیاکریسی کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہ ہونے کے باوجود، دین وشریعت کی تعبیر میں علمی سطح پر انھی کو مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا نہیں کہ فرد اور سماج کی سطح پر منکرات کا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ معاشرتی خرابیاں ہر دور میں رہی ہیں، تاہم دین وشریعت کو ایک مسلمہ معیار کی حیثیت حاصل ہونے اور مذہبی طبقے کے لیے مختلف حیثیتوں میں ایک باعزت اور باوقار کردار ادا کرنے کے مواقع نے اسے معاشرے سے اجنبیت کے احساس میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔

دور جدید میں صورت حال ان تمام پہلوؤں سے بہت مختلف ہو چکی ہے جس کا نتیجہ ہمیں اہل مذہب اور معاشرے کے دیگر طبقات کے مابین ایک گہرے ذہنی ونفسیاتی بعد کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ مذہب سے وابستہ طبقوں اور معاشرے کے مابین اجنبیت کی ایک دیوار حائل دکھائی دیتی ہے اور ارباب مذہب کی فکر اور حکمت عملی میں اصلاح کے ہمدردانہ اور داعیانہ جذبے کے بجائے شکوہ شکایت اور تنافر کا عنصر بالعموم غالب ہوتا ہے۔ گرد وپیش کے ناسازگار ماحول کے خلاف اسی نفسیاتی رد عمل کا ایک اظہار یہ ہے کہ معاصر مذہبی ذہن اپنے اظہار کے سانچوں میں رنگا رنگی اور تنوع کے باوصف، مجموعی حیثیت سے ایک ہی ذہنی رویے کی نمائندگی کرتا اور معاشرے میں اسی کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رویہ معاشرے سے گریز اور فرار (escapist attitude) اور معاشرے کے دوسرے طبقات سے اجنبیت اور بے گانگی کا رویہ ہے۔ ان میں سے جن عناصر (مثلاً تبلیغی جماعت اور جہادی ذہن) کی penetration ہر طرح کے طبقات میں ہے، ان کے پاس بھی معاشرے میں رہ کر مثبت طور پر مواقع اور امکانات کو دریافت کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے کا نہیں، بلکہ معاشرے سے ہٹ کٹ کر ایک خاص روحانی ماحول میں تسکین پانے یا کسی خارجی دشمن کو نیست ونابود کرنے کا پیغام ہے۔

مذہبی تعلیم وتربیت میں سب سے بنیادی اہمیت اہل مذہب کے ذہنی وفکری سانچے کی متوازن تشکیل اور ان کے اندر ‘علمی رویے‘ کو پروان چڑھانے کو حاصل ہے۔ مذہبی طبقہ ’علمی رویے‘ کے تصور سے، بالعموم، ناآشنا ہو چکا ہے اور اس کے بجائے ان کے ہاں ’مفتیانہ رویہ‘ جڑ پکڑ چکا ہے۔ علمی رویے کے تحت کسی بھی مسئلے کو نہایت ہم دردی اور معروضیت کے ساتھ اس کی علمی بنیاد میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس میں کوئی سقم نظر آئے تو علمی دلائل ہی کے ساتھ اس کی غلطی کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے برخلاف مفتیانہ ذہن مخاطب کے فکری وذہنی پس منظر کو سمجھے بغیر اور اس کو استدلال سے متاثر کرنے کے بجائے ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کی نفسیات کے تحت تحکم کے انداز میں اپنی رائے اس پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور اس پر اگر اسے بحث کے علمی واخلاقی آداب کی طرف توجہ دلائی جائے تو کوئی شرمندگی محسوس کیے بغیر اپنے طرز عمل کے لیے ’نہی عن المنکر‘ کے اصول سے اخلاقی جواز تراشنے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔

تحفظاتی نفسیات کے زیر اثر مذہبی طبقات نے وسیع تر علمی وفکری استفادے کو اپنے ہاں شجرممنوعہ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ جدید علمی وفکری مسائل کا تجزیہ اور ان کے حوالے سے معاشرے کی راہ نمائی سرے سے موجودہ دینی تعلیم کا نظام کا مسئلہ ہی نہیں۔ اہل مذہب کا مطمح نظر اس نظام سے صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے اپنی space کو محفوظ رکھیں اور ایک سماجی طبقے طورپر اپنی حیثیت منوانے اور اپنے دائرۂ اثر کو وسیع تر اور پائیدار بنانے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ اس کے لیے معاشرے میں مذہب کے ساتھ ایک عمومی وابستگی اور اس کی بنیاد پر ملنے والی تائید وحمایت انھیں پیش نظر مقصد کے لیے کافی محسوس ہوتی ہے، چنانچہ معاشرے کو علم وعقل اور اخلاقی تربیت کے میدان میں جن سوالات کا سامنا ہے، وہ اہل مذہب کی توجہ سے خارج ہیں۔ یہ نظام پورے معنوں میں ایک گروہی، حزبی اور طبقاتی نفسیات کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہر مذہبی طبقہ فکر اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اپنے وابستگان کے علمی وفکری استفادے کو ایک خاص دائرے کا پابند رکھے اور چند مخصوص فکری ترجیحات اور علمی شخصیات سے ہٹ کر، جو اس طبقہ فکر کے جداگانہ فکری تشخص کی علامت ہیں، ان کے لیے اخذ واستفادہ کا دروازہ بند رکھا جائے۔

اہل مذہب کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی ذمہ داری کافی حد تک خود ان پر عائد ہوتی ہے۔ علم کلام اور فقہ وشریعت کے دائروں میں نئے پیدا ہونے والے مباحث کے حوالے سے علمی خلا کو موثر طریقے سے پر کرنے سے صرف نظر کا رویہ آخر کس نے اختیار کیے رکھا؟ اگر ان کے اس اعراض کے نتیجے میں بعض نئے فکری طبقات کو آگے بڑھنے اور اس میدان میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ہے تو کس بنیاد پر ان طبقوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ روایتی اہل مذہب کے بالمقابل تعبیر دین کے حق سے دست بردار ہو جائیں ؟

روایتی مذہبی طبقے نے مغربی فکر وتہذیب کے چیلنج کے نمودار ہونے کا نہ پیشگی اندازہ کیا اور نہ اس کے لیے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت محسوس کی، بلکہ جب یہ چیلنج اپنے تمام تر مضمرات سمیت ان کے سامنے آکھڑا ہوا تو بھی وہ، اپنی علمی وذہنی حالت کے پیش نظر، اس سے مسلسل صرف نظر کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقائد وکلام سے لے کر تعلیم ومعاشرت اورمعیشت اور تہذیب کے دائروں میں پیدا ہونے ان گنت نئے مباحث میں داد تحقیق دینے کے لیے روایتی علمی طبقہ سے باہر کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے ذوق اور فہم وفراست کے مطابق ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے اہل علم کے روایتی طبقہ کو ماضی میں جو بلاشرکت غیرے (Exclusive) مرجعیت حاصل تھی، وہ ختم ہو گئی۔ ان کی حیثیت اب اس میدان کے ’’ایک‘‘ فریق کی ہو گئی جسے اپنی تعبیر دین، بہرحال، ایک ’’تعبیر‘‘ ہی کی حیثیت سے پیش کرنی اور استدلال ہی کے زور پر مخالف تعبیرات پر تنقید کرنی ہے۔ تاریخی، تہذیبی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے طبقہ علما کو جو برتری ماضی میں حاصل تھی، اس کے کھو جانے کے بعد اب علمی استدلال کی قوت ہی ان کا واحد سہارا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے لیکن طبقہ علما اس پوزیشن کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پرتیار نہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ مختلف عوامل کے نتیجے میں ایک نیا پراسس شروع ہو کر ملت کے فکری دھارے میں شامل ہو چکا ہے اور قدیم وجدید کی یہ فکری Polarityاب ناقابل معکوس طریقے سے تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ نظری طور پر بے شک یہ بحثیں اٹھائی جا سکتی ہیں کہ فقہ واجتہاد کی مطلوبہ علمی شرائط کیا ہیں اور تعبیر دین کا اختیار مانگنے والے نئے فکری طبقات ان کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، لیکن تاریخ کا جبر اس استدلال کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ کوئی بھی تعبیر دین، خواہ وہ علما کی نظر میں کتنی ہی غلط، بے بنیاد اور مسلمات کے خلاف کیوں نہ ہو، اگر اسے معاشرے کے فہیم طبقات میں پذیرائی حاصل ہے تو محض علما کی خواہش یا مطالبے پر اسے نابود نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نئی صورت حال کو شعوری طور پر قبول کرنا، اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر اس سے ہم آہنگ کرنا اور سنجیدہ علمی مزاج کو اجتماعی طور پر اپنے اندر پروان چڑھانا ہی بہتری اور اصلاح حال کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ نکتہ بھی اہل مذہب کے سنجیدہ غور وفکر کا مستحق ہے کہ اگر دین کی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ، ابن خلدون، ابن عربی اور شاہ ولی اللہ کی سطح کے مفکرین پیدا ہوں جو علم وعقل کے میدان میں درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہو سکیں تو ظاہر ہے کہ وہ ان فکری قدغنوں کے ماحول میں پیدا نہیں ہو سکتے جہاں تقلید آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہو اور اجتہاد اور آزادئ فکر کو طعنے بلکہ گالی کا درجہ دے دیا جائے۔ یقیناًآزادئ فکر میں خطرات بھی ہیں، لیکن یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا کیونکہ یہ قیمت ادا کیے بغیر اعلیٰ سطح کی وہ فکری وتخلیقی دانش پیدا نہیں کی جا سکتی جس کا فقدان اس وقت بانجھ پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

علما کو یہ حقیقت بھی سمجھنا ہوگی کہ ماضی میں انھیں حاصل معاشرتی قدر ومنزلت اور مرجعیت کوئی خدائی استحقاق نہیں بلکہ اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ معاشرے کے عوام وخواص کو ان کی علمی لیاقت اور فہم وبصیرت پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دور کے علمی وعملی سوالات کا ادراک کرنے اور ان کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ نتیجہ اب بھی اس شرط کو پورا کیے بغیر ممکن نہیں۔ علما اگر اپنے علم وفہم کا معیار بہتر کریں گے، جدید ذہن کے سوالات اور جدید معاشرے کے مسائل کا ادراک کریں گے اور علم وفکر کی سطح پر معاشرے کی قیادت کی اہلیت اپنے اندر پیدا کریں گے تو انھیں وہ احترام اور وقار خود بخود حاصل ہو جائے گا جس کے حاصل نہ ہونے کے وہ اس وقت شاکی ہیں۔ ان میں سے اس معیار پر پورے اترنے والے اہل علم کو انفرادی سطح پر یہ مقام اب بھی حاصل ہے۔ وہ اگر بحیثیت طبقے کے اس کے خواہاں ہیں تو اس کے تقاضوں کو بھی پورے طبقے ہی کی سطح پر پورا کرنا ہوگا۔

مذہبی طبقے کو اس حقیقت کو بھی پوری طرح مد نظر رکھا ہوگا کہ مسلم معاشرہ اس وقت فکری، تہذیبی، نفسیاتی اور اخلاقی اعتبار سے شدید شکست وریخت کا شکار ہے۔ وہ بے حد ہمدردی، داعیانہ اخلاص اور لطف وملائمت کے ساتھ تعمیر نو کا محتاج ہے۔ وہ کوئی ہٹا کٹا اور تنومند معاشرہ نہیں جس پر اندھا دھند شرعی حدود نافذ کر دی جائیں۔ وہ ایسا بیمار ہے کہ اس مرحلے پر اگر اسے علامتی طور پر جھاڑو کے تنکے مار دیے جائیں تو بھی شریعت کا منشا پورا ہو جائے گا۔ اس کی مثال اس ماں کی سی ہے جسے بدکاری کی سزا دینے کے لیے اس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا جب وہ اپنے بچے کو جنم دینے کے بعد اس کی پرورش کے ضروری مراحل سے فارغ ہو جائے۔ وہ اس وقت ایک فقیہ اور قاضی کے دروں سے زیادہ ایک صوفی کی دل گداز باتوں اور ایک مسیحا کے پھاہوں کا محتاج ہے۔ اس کا علاج فقیہوں اور فریسیوں کے بے لچک ضابطوں میں نہیں، بلکہ سیدنا مسیح کے دل نواز وعظوں میں ہے۔

کوئی بھی طبقہ اپنی بقا اور اپنے کردار کے مفید تسلسل کے لیے خو دتنقیدی اور داخلی احتساب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بد قسمتی سے اہل دین اس وقت اپنی ترجیحات اور اپنے متعین کردہ کردار کے حوالے سے سخت حساسیت کا شکار ہیں اور کسی بھی قسم کا تنقیدی تجزیہ سننے اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس کی وجہ قابل فہم ہے، کیونکہ جب کوئی طبقہ چاروں طرف سے یلغار کا شکار ہو اور ہر طرف سے جائز یا ناجائز اعتراضات سخت اور تیز وتند لہجے میں وارد کیے جا رہے ہوں تو وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر کیموفلاج کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ تاہم اگر اہل مذہب اپنے کردار کو دفاع سے اقدام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو تنقید کے حوالے سے ’ذکاوت حس‘ کی یہ کیفیت نہایت منفی اور مضر ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ نہ صرف خارج اور داخل سے ہونے والی مختلف تنقیدوں کو پوری توجہ سے سنیں اور ان پر غور کریں بلکہ ازخود تنقیدی سوالات اٹھانے کا رجحان بھی پیداکریں۔ مدارس کے اساتذہ آپس میں ان موضوعات پر گفتگو کریں، تنقیدوں کا سنجیدہ تجزیہ کریں، ان کے مثبت اور منفی پہلووں کو متعین کریں اور اس طرز فکر کو مدارس کے ماحول کا حصہ بنائیں۔ اس سے چیزیں نکھریں گی اور خیالات اور ترجیحات میں وضوح پیدا ہوگا جو اہل دین کو اپنے آئندہ کردار کے تعین میں مدد دے گا۔